15رمضان المبارک کو پاکستان اور اسلامی ممالک کی عالمی تنظیم او آئی سی (آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن)کے تحت مسلم دُنیا میں "یومِ یتا میٰ" (Orphans Day) کے طور پر منایا جاتا ہے۔ کورونا کی عالمی وبا نے جہاں باقی شعبہ ہا ئے زندگی کو بُری طرح متاثر کیا، وہاں ہی بے روزگاری، غربت میں بھی اضافہ ہورہا، ایسے میں سفید پوش دو وقت کی روٹی کے لیے مجبور ہو چکا، تو پھر یتامیٰ جو پہلے ہی بے سہار ا ہیں، ان کا کیا حال ہو گا؟ اس تناظر میں یہ دن انتہائی اہمیت کا حامل ہے، یہ ہمارا اولین فرض ہے۔ یونیسف کی رپورٹ کے مطابق یتامیٰ کی تعداد 15کروڑ سے تجاوز کر چکی، جس میں اکثریت مسلمان بچوں کی ہے، جو کہ 75 فیصد بنتی ہے۔ وادی کشمیر، فلسطین، عراق، افغانستان میں ان یتیم بچوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
مسلمان کی حیثیت سے اللہ تبارک و تعالیٰ کے قرب کے حصول کا ایک ذریعہ یتیم کی کفالت، ان کی زندگیا سنوارا، ان کے سر پر ہاتھ رکھنا، ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ہے اور یہ ہمارے نبی آخر الزماں حضرت محمدﷺ کی سنت بھی ہے۔ عام طور پر عالمی دن کا تعین اقوام متحدہ، یونیسف وغیرہ نے کیا ہے، لیکن بعض صورتوں میں مختلف ممالک نے مخصوص دنوں کو اپنے طور پر منانے کا اہتمام کرلیا ہے۔ یتیم کی کفالت، اس سے خصوصی محبت، عقیدت اور احترام مذہب اسلام میں ہی پایا جاتا ہے۔ پاکستان کے منتخب ایوان "سینٹ" نے یتیم اور بے سہارا بچوں کے لیے قرآن و حدیث میں موجود ہدایات کی روشنی میں اور ان کے جانب عوام کی توجہ مبذول کرانے کے لیے 15رمضان المبارک کو یتیموں اور بے سہار بچوں کا دن قرار دینے کی قرار داد ایوان میں منظور کی۔ یہ قرار دادمتفقہ طور پر 20 مئی 2016ء کو منظور کر لی گئی جو ریزولوشن نمبر264کہلاتی ہے، اس کا بنیادی مقصد اس دن یتیم اور بے سہارا بچوں کے بارے میں آگاہی اجاگر کرنا ہے۔ متعلقہ اداروں کوایسے بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے سماجی بہبود کے منصوبے تشکیل دینے کی جانب توجہ مبزول کرانا ہے۔ پاکستان کے علاوہ او آئی سی (Organization of Islamic Cooperation، OIC)نے بھی 15رمضان کو "یوم یتامیٰ" (Ophans Day)کے طور پر منانا طے کیا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد مسلم معاشرہ میں یتیم بچوں کے حقوق اور من حیث القوم معاشرے کی اجتماعی ذمہ داریوں کا شعور اجا گر کرنا ہے۔
اس دن یتیموں اور بے سہار بچوں کے حوالے سے پروگرام ترتیب دیے جاتے ہیں جن میں یتیموں کے لیے قر آن و سنت میں جو احکامات آئے ہیں ان پر مسلمانوں کی توجہ مبذول کرائی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں یتیم بچوں کی فلاح و بہبود اور کفالت کرنے والے رفاہی ادارے "پاکستان آرفن کئر فورم"(Pakistan Orlphan Care Forum) کے پلیٹ فارم سے 15رمضان المبارک کو ملک بھر میں "یومِ یتامیٰ" منایا جاتا ہے۔ اس شعبہ سے وابستہ دیگر ادارے بھی اس دن مختلف پروگراموں کا اہتمام کرتے ہیں۔ یونیسف کی رپورٹ کے مطابق دُنیا میں اس وقت15 کروڑ20 لاکھ بچے ایسے ہیں جو کہ اپنے ماں باپ (والدین) کو کھوکر زندگی گزاررہے ہیں۔ ایشیاء میں بھی 6 کروڑبچے یتیم ہیں۔
پاکستان 22 کروڑ آبادی کا ملک جس کی آبادی میں نوجوانوں اور بچوں کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ پاکستان میں صرف 5 کروڑ بچے ہیں اور ان میں سے 42 لاکھ بچے یتیم ہیں جن کی عمریں 17سال سے کم ہیں اور انہیں صحت، تعلیم، خوراک جیسی بنیادی سہولیات میسر نہیں، ایام منانے کا رواج عام ہوگیا ہے، مدر ڈے، فادر ڈے، ارتھ ڈے وغیرہ۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ جو کام ہمیں روز کرنے چاہیے ان کی یاددہانی سال میں ایک بار تو ہو ہی جاتی ہے۔ یتیموں کے حوالے سے قرآن ہمیں جو ہدایت دیتا ہے اور نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ نے جو ہدایات دیں وہ ہمارے لیے رہنما ہیں۔ دُنیا بھر میں باالعموم دہشت گردی، بدامنی، قدرتی آفات اور دیگر وجوہات کی بنا پر شرح اموات میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے اور یتیم بچوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اسلامی دُنیا میں یہ دن پورے اہتمام سے منایا جارہا ہے۔
پاکستان میں یتیم بچوں کی تعداد تقریبا 42 لاکھ ہے۔ شومئی قسمت ہمارے تعلیمی اداروں بشمول پرائمری، مڈل، ہائی، کالج اور یونیورسٹیوں میں ان یتیم بچوں کے لیے نہ تو کوئی کوٹہ مقرر ہے اور نہ فیس میں کمی کا کوئی قانون بن سکا۔ گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان دہشت گردی کا شکارہے، جس کی وجہ سے یتیم بچوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ یہ امر باالخصوص توجہ طلب ہے کہ بیرونی جارحیت اور اندرون ملک دہشت گردی کے واقعات میں لقمہ اجل بن جانے والے شہریوں کے بچوں کی دیکھ بھال کا سرے سے کوئی انتظام ہی نہیں۔ آزادکشمیر میں کتنے ایسے شہید ہیں جنہوں نے تحریک آزادی کشمیر کے لیے اپنی جانیں دیں اور ان کے معصوم بچے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ وطن پر جان نچھاور کرنے والے شہیدوں کی بچوں کی کفالت کا کوئی انتظام ہم نہیں کر پائے۔ کنٹرول لائن پر آباد پانچ لاکھ سے زیادہ آبادی براہ راست بھارتی گولوں کی زد میں ہے اور کتنے لوگ بھارتی جارحیت کا نشانہ بن رہے ہیں اور کتنے بچے والدین کی شفقت سے محروم ہو رہے ہیں، عوامی سطح پر بھی کہیں کوئی تحریک نظر نہیں آرہی، کوئی منظم کوشش نہیں کی جارہی۔ ذرائع ابلاغ منفی پہلو کو اجاگر کرنے میں لگے ہوئے ہیں، کہیں سے ان یتیم بچوں کے لیے آواز اٹھتی سنائی نہیں دیتی۔
والدین کی شفقت سے محروم بچوں کی ایک بہت بڑی تعداد اس معاشرے کے اہل خیر کی توجہ کی منتظر ہے۔ جنگوں، آفتوں اور قدرتی طوفانوں کی وجہ سے والدین سے محروم ہونے والے بچوں کی ایک بڑی تعداد کی مشکلات کا ہم بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں، چونکہ ہم نے یہ مشکل وقت اپنے زلزلہ زدہ علاقوں اور کشمیر میں ایسے بے شمار یتیم بچوں اور بچیوں پر آتے خود دیکھاہے جن کے والدین زلزلے کی نذر ہوگئے تھے اور جو دیکھتے ہی دیکھتے دنیا میں بے یارومددگار رہ گئے۔ میری آرزو ہے کہ ہم سب جن کو ہمارے عظیم رب نے مالی آسودگی دی ہوئی ہے، آگے آئیں او رنہ صرف دودو چار چار بچوں کی تعلیم اور تربیت کا ذمہ اٹھا لیں بلکہ جہاں جہاں ممکن ہو ایسے بڑے ادارے خود بھی قائم کریں تاکہ اپنے وطن میں یتیم بچوں کی اتنی بڑی تعداد کو اس معاشرے کا کار آمد شہری اور فرد بنانے میں اپنا کردار ادا کیا جا سکے۔
یہ بچے ہماری قوم کا مستقبل ہیں، اگر ان پر بروقت توجہ نہ دی گئی تو وہ کل ہمارے لیے سرمایہ بننے کے بجائے رہزن اور ڈاکو بننے پر مجبور ہوں گے۔ اس کے منطقی نتیجے کے طور پر ہمارے بچے ان رہزنوں کا شکار ہوں گے۔ یہ کتنا تکلیف دہ پہلو ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان یتیم بچوں کی کفالت دراصل اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ کرنے کی کوشش ہے۔ یہ کام اتنا مقدس ہے کہ جہاں اپنے بچے محفوظ ہوں گے وہاں ہمیں دنیا اور آخرت کا اطمینان اور جنت کی بشارت بھی ملے گی۔ دلوں کو سکوں اور آخرت میں راحت کیا کم صلہ ہے۔ انفرادی کوششوں کی اپنی جگہ اہمیت ہے لیکن یہ مسئلے کا حل نہیں۔ اس لیے ریاستی سطح پر اس معاملے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ میٹرک میں اچھے نمبر لینے والے یتیم بچوں کے لیے تمام سرکاری اور نجی کالجوں میں کوٹہ مقرر کیا جائے اور سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں میں یتیم بچوں کے لیے ایک فیصد کوٹہ مقرر کیا جائے۔ مقامی اور بین الاقوامی این جی اوز کو پابند کیا جائے کہ ہر این جی او اپنے ہاں یتیم بچوں کا شعبہ قائم کرے گی اور اپنے وسائل کا ایک حصہ اس شعبے کے لیے وقف کرے گی۔ ذرائع ابلاغ بالخصوص الیکٹرانک میڈیا کے اشتراک سے یتیم بچوں کے لیے فنڈریزنگ کی جائے۔ عوامی بیداری کے لیے ہر میڈیا ہاوس روزانہ کم از کم دس منٹ کفالت یتیم کے لیے وقف کرے۔ اس طرح معاشرے میں اس مقدس کام کی اہمیت اجاگر ہو گی اور صاحب خیر کی بڑی تعداد اس کام کی سرپرستی کرنے لگے گی۔
سرکاری اور نجی اداروں میں ملازمت میں بھی ایک فیصد کوٹہ یتیم بچوں کے لیے وقف کیا جائے تاکہ وہ زندگی کی دوڑ میں معاشرے میں اپنا مقام حاصل کرسکیں اور اپنے خاندانوں کے کفیل بن سکیں۔ ہمارے معاشرے میں یتیم بچوں پر وہ عذاب نہیں ٹوٹے جس کا انہیں امریکہ یا یورپ میں سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اقوام متحدہ کی ہی رپورٹ کے مطابق یورپ میں 20 لاکھ یتیم بچوں کو جسم فروشی یعنی پراسٹی ٹیوشن کے عذاب میں جھونک دیا جاتا ہے۔ آرگن مافیا کے ہاتھوں بربادہونے اور موت کے گھاٹ اترنے وا لے یتیم بچوں کی تعداد بھی 15 لاکھ سے زیادہ ہے جن کو ہیومن ٹریفکنگ کے بعد اپنے جسموں کے قیمتی اعضا سے محروم کر کے پوری بے رحمی کے ساتھ تڑپ تڑپ کے مرنے دیا جاتا ہے۔ مقام شکر ہے کہ پاکستان میں ایسی شرمناک صورتحال نہیں، اللہ اور اس کے رسول کو ماننے والے اہلِ دل اور اہلِ درد ہزاروں بچوں کو پال رہے ہیں ان کی تعلیم کے اخراجات اٹھا رہے ہیں مگر وقت آگیا ہے کہ یہ قوم اس مسئلے کہ طرف زیادہ منصوبہ بندی اور دلشوزی کے ساتھ توجہ دی جائے، عالمی وبا، عید کی آمد اور یوم یتامیٰ نے یہ موقع فراہم کیا ہے کہ ہم اپناکردار ادا کریں۔