بیماریاں، وبائیں انسان کے ساتھ روز ازل سے ہیں، اسلام، سنت ِ نبوی ﷺمیں جملہ بیماریوں کا علاج، طریقہ، احتیاطی تدابیر موجود ہیں۔ مدینہ میں جب طاعون کی بیماری پھیلی تو آپ نے اس مرض میں مبتلا ہونے والے افراد کو اپنا شہر چھوڑنے سے منع فرمایا تاکہ مرض دوسرے علاقوں میں صحت مند افراد میں منتقل نہ ہو۔ مسلم شریف کی جلد نمبر 2 میں حضرت اسامہؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ طاعون اور متعدی بیماری ایک عذاب ہے جو پہلی امتوں پر مسلط کیا گیا۔
پھر فرمایا "جب کسی قوم میں علانیہ فحاشی ہونے لگ جائے تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھوٹ پڑتی ہیں، جو ان سے پہلے لوگوں میں نہ تھی۔ احتیاطی تدابیر بھی بتائی کہ جب کسی علاقے یا شہر میں کوئی وبا پھیل جائے تو ضروری ہے کہ متاثرہ شہر کے باشندے اپنا علاقہ چھوڑ کر نہ جائیں تو یہ بھی ضروری ہے کہ دوسرے شہروں کے لوگ متاثرہ شہر یا علاقے میں نہ جائیں۔ جو ہدایات آج کی میڈیکل سائنس میں اب سامنے آرہی ہیں وہ رحمت العالمین ﷺ نے ہمیں 1440 سال پہلے بتا دیں۔
پوری دُنیا بمعہ پاکستان میں کررونا نے پنجے گاڑھ لیے۔ کررونا افراتفری، خوف ہو ہراس نہیں بلکہ احتیاط اور اپنے اعمال کی اصلاح کا متقاضی ہے، جس طرح ہر بچہ، جوان، بوڑھا، خواتین، ہر گھر خوف میں مبتلا، یہ مزید بیماری ہے، کیونکہ بیماری ایک سوچ کا نام بھی ہے۔ کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہیں۔ بیماری اور وبا اللہ کی طرف سے آتی ہے۔ بیماریوں سے بچنے کے لیے اللہ سے خیروعافیت کی دُعا کریں۔ بیماریوں سے پناہ مانگیں اور مندرجہ ذیل دُعا پڑھیں :
اَللّٰہُمَّ اِنّیِ اَعُُوذُبِکَ مِنَ البَرَصِ وَالجنونِ وَالجُذَامِ وَ مِن سَیِئی الا سقَام (آمین)
اے اللہ! میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں برص سے، دماغی خرابی سے، کوڑھ سے اور ہر قسم کی بُری بیماریوں سے۔
رسول اللہ ؐنے فرمایا: جو شخص کسی مصیبت زدہ کو دیکھے اوریہ دعا پڑھے: "اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ عَافَانِی مِمَّا ابْتَلاَکَ بِہٖ وَفَضَّلَنِیْ عَلٰی کَثِیرٍ مِمَّنْ خَلَقَ تَفْضِیلاً"، ترجمہ: "سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے مجھے اس مصیبت سے بچایا جس میں تجھے مبتلا کیا اور مجھے اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی"، تو وہ زندگی بھر اس وبا سے محفوظ رہے گا۔
صدیوں پہلے جب آج کی طرح انسان نے سائنس اور طب کے میدان میں ترقی نہیں کی تھی، تب کسی بیماری کے وبائی صورت اختیار کرجانے کا ایک ہی مطلب ہوسکتا تھا، ہزاروں نہیں، لاکھوں انسانوں کی موت! ایک زمانے میں "طاعون"اور"کوڑھ"کو آسمان کا قہر اور خدا کا عذاب تصور کیا گیا۔ یہ وہ بیماریاں تھیں جس کے شکار افراد بدترین جسمانی تکلیف اور اذیت ناک صورت حال کا سامنا کرتے اور گویا سسک سسک کر موت کے منہ میں چلے جاتے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ متعدی بیماریوں کی طرح جب انسان شدید بخار، قے، ناقابلِ برداشت سَر اور کمر کا درد، جسم پر سوجن کا شکار ہوئے تو اسے طاعون کا نام دے دیا اور یہ جانا کہ اس جسمانی حالت اور طبی کیفیت کی وجہ چوہے ہیں۔ طاعون نے وبائی شکل اختیار کی تو دیکھا گیا کہ اکثر لوگوں کی گردن، رانوں اور بغلوں میں پھوڑے نمودار ہو گئے اور ان کی زندگی اذیت ناک ہوتی چلی گئی۔
تیرھویں اور سولھویں صدی میں طاعون کی وبا سے یورپ میں بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا ذکر تاریخ میں ملتا ہے۔ طاعون نے سب سے پہلے تیرھویں صدی میں یورپ کو اپنی لپیٹ میں لیا اور متعدد بار اس کی وجہ سے یورپ بھر میں کروڑوں اموات واقع ہوئیں۔ 1666 میں برطانیہ میں طاعون کی وبا پھیلنے سے ایک لاکھ سے زائد انسان موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔ طاعون اور جذام وہ امراض تھے کہ جب کوئی اس کا شکار ہوجاتا اور اس کی زندگی نہایت اذیت ناک ہو جاتی تو اپنے ہی اس کی موت کی دعا کرنے لگتے تاکہ وہ جسمانی تکلیف سے نجات پاسکے۔ جو وبا کی صورت پھیلے اور دنیا بھر میں کروڑوں انسانوں کو متاثر کیا اور ہلاکتوں کی وجہ ہیں۔
ہیضہ 19 ویں صدی کے آغاز سے قبل کی وہ وبا ہے جسے سب سے خطرناک قرار دیا جاتا ہے۔ لاکھوں انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بننے والا یہ مرض انیسویں صدی کی پہلی دہائی میں امریکا میں لوگوں کے لیے خطرہ بنا اور پھر وہاں سے دنیا بھر میں پھیلا۔ اسپینش فلوجنگِ عظیم اوّل کے دوران اس وبا نے ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا کے ہر تیسرے شخص کو متاثر کیا، یہی وجہ ہے کہ اسے بدترین عالمی وبا بھی کہتے ہیں۔ یہ بیماری انفلوئنزا کی ایک شکل تھی۔ اسپینش فلو کی وجہ سے پانچ کروڑ افراد متاثر ہوئے تھے۔ 1918 اور 1920 کے دوران دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے والے اس مرض نے لگ بھگ 50 لاکھ افراد کو موت کے منہ میں دھکیل دیا۔ یہ وبا امریکا، یورپ، ایشیا اور افریقا تک پھیل گئی تھی۔
چیچک اٹھارھویں صدی میں پہلی بار دنیا کے سامنے آیا تھا، لیکن 1950 میں یہ ایک خوف ناک وبا کی صورت پھیلا اور صرف دو دہائیوں کے دوران تین کروڑ سے زائد انسانوں کو متاثر کیا۔ طبی سائنس میں ترقی اور علاج معالجے کی سہولیات کے باوجود 1970 تک سالانہ 50 لاکھ افراد اس مرض سے متاثر ہورہے تھے۔ تاہم اس کے بعد اسے وبا کی صورت پھیلتا نہیں دیکھا گیا۔
خسرہ کی بیماری پھوٹی تو لوگ اس قدر خوف زدہ ہوئے کہ اسے دنیا کے سامنے آتے ہی یعنی پہلے سال ہی ایک وبا مان لیا گیا۔ یہ 1920 کی بات ہے۔ تاہم ساٹھ کے عشرے میں اس بیماری کے پھیلاو میں کمی آگئی اور طبی ماہرین نے اس کے خلاف موثر ویکسین متعارف کروا دی۔ پولیو 1950 کے بعد سامنے آنے والی اس بیماری سے دنیا میں لاکھوں افراد معذور ہوئے، ٹی بی کو کئی سال تک وبائی مرض کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اسی طرح سوائن فلو، ایشیا فلو کے علاوہ متعدد وائرس ایسے ہیں جو جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ مہلک امراض کی فہرست الگ ہے جو کسی نہ کسی صورت میں دنیا بھر میں انسانوں کے لیے خطرہ ہیں۔
وبائیں کئی وجہ سے اور کئی شکل و صورت میں آتی ہیں۔ 2010 میں ہیٹی میں تباہ کن زلزلہ آیا۔ اس سے ہزارہا لوگ بے گھر ہو گئے اور عارضی پناہ گزینوں کے کیمپوں میں رہنا پڑا۔ چند ہفتوں میں یہ کیمپ ہیضے کے لئے زرخیز میدان بن گئے۔ یہ گندے پانی میں بیکٹیریا کے ذریعے پھیلتا ہے۔ جلد ہی ہیضے کی وبا یہاں سے پورے ملک تک پھیل گئی۔ لیکن وبائی امراض کی سب سے بڑی وجہ وائرس رہے ہیں۔ خسرہ، فلو، ایچ آئی وی جیسے وائرس۔ جب ان کا پھیلاو، مقامی سطح سے نکل کر دنیا کے وسیع علاقے تک تک چلا جاتا ہے تو اس کو pandemic کہا جاتا ہے۔ ایسی وبائیں انسان تاریخ میں آتی رہی ہیں۔ ان میں سے کئی نے اپنے شکار ہو جانے والوں کی ہڈیوں اور ٹشو میں نشان چھوڑے ہیں۔
سائنسدانوں نے تپ دق کے بیکٹیریا کا پتہ قدیم مصری ممی سے لگا لیا اور 2011 میں لندن میں طاعون کے شکار ہونے والوں کے ایک گڑھے سے ملنے والی باقیات سے اس کے جراثیم یرسینا پسٹس کا پورا جینوم بنا لیا گیا۔ وہ بیکٹیریا جو یورپ کی سیاہ موت کا ذمہ دار تھا۔ چودہویں صدی میں طاعون کی ابتدا چین سے 1340 کے قریب ہوئی تھی۔ شاہراہِ ریشم کے ساتھ یہ چین سے مغربی میں پہنچا۔ اس تجارتی قافلے کے ساتھ جو منگولیا سے کریمیا جا رہا تھا۔ 1347 میں یہ بحیرہ روم تک پہنچ چکا تھا اور 1400 تک یہ ساڑھے تین کروڑ لوگوں کی جانیں لے چکا تھا۔ جس کو عظیم موت یا سیاہ موت کا نام دیاگیا۔
جو مرض سب سے زیادہ اموات کا باعث بنا، وہ انفلوئنزا تھا۔ فلو دنیا بھر میں مسلسل شمالی اور جنوبی کرے میں چکر لگا رہا ہے۔ دسمبر، جنوری، فروری میں اس کا عروج شمالی جبکہ جون، جولائی اور اگست میں اس کا عروج جنوبی کرے میں ہوتا ہے۔ پہلی عالمی وبا جو ریکارڈ پر ہے، وہ 1580 میں ہوئی تھی۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں ایسے چھ لہریں آئیں لیکن اموات کی تعداد میں کوئی بھی 1918 میں فلو کی وبا سب سے زیادہ مہلک رہی۔
برِصغیر میں ایک کروڑ لوگوں کی موت کا جبکہ دنیا بھر میں پانچ کروڑ اموات کا سبب بننے والی یہ وبا اپریل 1919 تک دنیا میں تباہی مچاتی رہی۔ اور یہ پانچ کروڑ اموات اس وقت ہوئیں جب وائرس جہازوں کا سفر نہیں کیا کرتے تھے۔ اب وائرس کے لئے یہ سفر پہلے سے بہت آسان ہے۔ ان کے لئے تیزرفتار ٹرینیں اور جہاز سب کچھ موجود ہیں۔ جہاں انفارمیشن کی ٹیکنالوجی ہمیں آگاہی کا تحفہ دیتی ہے اور اس نے اس وبا کو روکنے میں بھی مدد کی۔ وہیں پر یہ خوف و ہراس کی مصیبت کا سبب بھی بنتی ہے۔
عالمی وبا چھوٹی سی جگہ سے شروع ہو کر ڈرامائی نقصان پہنچانے کی اہلیت رکھتی ہیں جو کسی قدرت آفت یا کسی جنگ کے برابر ہو سکتا ہے۔ مہلک عالمی وبا کا امکان خطرہ اصل ہے اور بڑا خوف بھی۔ چودہویں صدی کی سیاہ موت اور آج کی دنیا میں ایک فرق سائنس کا ہے۔ سائنس ہمیں اس کی بہت جلد نشاندہی کا اور روک تھام کا موقع دیتی ہے۔ ساتھ ساتھ رائی کے پہاڑ بنانے، نت نئے انوکھے نظریات گھڑ کر پھیلانے اور پریشانی کو ہوا دینے کے آلات بھی، کررونا ہو یا کوئی بھی وباجس نے کئی دفعہ سائنس، انسان کی بے بسی کو عیاں کیا ہے۔ ان خطرات، امراض، وباوں، بلاوں سے نجات کا ایک ہی ذریعہ ہے وہ اسلام اور اللہ سے رجوع کا، ہم اور دوسری اقوام کے نظریے، عقیدہ میں فرق ہے، ہم اللہ سے ڈریں، کررونا سے نہیں۔