عالمی وباء کورونا وائرس کی تباہ کاریوں، زلزلوں، ٹڈی دل، قدرتی آفات، بارشیں، سیلاب، گلوبل وارمنگ، زمین کا درجہ حرارت، عالمی وبائیں، زلزلے، اندھیاں، طوفان، گلیشرز کا پگلنا، تشویش ناک آبی صورتحال، معاشی مشکلات، سمندر بلند ہونا، موسم شدید تر، قدرتی سانحات بڑھتے جا رہے ہیں۔ گلوبل ورامنگ کا زیادہ تر ذمہ دار انسان خود ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ قوموں کی ہلاکت کے عام طور پر تین اسباب ہوتے ہیں: ایک یہ کہ زندگی گزارنے کے جو اصول قانونِ فطرت نے دیے ہیں ان کو پس پشت ڈال دینا، نفاق اور کبر وتفاخرہے۔ قرآن کریم نے صراحت کے ساتھ امتِ مسلمہ کو ان چیزوں سے بچنے کی تعلیم دی ہے۔
اسلام دیگر مذاہب کی طرح صرف ایک مذہب نہیں بلکہ یہ ایک ضابطہِ حیات ہے، جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کی صورت میں ہمیں عطا فرمایا ہے۔ اللہ تعالی نے سورۃ المائدہ آیت نمبر3 میں اس کو اپنی نعمت اور رضامندی کا سبب فرمایا ہے، اور اس قرآن کو جو دستورِ حیات ہے، جس پر مذہب کی بنیادہے مضبوطی سے پکڑنے کا حکم دیا ہے، اور اسلام کو مکمل طور پر اپنی زندگی میں اپنانے کو کہا ہے۔
سائنسی پیشگوئیاں غلط سہی مگر تاریخ انسانی گردشِ زمانہ نے مختلف معاشروں کو پیوند خاک بھی کیا جب وہ اجتماعی طور پر فطرت کے خلاف چلیں، جب وہ قانون قدرت کو توڑ کر اس کی نافرمان و گستاخ بنی اور خدا کے متعین کردہ اصولوں سے انحراف کیا۔ بنی نوع انسان کو انفرادی بدعملی کی سزا دُنیا میں نہیں ملتی اس کا حساب کتاب آخرت میں ہے مگر جب قومیں اجتماعی طور پر بدعمل ہو جائیں تو اس کی سزا دُنیا ہی میں مل جایا کرتی ہے۔ جب قوموں میں بدعملی، بدخلقی، غفلت، بے راہ روی اجتماعی طور پر گھر کر جاتی ہے تو تباہی و بربادی اس کا مقدر بن جاتی ہے اور تاریخ نے ایسے کئی مناظر دیکھے بھی ہیں۔ قرآن کریم نے بھی مختلف قوموں کی تباہی کا ذِکر کیا ہے جن میں اخلاقی خرابیاں اجتماعی طور پر گھر کر گئی تھیں۔ کیا آج یہ سب ہم میں نہیں؟
"کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہلاک کردیا جنہیں ہم نے زمین میں ایسا مضبوط و پائیدار اقتدار دیا تھا کہ ایسا اقتدار تمہیں بھی نہیں دیا اور ہم نے ان پر لگا تار برسنے والی بارش بھیجی اور ہم نے ان کے نیچے سے نہریں بہائیں پھر ہم نے ان کے گناہوں کے باعث انہیں ہلاک کردیا اور ان کے بعد ہم نے دوسری امتوں کو پیدا کیا" (الانعام 6)۔
اور بیشک ہم نے تم سے پہلے بہت سی قوموں کو ہلاک کر دیا جب انہوں نے ظلم کیا، اور ان کے رسول ان کے پاس واضح نشانیاں لے کر آئے مگر وہ ایمان لاتے ہی نہ تھے، اسی طرح ہم مجرم قوم کو ان کے عمل کی سزا دیتے ہیں (یونس 13)۔
اور ہم نے کوئی بھی بستی ہلاک نہیں کی مگر اس بناء پرکہ ان کے پاس ہماری ایک روشن کتاب تھی، جس کی انہوں نے خلاف ورزی کی، سو ہم نے ان کو انجام تک پہنچا دیا (الحجر 4)۔ اور ہم نے ان سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہلاک کر دیا ہے، کیا آپ ان میں سے کسی کا وجود بھی باقی دیکھتے ہیں یا کسی کی کوئی آہٹ بھی سنتے ہیں (مریم98)۔ پس کتنی ہی ایسی بستیاں ہیں جو ظالم تھیں ہم نے انہیں تباہ کر دیا تو وہ اپنی چھتوں سمیت گری پڑی ہیں اور کئی ایک بیکار کنویں اور کتنے ہی مضبوط محل ویران پڑے ہیں۔ کیا انہوں نے کبھی زمین میں گھوم پھر کر نہیں دیکھا کہ اُن کے دل اِن باتوں کو سمجھنے والے ہوتے یا کانوں سے ہی ان کی باتیں سن لیتے، بات یہ ہے کہ صرف ان کی آنکھیں ہی اندھی نہیں ہوتی، بلکہ ان کے دل بھی اندھے ہو چکے ہیں جو سینوں میں پڑے ہیں۔ (الحج46، 45)۔
تاریخ انسانی، عروج زوال سے رقم ہے، سبق آموز واقعات بھی ہیں اور یہ کہ بحیثیت مجموعی انسان کی معاشرتی زندگی میں بگاڑ غالب رہا اور اصلاح کے بہت کم آثار دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اسی مجموعی بگاڑ کے نتیجہ میں قومیں زوال پذیر ہوئیں اور اپنے انجام کو پہنچیں۔ اسلام وہ منفرد دین فطرت ہے۔ جو ہمیں ہر طرح کی مکمل راہنمائی کر رہا ہے، لیکن ہم اخلاقی، عملی طور پر تنزلی کی آخری گہرائیوں میں آ گرے، بد اخلاقی، جرائم، عدم مساوات نے معاشرہ لپیٹ میں لے لیا، اور پھر ہم سب کی ذمہ داری ہے اصلاح معاشرہ اپنا کردار، شکوہ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا۔ اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے، لیکن ہم خاموش تماشائی بنے ہیں۔
جو وارننگ ہمیں اسلام نے بہت پہلے بتا دی آج سائنس ان کو من و عن تسلیم کر رہی، اختتام ِ دُنیا کے اسباب ہمیں پہلے بتائے جا چکے ہیں، اب معروف سائنس دان ہاکنگ نے اپنے لیکچر میں بتایا تھا کہ یہ انسان کے اپنے ہی اعمال ہیں کہ زمین اس کا بوجھ اٹھانے اور اسے اپنے دامن میں پناہ دینے سے انکار کر دے گی۔ انہیں خدشہ تھا کہ ایک بڑا حادثہ کسی ایسی تباہی کا سبب بن سکتا ہے جس سے زمین پر موجود سب کچھ تباہ ہو جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تباہی تین طریقوں سے آ سکتی ہے۔ جوہری جنگ سے، لیبارٹری میں بنائے گئے وائرس سے اور کمپیوٹر کے نظام میں فروغ پاتی ہوئی مصنوعی ذہانت سے جس کا استعمال مسلسل بڑھ رہا ہے۔ جوہری جنگ انسانی یا خودکار نظام کی غلطی یا کسی ایک شخص کے غلط فیصلے سے شروع ہو سکتی ہے لیکن پھر اس کا اختتام سب کچھ تباہ ہونے کے بعد ہی ہوگا۔ وائرس اور جینیات پر سائنسی تحقیق سے کوئی ایسا وائرس جنم لے سکتا ہے جو انتہائی مہلک اور لاعلاج ہو۔ اگر ایسا وائرس کسی وجہ سے لیبارٹری سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پھر آگے کی کہانی انتہائی خوفناک ہے۔ کورونا اس کی جیتی جاگتی مثال ہمارے سامنے آچکی۔ یہی نہیں مزید عالمی وبائیں بھی سر اٹھا سکتی ہیں۔
کمپیوٹر کے سائنس دان کچھ عرصے سے مصنوعی ذہانت پر پیش قدمی کررہے ہیں۔ پہلے جن چیزوں کو انسان کنٹرول کرتا تھا اس ان کا استعمال کمپیوٹر اور اب سمارٹ فون کے ہاتھوں میں جا رہا ہے۔ جس رفتار سے مصنوعی ذہانت میں ترقی ہو رہی ہے، اس کے پیش نظر یہ بہت ممکن ہے کہ مستقبل میں کمپیوٹر انسان کی گرفت سے آزاد کر کے ان پر حاوی ہوجائیں گے۔ اور پھر اس سے آگے کا سفر تباہی کی طرف جاتا ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ نے انسان کو مشورہ دیا ہے کہ اگر وہ اپنی نسل کی بقا چاہتے ہیں تو اپنی نظریں اوپر ستاروں پر جمائیں، اپنے پاؤں پر نہیں اور زمین سے جڑے رہنے کا خیال جھٹک دیں کیونکہ شاید ایک ہزار سال کے بعد کرہِ ارض اسے قبول نہ کر سکے۔ مزید متنبہ کیا گیا کہ یہ بہت کم امکان ہے کہ انسان اگلی ہزاروی، یعنی سن 3001 دیکھ پائے گا۔
ہمارے اعمال معاشرتی بگاڑ، اخلاقی زوال، جرائم پیشہ معاشرہ، انسانیت ناپید، نفسا نفسی، مادہ پرستی، عدم مساوات جیسے عوامل ہمارے لیے خطرے کی گھنٹیاں ہیں، جو مسلسل بج رہی ہیں اور بتا رہی ہیں کہ اگر ہم آج بھی خوابِ خرگوش سو رہے تو یہ اژدھا انسان کو ہی نگل جائے گا۔ اور یہ خطرے کی گھنٹی، اختتام ِ دُنیا بن سکتی ہے۔