1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عابد ہاشمی/
  4. انسانیت کا جنازہ ہے، ذرا دھوم سے نکلے

انسانیت کا جنازہ ہے، ذرا دھوم سے نکلے

لاہور کے انسانیت کو شرما دینے والے واقع نے ہماری اخلاقی گراوٹ کی آخری حد تک پھلانگ ڈالی ایک خاتون سے بچوں کے سامنے زیادتی ایک افسوسناک ہی نہیں، بلکہ شرمناک واقع ہے۔ عورت یکساں طور پر قدرو قیمت اور اہمیت رکھتی ہے، عورت کسی مختلف ماحول، کسی بھی مذہب، کسی بھی معاشرے، والدین یا ملک میں پیداہوئی ہو، اس سے اُس کے "عورت" ہونے کی حیثیت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم سب کو مختلف حالات، ماحول، موسم، ثقافت، رہن سہن اور غذا ایک دوسرے سے مختلف بنا دیتی ہے۔ اس اختلافِ باہمی کے باوجود زندگی میں ایساکچھ بھی نہیں جسے جواز بنا کر عورت کی زندگی کو معاشرے میں بے وقعت یا اہم بنا کر خلل ڈالا جائے۔ انسانی معاشرے کی ترقی کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو تقریباً بیس ہزار سال پہلے زمین پر انسانوں کی دو مختلف شناختیں تھیں۔ ایک کو "شکاری"کہا جاتا تھا اور دوسرے کو "اکٹھا کرنے والا، جسے انگریز محققین نے، Hunter اور Gatherer کے نام سے لکھا ہے۔

عورت کبھی ایک کار آمد جنس کے طور پر"کاروباری" اور بقاء کی منڈی کا حصہ بنی، عورت کنیز اور غلام بنی، عورت جوئے میں ہاری اور جیتی گئی۔ عورت جنسی کاروبار میں اہم اور قیمتی رُکن بنی، پھر شادی کے قانون اور ثقافت میں اُلجھ گئی، ونی سوارہ جیسی رسموں کی بھینٹ چڑھی۔ عورتیں تقریباً ہر معاشرے اور طبقے میں جنسی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ تاہم مغرب میں میں جہاں عورتیں جنسی طور پر ہراساں کئے جانے کے خلاف آواز اٹھا لیتی ہیں، وہاں پاکستان میں بہت سی عورتیں بدنامی کے خوف سے کسی کو شریکِ درد بنانے کا تصور بھی نہیں کر سکتیں۔ کئی لوگ شرافت کا لبادھ اوڑھ کر انسانیت سوز مظالم ڈھا رہے۔ غم روزگار کی ماری کئی دو شیزہ عزت نیلام کرنے پر مجبور ہیں۔ جنسی زیادتی کے واقعات پاکستان کے بڑے شہروں میں پڑھے لکھے، کھاتے پیتے گھرانوں میں بھی پیش آتے رہتے ہیں۔ خاندان کے افراد یا دفاتر اور کام کی جگہوں پر ساتھی ملازمین اور افسران کے خواتین ملازمین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات عام ہیں۔

بہت سی لڑکیوں اور خواتین کے لئے ان معاملات پر زبان کھولنا جنسی زیادتی کا شکار بننے کے ساتھ ساتھ بدنامی کا داغ مول لینا بھی ہے اور اکثر نوکری سے نکال دیئے جانے کی قیمت ادا کرنا بھی۔ کیا عورتیں انسان نہیں، کیا انہیں جینے کا حق نہیں، کیا ہم اس حد تک اخلاقی پستی کا شکار ہو چکے؟ خواتین کی آبروریزی یہاں معمول کی بات ہے۔ مرد راہ چلتے خواتین کی عزت خراب کررہے ہیں۔ اس قدر ظلم عورت پر کیا جارہا ہے کہ اسے دن بھر روزگار کی چکی میں پیسا جاتا ہے۔ آج ہر گھر میں خواتین جیسے منتظر بیٹھی ہیں کہ کوئی ان کے حق میں آواز بلند کرے اور انھیں اس ظلم سے نجات دلائے۔ اعداد و شمار کے مطابق امریکا میں ہر تیسری عورت کی آبرو ریزی کی جاتی ہے۔ آبرو ریزی کرنے کیلیے عورت کی عمر کی کوئی حد نہیں ہے۔ نو سال کی نابالغ بچی سے لے کر ستر سال تک کی عورت کو بھی کوئی استثنیٰ حاصل نہیں۔ بس مرد کو موقع ملنے کی دیر ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ اخلاقی کی تباہی، قوم کی تباہی ہے، اگر اخلاقی اقدار انحاط کا شکار ہوجائیں تو قوم سے راہِ راست پر رہنے کی توقع بے سود ہے، اخلاقی اقدار قوم کا اثاثہ ہوتے ہیں اور جس قوم کیاخلاق ہی میں بگاڑ پیدا ہوجائے وہ قوم تباہی کے راستہ پر چل پڑتی ہے۔ اخلاقی تربیت صرف والدین، علماء یا اساتذہ کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ ہر ایک ذمہ دار ہے، اس بات کا احساس پیدا ہونا ضروری ہے کہ وہ کس راہ پر گامزن ہیں، اور اس کے کیا نتائج برآمد ہوں گے۔

کوئی بھی معاشرہ اپنی اخلاقی، ثقافتی اور معاشرتی اقدار سے پہچانا جاتا ہے، یہی اقدار آپکو دوسروں سے مختلف بناتی ہیں۔ پاکستانی معاشرہ ہمیشہ سے اپنی ثقافتی، مذہبی، خاندانی اقدار کیوجہ سے نمایاں رہا ہے۔ ہمارے خاندانی نظام کی مضبوطی کا دنیا جہان میں ذکر کیا جاتا ہے۔ یہی نظام نہ صرف ہمیں نمایاں بناتا ہے بلکہ بہت سی مشکلات اور خرابیوں کے باوجود بھی آج اگر ہم کسی حد تک منفرد اور یکجا ہیں تو وہ بنیادی طور پر اپنی انہی خاندانی روایات اور اقدار کیوجہ سے ہیں۔ آج بھی دنیا کی قدیم اقوام سختی سے اپنی تاریخ اقدار پر قائم ہیں اور ان پر فخر بھی کرتی ہیں جسکی سب سے بڑی مثال برطانوی معاشرہ ہے، بحیثیت قوم برطانیہ کے لوگ اپنے ماضی اور معاشرتی اقدار پر ہمیشہ فخر کرتے ہیں اور کافی حد تک ان پر کار بند بھی ہیں۔ مختلف عوامل کیوجہ سے معاشرے انحطاط اور زوال کا شکار ہیں جسکی وجہ سے بہت سی خرابیاں جنم لے رہی ہیں۔ مادہ پرستی، پسماندگی، مذہبی تقسیم اور علاقائیت چند ایسی وجوہات ہیں جنکی وجہ سے معاشرے اپنی اقدار کھو رہے ہیں۔ اس میں ایک بڑا عمل دخل انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ہونے والی تیزی سے ترقی بھی ہے۔ ترقی یافتہ اور باشعور اقوام تو اس ترقی سے مثبت فائدہ اٹھا رہے ہیں جبکہ پسماندگی اور ترقی پذیر معاشرے ایک گو مگو کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ ان معاشروں کے لوگ اندھی تقلید میں اپنی اقدار اور تشخص کو بھی بھولتے جارہے ہیں جس سے بہت سی برائیاں جنم لے رہی ہیں۔ چونکہ اپنی قدیم اور روایتی اقدار کمزور سے کمزور ہوتی چلی جارہی ہیں اس لئے چیک اینڈ بیلنس کا خودکار نظام بھی اتنا کارگر نہیں رہا۔

ہمارا معاشرہ بھی کچھ اس طرح کی صورتحال سے دو چار ہے۔ بڑھتی ہوئی مذہبی، ثقافتی، علاقائی، طبقاتی اور سیاسی تقسیم نے معاشرے کا حلیہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ ہر کوئی انا پرستی، ذاتی مفادات، مادہ پروری اور نفسا نفسی کے عالم میں مبتلانظر آتا ہے، چاہے معاشرے اور ملک قوم کا جتنا مرضی نقصان ہو جائے۔ اپنے نظریئے اور فلسفے کی ترویج کیلئے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ بات اختلافات سے بڑھ کر نفرت، انتہا پسندی اور خطر ناک اشتعال انگیزی کی طرف چلی جاتی ہے۔ دلیل سے بات کرنا تقریباً ناممکن نظر آتا ہے کیونکہ پسند ناپسند کی بنا پر تقسیم اس قدر خطرناک ہو چکی ہے کہ کوئی دوسرے کی بات سننے کو ہی تیار نہیں۔ مکالمہ تو تقریباً ناپید ہو چکا ہے نتیجتاً دلیل کی جگہ گالی گلوچ، الزام تراشی، کردار کشی اور بیان تراشی نے لے لی ہے۔ ذاتیات کو نشانہ بنانا ایک معمول بن چکا ہے جسکی وجہ سے معاشرہ میں تشدد کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے، ایسی صورتحال کے ذمہ دار ہم سب ہیں۔ اپنی بات کو منوانے کیلئے ہر قسم کے منفی حربے استعمال کئے جارہے ہیں۔ لاہور کی سڑک پر بچوں کے سامنے زیادتی ایک قباحت ہے لیکن یہ ایک نہیں دن میں ہزاروں واقعات رونما ہوتے ہیں، لیکن عورتیں عزت کی ماری، مظلومیت کی تصویر بنی ہیں، ہمیں مسلمان اور پھر اسلامی ملک میں رہتے ہوئے اخلاقیات کی ساری حدیں پار کر گئے۔ جس کی وجہ سے انتہائی قابل افسوس واقعات رونما ہورہے ہیں۔ جو کہ نہ صرف انتہائی قابل مذمت ہیں بلکہ اس سے بحیثت قوم پوری دُنیا میں ہماری سبکی ہوئی ہے۔

جس کے ذریعے معاشرے میں نفرت، شدت پسندی اور کردار کشی کی ایسی فضا پیدا ہو جائے، جس کی بنیاد پر لوگوں کے جذبات اس حد تک پہنچ گئے، اس طرح کے واقعات سے ہم وقتی طور پر خوش ہو سکتے ہیں کہ ایک عورت کی تذلیل ہوئی ہے مگر یہ رجحان نہ صرف ایک شدت پسند سوچ کی عکاسی کرتا ہے بلکہ اس سے ایک خطرناک روایت نے بھی جنم لیا ہے جو کل کو دوسروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ یہ واقعات جہاں قابل مذمت ہیں۔ وہاں ہی ہماری اخلاقی گراوٹ کی حد بھی ہیں۔ ہمیں اپنے اخلاقی اقدار ملک کے قوانین کا خیال رکھنا ہو گا، "آئین نو سے ڈرنا، طرزِ کہن پہ اڑنا، منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں اگر آج بھی ہم نے اپنی اصلاح احوال نہ کی، تو پھر آج کسی کی ماں، بہن، بیٹی رسوا ہو رہی، تو اس وبال نے ہمارے اوپر بھی آنا ہے، یہ درد ناک واقعات انسانیت کا جنازہ ہیں تو پھر، اخلاقیات کا جنازہ ہے، ذرا دھوم سے نکلے۔

عابد ہاشمی

Abid Hashmi

عابد ہاشمی کے کالم دُنیا نیوز، سماء نیوز اور دیگر اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔ ان دِنوں آل جموں و کشمیر ادبی کونسل میں بطور آفس پریس سیکرٹری اور ان کے رسالہ صدائے ادب، میں بطور ایڈیٹر کام کر رہے ہیں۔