اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات کا شرف بخشا اور ساتھ ہی دُنیا میں اپنا نائب اور خلیفہ ہونے کا تاج بھی سجایا۔ یہ زندگی یوں ہی نہیں مل گئی، اور نہ ہی مخلوق ِ خدا کا جینا دو بھر کرنے کا کام ہمارا ہے، زندگی ایک مقصد کا نام ہے۔ وہی لوگ زندہ رہتے ہیں جو دوسروں کے کام آتے ہیں، ان کی زیست سہل کرتے ہیں۔ یہ ہمارا فریضہ بھی ہے۔
خدمتِ خلق، مخلوقِ خدا کی خدمت کرنا ہے، صرف مالی اعانت کرنا ہی خدمت خلق نہیں ہے، بلکہ کسی کی عیادت کرنا، کسی کو ہنر سکھانا، کسی کو تعلیم دینا، کسی کو مفید مشورہ دینا، کسی کے دکھ دردمیں شریک ہونا، کسی کے لئے دعا کرنا، چرند پرند کے لیے خوراک کا، پانی کا، سائے کا انتظام کر دینابھی خدمت خلق میں شمار ہوتا ہے۔ خدمتِ خلق کے لئے مال خرچ کرنے والوں کوتو اللہ تعالیٰ بے حد پسند فرماتا ہے، ان کے خرچ کو اپنے ذمے قرض حسنہ قرار دیتا ہے اور خرچ کرنے والے کے مال کو کئی گنا بڑھا کر واپس کرتاہے، اس سے رب تعالیٰ کی رضاء کے ساتھ ساتھ انسان کو ذہنی اور قلبی سکون بھی نصیب ہوتا ہے اور ہمارا دین اسلام بھی خیر خواہی، امن و سلامتی اورانسانیت کے احترام کا درس دیتا ہے، بعض علماء کے نزدیک عبادت کا خلاصہ دو چیزوں میں ہے ایک امر الہٰی کی تعظیم اور دوسرا خلق خدا پر شفقت یہی وجہ ہے کہ دین اسلام میں حقوق العباد پورا کرنے پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:"اور اللہ ہی کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، ماں باپ، قرابت داروں، یتیموں، ناداروں، رشتے داروں، ہمسایوں، اجنبی ہمسایوں، پاس بیٹھنے والوں، مسافروں اور جو لوگ تمہارے قبضے میں ہوں، سب کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ بیشک اللہ تکبر کرنے والے، بڑائی مارنے والے کو دوست نہیں رکھتا۔ (سورۃ النسا، 36)
قرآن پاک میں ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: "نیکی یہی نہیں کہ تم مشرق و مغرب کو قبلہ سمجھ کران کی طرف منہ کر لو، بلکہ نیکی یہ ہے کہ لوگ اللہ پر اور روز آخرت پر، فرشتوں پر، اللہ کی کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائیں، مال باوجودعزیز رکھنے کے رشتے داروں، یتیموں، محتاجوں، مسافروں اور دست سوال دراز کرنے والوں کو دیں اور گردنوں کے چھڑانے میں خرچ کریں، نماز پڑھیں اور زکوٰۃ دیں اور جب عہد کر لیں تو اسے پورا کریں، سختی اور تکلیف میں اور جنگ کے وقت میں ثابت قدم رہیں۔ یہی لوگ ہیں جو ایمان میں سچے ہیں اور یہی ہیں جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں۔ (سورۃ البقرہ177)۔ قرآن پاک میں ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے نبی لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں کس طرح کا مال خرچ کریں، کہہ دو کہ جو چاہو خرچ کرو، لیکن جو مال خرچ کرنا چاہو، وہ درجہ بہ درجہ اہل استحقاق یعنی ماں باپ کو، قریب کے رشتے داروں، یتیموں، محتاجوں اور مسافروں سب کو دو اور جو بھلائی تم کرو گے اللہ اسے جانتا ہے"۔ (سورۃ البقرہ 215)
رحمت کونین ﷺ کی پوری زندگی خدمتِ خلق کا اعلیٰ نمونہ، آپ ﷺ معاشرے میں خدمت خلق، محتاجوں ومسکینوں کی دادرسی، یتیموں سے ہمدردی، پریشاں حالوں کی مدد اور دیگر بہت سارے رفاہی کاموں کے حوالے سے معروف تھے، چناں چہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے، جس کا مفہو م ہے کہ جو شخص اپنے بھائی کی حاجت پوری کرنے میں مصروف رہے گا تو اللہ اس کی ضرورت پوری کرنے میں لگا رہے گا، جو کسی کی کوئی مصیبت کو دور کرے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے روز قیامت کی مصیبتوں میں سے اس کی کوئی مصیبت دور کرے گا۔ (صحیح بخاری و مسلم)۔ ایک اور جگہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے، جس کا مفہوم ہے کہ اللہ اپنے بندے کی مدد میں اس وقت تک رہتا ہے، جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہتا ہے۔ (جامع ترمذی)
قرآن پاک اور احادیث سے اس بات کا علم ہوتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے نزدیک خدمتِ خلق کی کتنی زیادہ اہمیت ہے، لیکن دور حاضر میں خدمت خلق کا جذبہ بہت کم لوگوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ آج کی دُنیا میں ہر شخص اپنی ہی خواہشات کو پورا کرتا دکھائی دیتا ہے، دنیا میں ملنے والی نعمتوں پر کسی کا حق نہیں ہوتا، یہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہوتی ہے کہ وہ جسے چاہتا ہے، اپنی نعمتوں سے نوازتا ہے۔ ہمیں اللہ نے جن نعمتوں سے نوازا ہے تو ہمیں چاہیے ہم ان نعمتوں میں سے اللہ کی مخلوق کیلئے کچھ اپنا کردار ادا کریں، کیونکہ "زندگی بار بار ملتی نہ تھی" ہم کسی بھی طرح سے اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں، اگر ہم ڈاکٹر ہیں تو غریب مریضوں کا مفت یا کم فیس میں علاج، استاد غریب بچوں کو مفت یا کم فیس میں تعلیم، پولیس، عدالت یا سیاست، توآپ اپنا کام ایمان داری سے کر کے خدمت خلق کے لئے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، آپ کا تعلق کسی بھی شعبیسے ہو، اپنے کام کی نوعیت اور استطاعت کے مطابق خدمت خلق میں خود کو مصروف رکھیں۔
قرآن مجید اوررسول اکرم کی تعلیمات وسیرت نے سکھایا ہے کہ سب سے اچھا اور بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کو فائدہ پہنچائے اورکسی کو تکلیف نہ دے۔ غریبوں، مسکینوں اور عام لوگوں کے دلوں میں خوشیاں بھرے، ان کی زندگی کے لمحات کو رنج وغم سے پاک کرنے کو کوشش کرے، چند لمحوں کیلئے ہی سہی، انہیں فرحت ومسرت اورشادمانی فراہم کرکے ان کے درد والم اورحزن وملال کو ہلکا کرے۔ انہیں اگر مدد کی ضرورت ہوتو ان کی مدد کرے اوراگر وہ کچھ نہ کرسکتاہو تو کم ازکم ان کے ساتھ میٹھی بات کرکے ہی ان کے تفکرات کو دور کرے۔ اللہ کے پیارے حبیب نے ارشاد فرمایا ہے: "بہترین انسان وہ ہے جودوسرے انسانوں کے لئے نافع ومفید ہو۔" جب انسان کسی انسان کی مدد وحاجت روائی کرتاہے تو فطری طور پر دونوں کے درمیان اخوت وبھائی چارگی کے جذبات پیدا ہوتے اورالفت ومحبت پروان چڑھنے لگتے ہیں۔ آپ کا ارشاد پاک ہے:"اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، تم میں سے کوئی بھی مومن نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ اپنے دوسرے بھائیوں کیلئے وہی پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتاہے۔" (بخاری)۔
معاشرہ، غریب، مخلوق ِ خدا ہماری توجہ کی منتظر، ہم اگر اور کچھ بھی نہیں سکتے تو کسی طالب علم، تشنیہ علم کی پیاس مٹانے کے لیے اس کی حوصلہ افزائی کر سکتے ہیں۔ اللہ پاک نعمتوں کو بانٹنے سے بڑھاتا ہے، کم کبھی نہیں کرتا تو ہمیں اللہ پاک کی رضا کی خاطر مخلوق خدا کی مدد کے لئے ہر وقت کوشاں رہنا چاہیے۔ مخلوق خدا کے لیے رحمت بنیں، زحمت نہیں۔ بڑائی انسانیت میں، فرعونیت میں نہیں ظلم کی بات ہی کیا ظلم کی اوقات ہی کیا ظلم بس ظلم ہے آغاز سے انجام تلک خون پھر خون ہے سو شکل بدل سکتا ہے ایسی شکلیں کہ مٹاؤ تو مٹائے نہ بنے ایسے شعلے کہ بجھاؤ تو بجھائے نہ بنے ایسے نعرے کہ دباؤ تو دبائے نہ بنے!معاشرے کو اپنے کرادر سے پھول بنائیں، انگار نہیں!