اس وقت دنیا کررونا کی عالمی وبا ۶ سے نبردآزما ہے، موودی نے مقبوضہ کشیمر میں جبری کرفیو ختم کرنے، سیاسی قیدیوں کی رہائی کے، وادی میں ڈومیسائل قوانین کا ڈرامہ رچا لیا، موودی کو سمجھ جانا چاہیے تھا کہ ان کی سفاکی نے پوری دنیا کو لاک ڈوان میں بدل دیا، اب دنیا کی آنکھ کھل جانی چاہیے۔ دنیا قلیل عرصہ کے لاک ڈاون سے پریشان، جبکہ کشمیر جبری کرفیو میں سات ماہ سے قید ہیں۔
مقبوضہ کشمیرمیں ظالم اور سفاک فوج سیاہ قوانین کا سہارا لے کر انسانی آبادی کو مٹا ڈالنے کے درپے ہے۔ پیلٹ اور بلٹ نہتے لوگوں کا مقدر ہوکر رہ گئی ہیں، اور ان میں جنس کی کوئی حد ہے اور نہ عمر کی کوئی قید حالات کی سنگینی کا عالم یہ ہےمقبوضہ کشمیر غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہے، وادی سے ہندو یاتریوں، سیاحوں اور غیر کشمیری طلبا کو واپس لوٹنے کے حکم سے عوام میں خوف و ہراس کا سماں ہے۔ بھارت نے سیکیورٹی وجوہات کا حوالہ دیتے ہوئے ہندو زائرین اور سیاحوں کو مقبوضہ وادی سے جلد چلے جانے کی ہدایت کی ہے۔ اس ہدایت اور سیکیورٹی فورسز کی تعداد میں اضافے کے باعث کشمیری شہری ممکنہ کریک ڈاؤن سے پریشان ہیں۔
بھارت نے میں مقبوضہ وادی میں سیکیورٹی فورسز کی تعداد میں اضافہ بھی کیا اس اضافے سے قبل بھی مقبوضہ وادی میں پانچ لاکھ سے زیادہ سیکیورٹی اہلکار تعینات ہیں۔ فورسز کی تعداد میں اضافے اور غیر کشمیریوں کو وادی سے نکل جانے کی ہدایات سامنے آنے کے بعد کئی خبریں سامنے آرہی ہیں جن میں بھارت کے ان فیصلوں کی ممکنہ وجوہات بیان کی جارہی ہیں۔ اور پھر بھارت نے آزاد کشمیر میں سول آبادی پر کلسٹر بموں کا بے دریغ استعمال کیا۔ اس کے علاوہ مودی سرکار نے صدارتی فرمان جاری کرتے ہوئے بھارتی آئین میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 اور 35 اے کوختم کردیا جس کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر اب ریاست نہیں بلکہ وفاقی علاقہ کہلائے گی جس کی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔
مودی سرکار نے مقبوضہ وادی کو 2 حصوں میں بھی تقسیم کرتے ہوئے وادی جموں و کشمیر کو لداخ سے الگ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لداخ کو وفاق کا زیرِ انتظام علاقہ قرار دیا جائے گا اور اس کی بھی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔ بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ راجیہ سبھا میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 اور 35 اے ختم کرنے کا بل بھی پیش کیا۔
دفعہ 370 ایک خصوصی دفعہ ہے جو ریاست جموں وکشمیر کو جداگانہ حیثیت دیتی ہے۔ یہ دفعہ جموں کشمیر کو اپنا آئین بنانے اور اسے برقرار رکھنے کی آزادی دیتی ہے جب کہ زیادہ تر امور میں وفاقی آئین کے نفاذ کو جموں کشمیر میں ممنوع کرتی ہے۔ اس خصوصی دفعہ کے تحت دفاعی امور، مالیات، خارجہ امور وغیرہ کو چھوڑ کر کسی اور معاملے میں متحدہ مرکزی حکومت، مرکزی پارلیمان اور ریاستی حکومت کی توثیق و منظوری کے بغیر بھارتی قوانین کا نفاذ کشمیر میں نہیں کر سکتی۔ دفعہ 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو ایک خصوصی اور منفرد مقام حاصل ہے۔ بھارتی آئین کی جو دفعات و قوانین دیگر ریاستوں پر لاگو ہوتے ہیں وہ اس دفعہ کے تحت ریاست جموں کشمیر پر نافذ نہیں کیے جا سکتے۔ اس دفعہ کے تحت ریاست جموں و کشمیر کے بہت سے بنیادی امور جن میں شہریوں کے لیے جائداد، شہریت اور بنیادی انسانی حقوق شامل ہیں ان کے قوانین عام بھارتی قوانین سے مختلف ہیں۔
مہاراجا ہری سنگھ کے 1927ء کے باشندگان ریاست قانون کو بھی محفوظ کرنے کی کوشش کی گئی ہے چنانچہ بھارت کا کوئی بھی عام شہری ریاست جموں و کشمیر کے اندر جائداد نہیں خرید سکتا، یہ امر صرف بھارت کے عام شہریوں کی حد تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ بھارتی کارپوریشنز اور دیگر نجی اور سرکاری کمپنیاں بھی ریاست کے اندر بلا قانونی جواز جائداد حاصل نہیں کر سکتی ہیں۔
اس قانون کے مطابق ریاست کے اندر رہائشی کالونیاں بنانے اور صنعتی کارخانے، ڈیم اور دیگر کارخانے لگانے کے لیے ریاستی اراضی پر قبضہ نہیں کیا جا سکتا۔ کسی بھی قسم کے تغیرات کے لیے ریاست کے نمائندگان کی مرضی حاصل کرنا ضروری ہے جو منتخب اسمبلی کی شکل میں موجود ہوتے ہیں۔ اب اس آرٹیکل کو ختم کرنے کے بعد جموں وکشمیر کی یہ حیثیت باقی نہیں رہے گی۔
دفعہ 35 اے: انڈیا کے آئین میں جموں کشمیر کی خصوصی شہریت کے حق سے متعلق دفعہ 35-A کا مسئلہ کشمیر سے بھی پرانا ہے۔ اس قانون کی رُو سے جموں کشمیر کی حدود سے باہر کسی بھی علاقے کا شہری ریاست میں غیرمنقولہ جائیداد کا مالک نہیں بن سکتا، یہاں نوکری حاصل نہیں کرسکتا اور نہ کشمیر میں آزادانہ طور سرمایہ کاری کرسکتا ہے۔
یہ قوانین ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ نے سنہ 1927 سے 1932 کے درمیان مرتب کیے تھے اور ان ہی قوانین کو سنہ 1954 میں ایک صدارتی حکمنامہ کے ذریعہ آئین ہند میں شامل کرلیا گیا۔
انڈیا کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) گذشتہ 70 سال سے کشمیر سے متعلق انڈین آئین میں موجود اُن تمام حفاظتی دیواروں کو گرانا چاہتی تھی جو جموں کشمیرکو دیگر بھارتی ریاستوں سے منفرد بناتی ہیں۔ مثال کے طور پرجموں کشمیر کا اپنا آئین ہے اور ہندوستانی آئین کی کوئی شق یہاں نافذ کرنی ہو تو پہلے مقامی اسمبلی اپنے آئین میں ترمیم کرتی ہے اور اس کے لیے اسمبلی میں اتفاق رائے ضروری ہوتا ہے۔
حالانکہ کشمیر کی خودمختاری کی اب وہ صورت نہیں رہی جو 70 سال قبل تھی۔ یہاں پاکستانی زیرانتظام کشمیر کی طرح وزیراعظم ہوتا تھا اور صدرریاست ہوتا تھا۔ لیکن اب دیگر ریاستوں کی طرح گورنر اور وزیراعلی ہوتا ہے۔ تاہم 35-A کی آئینی شق ابھی بھی ریاست کے باشندوں کو غیرکشمیریوں کی بے تجاشا آبادکاری سے بچارہی ہے۔ اسی شق کو بی جے پی کی حامی این جی او 'وی دا سٹیزنز' نے سپریم کورٹ میں چلینج کیا تھا۔ اب اس قانون کے ختم ہونے کے بعد کشمیری فلسطینیوں کی طرح بے وطن ہوجائیں گے، کیونکہ کروڑوں کی تعداد میں غیرمسلم آبادکار یہاں بس جائیں گے، جو ان کی زمینوں، وسائل اور روزگار پر قابض ہوجائیں گے۔
دوسری عالم گیر جنگ کے بعد تقریباً پون صدی کے عرصے میں دُنیا کی کئی محکوم قومیں سامراجی طاقتوں کی غلامی سے آزاد ہوئیں جبکہ کئی طاقتور فسطائی قوتوں کے غاصبانہ تسلط سے نجات کے لئے جدوجہد کرنے والی قوموں کو اقوام متحدہ کے طفیل یا باہمی مذاکرات کے ذریعے اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا موقع ملا مگر یہ عالمی ضمیر کی مجرمانہ بے حسی اور تاریخ کی سنگین ستم ظریفی ہے کہ اتنا طویل عرصہ گزرنے، سلامتی کونسل کی غیر مبہم قراردادوں، تقسیمِ ہند کے واضح فارمولے اور لاکھوں جانوں کی قربانیاں دینے کے باوجود ریاست جموں و کشمیر کے دو تہائی حصے پر بھارتی استبداد کا جابرانہ قبضہ آج بھی برقرار ہے اور مقبوضہ علاقے کے مظلوم عوام آج بھی اپنی آزادی کے لئے دار و رسن کی آزمائشوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ دراصل ٹرمپ کی ثالثی پیشکش، افغان امن مذاکرات نے مودی سرکار کو بوکھلاہٹ کا شکار کر دیا ہے۔ حالانکہ بھارت اچھی طرح جانتا بھی ہے کہکشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہ تھا، نہ ہے اور نہ ہوسکتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے درمیان لائن آف کنٹرول نہ بین الاقوامی سرحد تھی اور نہ آج ہے۔ کشمیر کے لوگوں کی اس سرحد کے پارآمدورفت ایک ملک سے دوسرے ملک میں داخلہ یا اخراج کی حیثیت نہ رکھتے تھے اور نہ آج رکھتے ہیں۔ یہ ساری بحث کہ کس سرحد سے کون کہاں جا رہا ہے کشمیر کی حد تک غیرمتعلق ہے۔ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ اور کشمیریوں کا حقِ خودارادیت محض وقت گزر جانے سے معدوم نہیں ہوجاتا اور اس حق کی حفاظت کشمیری عوام نے اپنے خون سے کی ہے۔ مسئلہ کشمیر ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے جس کے کم از کم تین فریق ہیں : یعنی بھارت، پاکستان اور کشمیری عوام۔ بین الاقوامی قانون اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی رُو سے چوتھا فریق عالمی برادری بھی ہے۔ مسئلے کا محض دوطرفہ حل ناممکن ہے۔ لیکن پھر بھی بھارت کے مظالم ہر انتہا کو پار کرگئے ہیں اور دُنیا کی بے حسی افسوس ناک اور شرم ناک ہے۔
بلاشبہہ آج پاکستان ایک عظیم آزمایش سے دوچار ہے، وہیں ان حالات اور مشکلات کے علی الرغم اپنے کشمیری بھائیوں اور بہنوں کی مدد کی بھی بھرپور انداز میں فکر کریں اور ان کی جدوجہد کی تقویت اور ان کی تحریک کی کامیابی کے لیے بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں۔ ہمیں اپنی کشمیر پالیسی قومی یک جہتی کے ساتھ وضع کرنی چاہیے۔ امریکا کی مسلط کردہ "دہشت گردی کی جنگ" سے نجات، بھارت کے سلسلے میں اصول اور حق و انصاف پر مبنی رویے اور جموں و کشمیر کی تحریکِ آزادی سے اپنے تعلق اور اس میں اپنے بھرپور کردار کی ادایگی کی فکر اسی احساسِ ذمہ داری کے ساتھ کرنی چاہیے جس سے ملک کے اندرونی مسائل حل، ضرورت مندوں کی مدد، غلط کاروں کا احتساب اور بحیثیت مجموعی اصلاحِ احوال کی جدوجہد کرنا ہم پر فرض ہے۔ مسلمان کا شیوہ زمانے کے رُخ پرچلنا، اور مصائب اور مشکلات کے آگے سپر ڈالنا نہیں بلکہ مخالف لہروں سے لڑنا اور حالات کے رُخ کو موڑنا ہے۔
عالمی برادری کی اکثریت کشمیریوں سے ہمدردی رکھتی ہے مگر اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر عمل نہیں کرایا جا رہا۔ نجانے عالمی ضمیر کب جاگے گا اور انڈونیشیا اور سوڈان میں غیر مسلم اکثریت کے علاقوں کو آزادی دلانے والے جموں و کشمیر کی اکثریتی مسلم آبادی کو کب حق خود ارادیت دلائیں گے۔ عالمی برادری، انسانی حقوق کے علمبرداروں کو فوری طور پر مقبوضہ کشمیر کی مظلوم عوام، جو کررونا سے پریشان، سہولیات دی جاھیں، اور قیدیوں کو رہا کروایا جاھے، اور بھارت کے مسلمانوں کے خلاف بیانات کو لگام دی جائے۔