1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عابد ہاشمی/
  4. 6 ستمبر، یومِ تجدید عہد غیرت و حمیت

6 ستمبر، یومِ تجدید عہد غیرت و حمیت

06 ستمبر کا دِن پاکستان کی تاریخ میں کبھی بھلایا نہیں جاسکتا۔ یہ دِن پُوری پاکستانی قوم اور خاص طور پر افواجِ پاکستان کے لئے قابلِ فخر دن ہے۔ یہی وہ وقت تھا جب ہر مخلص پاکستانی نے اپنی جان کی پروا کئے بغیر ملک کا دفاع کیا تھا، اسی لئے ہر سال 6 ستمبر کا دن ہر پاکستانی، کشمیری یومِ دفاع پاکستان کے طور پر مناتا ہے۔ جنگِ ستمبر پاکستانی قوم اور افواجِ پاکستان کے لئے ایک بہت بڑا امتحان تھا جس میں الحمد? یہ قوم اور اس قوم کے بہادر سپاہی پوری طرح کامیاب ٹھہرے۔

6 ستمبر پاکستان کی تاریخ کا سنہرا دن مسلمانوں کے باہم اتحاد اور یگانگت کا عملی مظہر ہے، جس نے پاکستان کا سر فخر سے بلند کر دیا اور جذبہ ایمانی کے ذریعے بھارت کے شب خون کا منہ توڑ جواب دیا۔ یوم ِدفاع تجدید کا دن ہے اور تقاضا کرتا ہے کہ مسلمان نفرتوں، عداوتوں کی کو بھولا کر اپنی گم کردہ راہ پر آئیں، متحد ہو کر بیرونی طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ باور کرادیں کہ ابھی ایمان کی حرارت دِلوں میں زندہ ہے۔

6 ستمبر وہ دن ہے کی جب جرات و بہادری کی وہ تاریخ رقم ہوئی جو رہتی دُنیا تک درخشاں رہے گی۔ اس دن کو ہم یوم دفاع کے طور پر مناتے ہیں۔ اس دن بھارت نے پاکستان پر حملہ کردیا مگر پاک فوج اور ہمارے لوگوں نے دشمن کو ایسا دندان شکن جواب دیا جسکی مثال پوری دُنیا میں نہیں ملتی۔

ہر مشکل کے بعد آسانی ہے، رات جس قدر تاریک اور طویل ہوتی ہے اس کی صبح اسی قدر اجلی اور رنگین ہوتی ہے، ایسی کو ئی شب نہیں جس کی سحر نہ ہو۔ سیاہی کا وجود ہی سفیدی کی اہمیت اور پہچان بنتا ہے اور ہر تعمیر، تخریب کی کوکھ سے جنم لیتی ہے اورہر تخریب کا انجام تعمیر ہوتا ہے اسی طرح فطرت ہزاروں ستاروں کا خون کرتی ہے تب سحر پیدا ہوتی ہے۔ قوم کے یہ نوجوان وہی ستارے ہیں کہ جنکا خون کر کے اجلی، سفید اور روشن سحر پیدا ہوئی ہے۔ قوموں کے عروج و زوال کی داستانیں انہی نوجوانوں کے کردار کی مرہون منت ہیں۔

بھارتی افواج نے سترہ دِن میں 13حملے کئے لیکن وہ لاہور کے اندر داخل نہ ہو سکی۔ یہی وہ نوجوان ہیں جنکی سخت کوشی اور عرق ریزی نے صحراوں میں پھول کھلائے۔ خون دل دے کر وطن کے چمن کی آبیاری کی۔ آسمانوں کو اپنی منزل بنانے والوں ان نوجوانوں کے عزم و حوصلے اور بلند عزائم کے سامنے آسمانوں کی بلندیوں پر جمنے والی ستاروں کی محفل بھی ہیج ہوتی ہے۔ سلام ہے ان ماؤں کو جنہوں نے چٹان جیسے حوصلے کے حامل نوجوانوں کو جنم دیا۔ ہم نے اپنے ماضی سے سبق حاصل نہ کیا اور آج ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگے ہیں اور ہمیں اس بُری طرح ایک دوسرے سے علیحدہ کرنے کی منظم کوشش کی جا رہی ہے کہ ہم دشمن کی اس چال کو سمجھ کر بھی انجان بنے بیٹھے ہیں۔ واے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا، کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا۔

1965ء کے بعد ہماری قوم قیامت صغری زلزلے پر ایک ہوئی، پھر ہم لوگ سیلاب پر اکٹھے ہوئے، اور کچھ حد تک کورونا میں ایک دوسرے کا خیال آیا، ہم نے ذاتی اختلافات، اختلاف ِرائے کے حسن کے بجائے ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کی ٹھان لی، جس سے ہم ایک دوسرے کے دست و گریبان ہو چکے، پاکستانی ہونے کے بجائے پنچابی، سندھی، بلوچی، کشمیری ہونے پر فخرکناں ہونے لگے، ایک امت کے بجائے فریقوں کو اہمیت دینے لگے، تقسیم در تقسیم نے ہمیں کمزور سے کمزور تر بنا دِیا۔ ہمیں ایک دوسرے کے ایسا بیگانہ کر دیا ہے کہ اب اگر کوئی سڑک پر حادثہ پیش آتا ہے تو ہم لوگ کھڑے خاموش تماشائی بنے ہوتے ہیں اور کوئی عملی قدم نہیں اٹھاتے۔ آج ہمارا ملک گوں نہ گوں مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ انسانی ہمدردی ایک خواب بن چکا۔

آج معاشرہ دوحصوں میں بری طرح توڑ دیا گیا ہے ایک طرف شاہراؤں پر چمکتی دمکتی گاڑیاں ہیں اور دوسری طرف غریب روٹی ہمارے پھیکنے کوڑا کرکٹ سے روٹی کے ٹکڑے کھانے پر مجبور ہے۔ انسانیت کا معیار صرف دولت اور مادیت پرستی ہے۔ حتی کہ زمانے کے معاشرتی اور اخلاقی اقدار میں تبدیلی آچکی ہے۔ یہاں پرجس انسان کے پاس جتنی زیادہ دولت ہو گی اسی قدر اسے معاشرے میں قابل احترام سمجھا جاتا ہے گویا کہ شرفِ انسانی کی کوئی قدروقیمت ہی نہ ہو۔ اور یہ سب اس روشن خیالی کی عنایت ہے جس نے ہماری اخلاقی اور سماجی قدریں پامال کر دی ہیں۔

انسان کے اندر سے انسانیت کا جوہر ختم ہوجاتا ہے۔ دُنیا کی ہوس اور لالچ نے لوگوں کے اندر انسانیت کے چھپے ہوئے عنصر کو ختم کردیا ہے اس قدر نفسا نفسی کا عالم ہے کہ لوگوں کے اس ہجوم میں انسان تلاش کرنا مشکل ہوگیاہے۔ درحقیقت آجکل زمیں پر جنگ کا بازار گرم ہے اور انسانی لہو پانی سے بھی زیادہ سستا ہو کر رہ گیا ہے یوں لگتا ہے کہ انسان کل بھی جنگلوں کا مکین تھا اور آج بھی اسکا مسکن جنگل ہی ہیں آج انسان کے طاہر و باطن میں تضاد ہے اور یہ تضاد انسانیت کو موت کی جانب دھکیل رہا ہے۔

یاد رکھیں! ہم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے، اپنے حصے کا فرض ادا کیجیے، کسی کو مہردِ الزام ٹھہرانے سے پہلے اپنی کاوش وطن کے لیے ایک بار ضرور دیکھ لیں۔ اگر ہم خود قطرہ قطرہ کر کے اس ملک کہ سنوارنے میں اور اس وطن عزیز کے موجودہ حالات کو ٹھیک کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں تو وہ دن دور نہیں کے اس ملک کا شمار بھی ترقی یافتہ ممالک میں ہو سکتا ہے۔

دِن منانا، تقاریبات کرنے، شعلہ بیانی سے ترقی نہیں ہو سکتی، بلکہ وقت تقاضا کر رہا ہے کہ ہم ایک جسم کی مانند ہو کر دشمن کو دندان شکن جواب دیں، 06ستمبر ہو یا کوئی بھی معرکہ ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ" سات صندوقوں میں بھر کر دفن کر دو نفرتیں، آج انساں کو محبت کی ضرورت ہے بہت"

06ستمبر پاکستان کی تاریخی جیت اور بھارت کی بدترین شکست کا دِن ہے۔ ان شاء اللہ وہ دِ ن میں قریب تر ہے جب بھارت کومقبوضہ کشمیر میں ایسی ہی بدترین شکست سے دوچار ہونا ہو گا۔ بس ہمیں اس دِن یہ تجدید کرنا ہو گا کہ ہمیں نے اختلافات رائے کو خون کی ہولی، تقسیم در تقسیم کا ذریعہ نہیں بنانا، اس دِ ن کا پیغام ہے کہ "دلوں میں حب وطن ہے اگر تو ایک رہو، نکھارنا یہ چمن ہے اگر تو ایک رہو"۔

عابد ہاشمی

Abid Hashmi

عابد ہاشمی کے کالم دُنیا نیوز، سماء نیوز اور دیگر اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔ ان دِنوں آل جموں و کشمیر ادبی کونسل میں بطور آفس پریس سیکرٹری اور ان کے رسالہ صدائے ادب، میں بطور ایڈیٹر کام کر رہے ہیں۔