1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عابد ہاشمی/
  4. مستقل ناکامی کے خطرناک ہتھیار

مستقل ناکامی کے خطرناک ہتھیار

ہر شخص اپنی زندگی میں کامیابی کا خواہشمند ہوتا ہے مگر کچھ ہی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو سہی معنوں میں کامیاب ہوپاتے ہیں جبکہ بیشتر کو ناکامی کا سامنا ہوتا ہے۔ اور آج کا نوجوان ناکامی کے خوف سے خود کشی کی طرف مائل ہو رہا ہے جو یقیناباعث ِتشویش ہے۔ حالانکہ ناکامی، کامیابی کا زینہ ہے۔ انسان کامیابی کا خواہاں مگر ناکام ہو جاتا ہے، مگر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ہم ناکامی کے خوف میں ضرور مبتلا رہتے ہیں، مگر ناکامی کی وجوہات کو جاننے کی کوشش نہیں کرتے، آج ہماری ناکامی کی بنیادی وجوہات جن کو اکثر نظر انداز کیا جاتا اور دلبرداشتہ ہو کر مستقل ناکامی کو اپنا مقدر بنا لیا جاتا ہے۔

کامیابی کے حصول کی کوششیں ترک کر دینا:

دُنیا کی ایک سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب Think and Grow Rich کے مصنف نیپولیئن ہِل (Napoleon Hill) نے اس کتاب کی اشاعت سے بھی پہلے 1953ء میں اپنے ایک ریڈیو پروگرام Three Causes of Failure میں کہا تھا کہ لوگوں کی ناکامی کی وجوہ صرف تین ہوتی ہیں۔ اِن تین میں سے ایک وجہ ہے، مشکلیں پیش آنے پر کامیابی کے حصول کی کوشش ترک کر دَینا۔ اگر ہم کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو ناکامیوں کے باوجود کوشش کرتے رہیں۔

کامیابی کے حصول کی کوشش ترک کرنا لوگوں کے ناکام ہونے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ کامیابی کے حصول کی کوشش تَرک کر دینا واحد مستقل ناکامی ہے۔ جب تک ہم پُوری فعالیت کے ساتھ کوششیں کرتے رہتے ہیں، تب تک آپ ناکام نہیں ہوتے۔ ایک نہ ایک دن آپ کامیاب ہو جائیں گے۔ ہماری حکمتِ عملی غلط ہی کیوں نہ، کوشش کرتے رہیں۔ کوششیں کرتے رہنے سے ہم سیکھتے ہیں۔ کوششیں کرتے رہنے سے ہماری اُمیدیں زندہ رہتی ہیں۔ کوشش کرتے رہنا کامیابی حاصل کرنے کا سب سے اہم اصول ہے۔

لاپروائی:

لاپروائی انسانوں کے ناکام ہونے کی دوسری سب سے بڑی وجہ ہے۔ اگرہم کوئی کام پُوری توجہ سے نہیں کریں گے تو ہم اسے ٹھیک طرح سے نہیں کر سکیں گے۔ لاپروائی ہماری پوری زندگی کو برباد کر سکتی ہے۔ لاپروائی کا سب سے خطرناک رُخ یہ ہے کہ زندگی کے ایک میدان میں اسے اپنا لیا جائے تو اس کے نتیجے میں ہونے والی ناکامی ہماری زیست کے دوسرے حصوں پر بھی جلد ہی اثر ڈالتی ہے اور ناکامی کا دائرہ وسیع کر دیتی ہے۔ یہ اصول یاد رکھیے کہ جتنا زیادہ ہم توجہ، دل چسپی اور ولولہ و جوش سے کام لیں گے، ہماراکامیاب ہونا اتنا زیادہ یقینی ہو جائے گا۔

غلط مقام:

بعض اوقات ناکامی کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ناکام ہونے والا شخص صحیح مقام پر نہیں ہوتا۔ وہ غلط ملک یا شہر یا غلط ملازمت میں ہوگا۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اس کا کوئی مشغلہ غلط ہو۔ یہ ناکامی کی سب سے پیچیدہ وجہ ہے۔ ہمارے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ کس وقت کوئی ملازمت یا شہر چھوڑ دینا چاہیے۔ ہو سکتا ہے ہم اس وقت درمیانے درجے کی ملازمت کر رہے ہوں جب کہ کسی دوسرے شعبے میں ہوتے تو عالمی سطح کا کام کر سکتے تھے۔ مختلف کاموں کا تجربہ ضرور کرنا چاہیے۔

اپنی ناکامی کا ذمہ دار دوسروں کو قرار دینا:

اپنی ناکامی کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہرانا صرف مسئلہ نہیں بلکہ زہر بھرا اندازِ فکر ہے۔ آپ جانتے ہیں اپنی ناکامی کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہرانے کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب ہے ہم تسلیم کر رہے ہیں کہ ہمارا کوئی اختیار نہیں، ہم بے اختیار و بے بس ہیں۔ اگر ہم کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو اپنی ناکامی کی مکمل ذمہ داری قبول کرنا ہوگی اور اس کی اصلاح کرنا ہوتی ہے۔ اس طرح ہمیں بہتر کام کرنے کا موقع ملے گا۔ یاد رکھیے دُنیا میں صرف ہمیں خودہی پر کامل اختیار حاصل ہے۔

خوف:

خوف ہمیں مفلوج کر دیتا ہے۔ ہمیں اپنی زندگی میں ہرن جیسا انداز نہیں اپنانا چاہیے۔ جمود زندگی کی اچھی حکمتِ عملی نہیں ہے۔ حرکت کرنا اور آگے بڑھتے رہنا ہمیں کامیابی دلا دیتا ہے۔ اگر خوف ہمیں کوئی کام نہیں کرنے دے رہا تو خوف کا سامنا کیجیے۔ جیسے ہی ہم خوف کا جواں مردی سے مقابلہ کریں گے، تو کامیابی فوراً ہمیں حاصل ہو جائے گی۔ خوف پر قابو پا لینا ہی کامیابی ہے۔ یہ کامیابی مزید کامیابیوں کے دروازے کھول دے گی۔ خوف ناکامی کا سب سے خطرناک ہتھیار ہے۔ خوف روشنی کا سامنا نہیں کر سکتا۔ اگر ہم خوف کے سامنے ڈٹ جائیں گے تو جلد ہی وہ ہم سے خود ہی خوف زدہ" ہو جائے گا۔

نااُمیدی:

اگرہم ناکامی کی توقع رکھیں گے تو یقینا ناکام ہو جائیں گے۔ نااُمیدی اس لیے ناکامی کی وجہ بنتی ہے کہ اس کی وجہ سے انسان اتنی کوششیں نہیں کرتا جتنی کہ اسے کرنا چاہئیں۔ کامیابی کے حصول کے لیے کوشش کرنا ضروری ہوتا ہے۔ کامیابی کے حصول کی کوششوں کو تیزی اس اُمید سے ملتی ہے کہ آپ کی کوششیں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ ایک معرکے میں شکست پوری جنگ میں شکست نہیں ہوتی، بعض اوقات کوئی چھوٹی ناکامی تباہ کن ثابت ہوتی ہے۔ ہم کاروباری ناکامی سے دوچار ہو جائیں تو ہمارے لیے مثبت رہنا ممکن نہیں ہوتا۔ لیکن کامیابی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ اگر ہمارا کاروبار ناکام ہوا ہے تو یقینا ہم نے اس سے یہ سبق ضرور سیکھا ہوگا کہ اگلی مرتبہ کون کون سی غلطیاں نہیں کرنی۔

منصوبہ بندی کا فقدان:

اگر ہم کوئی بھی کام کرنے سے پہلے منصوبہ بنا لیں گے تو ہماری کامیابی کا امکان بڑھ جائے گا۔ جو لوگ منصوبہ بنائے بغیر کام شروع کرنے کی وجہ سے ناکامی سے دوچار ہوجاتے ہیں، انھوں نے محض ایک سادہ سا منصوبہ بنا کر کامیابی حاصل کر لی۔ اب کسی کام کا منصوبہ بنائیں مکمل امکانات کو مدِنظر رکھ کر بنائیں۔ تاکہ ہماری راہ میں رکاوٹیں کم آئیں اور کامیابی سے ہمکنار ہو سکیں۔

یقین کا نہ ہونا:

انسانی دماغ مسائل حل کرنے اور مستقبل کی پیش گوئی کرنے والی انتہائی طاقت ور مشین ہے۔ ہم اس مشین میں یقین ڈالیں گے تو تجزیہ، قدر پیمائی اور عمل کے تین مراحل کا آغاز ہو جائے گا جس کا نتیجہ ہماری خواہش کے مطابق نکلے گا یعنی ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اگر ہم اپنے مقصد کے حصول کے حوالے سے بھرپور یقین سے محروم ہوں گے تو ابتدا ہی سے ناکامی ہمارا مقدر ہو گی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ بھی انسانی گمان کے مطابق فیصؒہ صادر فرماتے ہیں، اور ان کی حالت کبھی تبدیل نہیں کی جاتی، جو خود کوشاں نہیں ہوتے، اور صمیم ِ قلب سے یقین نہیں رکھتے۔ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے ہمیں یقین پیدا کرنا ہوگاکہ ہم اس میں کامیاب ہوں گے۔

لوگوں کی یادوں میں زندہ رہنے کی کوشش نہ کرنا:

ہم میں سے ہر ایک ہمیشہ کے لیے زندہ رہنا چاہتا ہے، لیکن زندہ وہی رہتا ہے جو دوسروں کے لیے زیست سہل کر جاتا ہے، ہمیں ایسے کام ضرور کرنا چاہئیں کہ مرنے کے بعد لوگ ہمیں یاد رکھیں۔ محض اچھے کام کرنے کی بجائے مثالی، کردار ادا کیجیے۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب ہمارے ذہن میں یہ پختہ خیال موجود ہو گا کہ ہم نے ہر کام اس طرح کرنا ہے کہ لوگ ہمیں مرنے کے بعد بھی یاد رکھیں تو کامیابی ہر قدم پرہمارا استقبال کرے گی اور ناکامی کا سایہ بھی ہماری زندگی پر نہیں پڑے گا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی ناکامی کو کامیابی میں بدلیں اور اپنے ملک و قوم کے لیے ایک سایہ دار درخت بنیں، نہ کی ناکام ہو کر خود کشی، یا معاشرے پر بوجھ بن کر زندہ رہیں۔ یاد رکھیں کہ کوئی بھی شخص ناکام نہیں ہوتا جب تک وہ خود ناکامی کو تسلیم نہ کر لے۔

عابد ہاشمی

Abid Hashmi

عابد ہاشمی کے کالم دُنیا نیوز، سماء نیوز اور دیگر اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔ ان دِنوں آل جموں و کشمیر ادبی کونسل میں بطور آفس پریس سیکرٹری اور ان کے رسالہ صدائے ادب، میں بطور ایڈیٹر کام کر رہے ہیں۔