1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عابد ہاشمی/
  4. رو رہی تھی عید کے بیٹی غریب کی

رو رہی تھی عید کے بیٹی غریب کی

یہ ایامِ عید ہیں۔ محروم، بے حس اور ستم رسیدہ معاشرے میں اس دن سے منسوب خوشیوں کا احساس ایسے پھیل جاتا ہے جس طرح کسی خشک تپتے صحرا میں بارش ہوتی ہے۔ نخلستانوں میں تو یہ بارش مزید ہریالی اور شادابی لاتی ہیں۔ لیکن صحرا میں یہ پھوار ایسے غائب ہوجاتی ہیں جیسے کبھی برستے بادلوں کا گزر ہوا ہی نہیں تھا۔

ایسے تہواروں کو ہر معاشرے کی رائج الوقت قدریں اور رحجانات خوشیوں کی امیدوں سے لبریز کر دیتے ہیں۔ لیکن غریب کی دہلیزپر یہ خوشیاں ایسے ہی آتی ہیں جیسے کسی کالے بادلوں کے جھرمٹ کا صحرا کے اوپر سے گزر ہو۔

امیروں، صاحب حیثیت کی عید اس لئے زیادہ پرمسرت ہوتی ہے کہ ان کو خوش کرنے کے لئے ان کے پاس پہلے ہی عیاش و آلائش کا سامان موجود ہوتا ہے، پھر عزیز و اقارب عیدیاں بھی دیتے ہیں۔ مال و دولت کی فروانی، شان وشوکت کے محلات کی بدولت لوگ ان کو زیادہ شدتِ جذبات سے پیار کرتے ہیں۔ ان کی باتیں مانی جاتی ہیں۔ تو دوسری ہی طرف غریب طبقات کے لوگ قرض لے کر نئے کپڑے اور کھلونے اپنے بچوں کو دلوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن عید کے روز لاکھوں کروڑوں بچے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ راحت اور خوشی کے تہوار والے دن بھی مشقت سے چھٹکارا حاصل کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اور ان کے والدین پر یہ عید قیامت بن کر ٹوٹتی ہے۔

ایک طرف تو عید کے دن کی خصوصی شاپنگ، تیاری عروج پر ہوتی ہے۔ وہاں ہی دو وقت روٹی کو ترستے غریب، یتیم اور بے سہارا سفید پوش کے بچے مختلف عید گاہوں، میلوں، چوراہوں اور ایسے مقامات جہاں لوگوں کے اجتماع ہوتے ہیں، حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ ایک طرف ایک عید کے دن کے لیے چار چار سوٹ، دوسری جانب ایک تن ڈھاپنے سے بھی مجبورہوتا ہے۔

درحقیقت عید نام ہے اپنے معاشرے کے ناداروں، مسکینوں، سفید پوشوں کے ساتھ خوشی باٹنے کا، لیکن ہمارے معاشرے میں فطرانے کے ریٹ مقرر ہوتے ہیں۔ اس روز بالادست اور درمیانے طبقے کی بالائی پرتوں میں فیاضی کے جذبے کچھ زیادہ ہی مچل اٹھتے ہیں۔ یہ شاید کفارہ ادا کر کے مصنوعی تسکین کے حصول کی کوشش ہوتی ہے۔

ایک طبقہ غریب جن کے معصوم بچوں کے لیے عید حسرتوں، امنگوں کا دن ہوتا ہے، اب اس عید پر جب کہ عالمی وباکورونا نے عالمی معیشت کو جھنجوڑ کر رکھا دیا۔ ایسے حالات میں ہمارے معاشرے کے مجبور و بے سہار افراد کے لیے عید کیسے گزر رہی ہو گی۔

ویسے بھی من حیثیت مسلم قوم ہمارا فریضہ ہے کہ فطرانہ، یا مالی امداد بروقت کی جائے، خصوصاً امداد ان جاری وبائی بحران اور لاک ڈاون کی وجہ سے زیادہ اہمیت کا اوزار بن کر ابھری ہے۔ عید کے دن اس کا زیادہ واضح اظہار اس لئے بھی ہوتا ہے کہ کیونکہ معاشرے کا ہر فرد خوشی منانے کا پورا حق رکھتا ہے۔

یقین کیجیے! جب رمضان کے ایام میں ایک طرف افطاری کے دسترخوان سجتے ہیں، کہیں دودھ پیتے ہیں، تو دوسری طرف ایک غریب کا بچہ سڑک کنارے کوڑا کرکٹ سے اشیاء تلاش کر رہا ہوتا ہے، کیا یہ قیامت سے کم ہے غریب کے لیے، اور پھر عید والے دن بھی اس عدم مساوات اور محنت پر سرمائے کی ستم گری کے نظام کے بنیادی ضوابط نہیں بدلتے۔ ایک ہاتھ جیب سے پیسے نکال کر دیتا ہے۔ دوسرا ہاتھ اس خیرات کو وصول کرتا ہے۔ دینے والا ہاتھ بھی انسان ہی کا ہوتا ہے اور لینے والے کو بھی انسان گردانا جاتا ہے۔ لیکن یہ مقدر نہیں ہے بلکہ آدمی کے بنائے ہوئے نظام کو تقدیر بنا کر مسلط کیا گیا ہے۔ ظاہری طور پر تو دونوں کا تعلق نسل انسان سے ہے۔ لیکن نظام زر اس نسل کو مالدار اور محروم کی تفریق میں چیر دیتا ہے۔

ہر پیدا ہونے والا بچہ پیدائش کے وقت تو محض انسان ہی ہوتا ہے۔ بعد میں وہ مذہبی، نسلی اور قومی پہچان میں ڈھال دیا جاتا ہے۔ اچھا یا برا ہونے کے معیار ہر معاشرے اور تاریخ کے عہد میں مختلف ہوتے ہیں۔ انسان کی شخصیت ان حالات و واقعات کی پیداوار ہوتی ہے جن میں وہ پروان چڑھتا ہے۔

زر اور غربت زندگی کے معیار اور مواقع کے حصول کا تعین کرتا ہے۔ یہی وہ تفریق ہے جس سے اس سرمایہ دارانہ معاشرے کی خوبیاں اور مرتبے دولت مند اور بالادست طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کے پلڑے میں یہ اقتصادی اور سماجی نظام ڈال دیتا ہے۔ ہم فطرانہ، صدقات بھی غریب پر احسان سمجھ کر عید کے دن یا تھوڑا پہلے دیتے ہیں، کیا غریب کا حق نہیں؟

قابل فکربات یہ ہے کہ جو ہاتھ کسی کے پھیلے ہوئے ہاتھ پر خیرات دھرتا ہے اس کی نفسیاتی کیفیت کیا ہوگی اور جو نہ مانگنے کے باوجود بھی دل میں مانگنے کی مجبوری لیے تڑپ رہے ہیں ان کے ہیجان کا کیا عالم ہوگا؟ دونوں اگر ایک نسل سے تعلق رکھتے ہیں تو پھر ایک طرف محرومی کا احساس نفسیات میں یاس و ناامیدی سے لے کے نفرت اور بغاوت تک کے درمیان کیوں ہچکولے کھاتا رہتا ہے۔ جبکہ دینے والا جس نفسیات کا شکار ہے وہ اس "نیکی" سے اپنی عاقبت بھی سنوار لیتا ہے اور آج کی دنیا میں عزت اور نیک نامی کا بھی دعویدار بن جاتا ہے۔

لیکن محروم خاندان اور افراد خیرات کے پیسے سے عید کا پورا دن بھی نہیں گزارپاتے۔ شام ڈھلتے ہی خوشیوں کے احساس غائب ہو جاتے ہیں۔ بھوک پھر تڑپانے لگتی ہے۔ بچے پھر بلکنے لگتے ہیں۔ ناتواں بزرگ کراہنے لگتے ہیں اور محرومی ومفلسی پھر عود کر آتی ہے۔

وہ خوشیاں جو آ کر پلٹ جائیں روح اور احساس کو زیادہ مجروح کر دیتی ہیں۔ اندھیروں میں کام کرنے والوں کی آنکھیں دیاسلائی کے شعلے سے بھی چندھیا جاتی ہیں۔ لیکن پھر دیاسلائی نے تو بجھ جانا ہوتا ہے۔ اس کے بعد اندھیرے میں دیکھنے کی صلاحیت رکھنے والی بینائی حاصل کرنے میں بہت وقت لگ جاتا ہے۔

رمضان المبارک اور کورونا کی وجہ سے لاک ڈاون کی وجہ سے حکومت نے سفید پوش، دیہاڑی دار طبقہ کے لیے دستیاب وسائل کے تحت احساس پروگرام کے تحت تاریخ کا بڑا پیکج دیا ہے۔

لیکن مہنگائی کے اس طوفان، لاک ڈاون، رمضان اور پھر عید کے ایام میں 12 ہزار روپے ایک غریب جس نے بل، کرایہ، سودا سلف پھر عید کی خریداری کے لیےیہ مشکل ہی نہیں، ناممکن ہے، کیونکہ مہنگائی کے طوفان نےغریب سے دو وقت کی روٹی چھین لی ہے۔ معاشرے میں دولت کی عدم مساوات کا تعفن پھیل رہا ہے۔ امیر، امیت تر، غریب غریب ترین ہوتا جا رہا ہے، ایک طرف شادیوں میں پیسوں کی برسات، تو دوسری طرف غریب تن ڈھاپنے کی فکر میں قید ہے۔

عدم مساوات کے نظام کو بدل کر ہی بھیک لینے اور دینے والوں کی تفریق ختم ہوسکتی ہے۔ محرومی اور بہتات کی تقسیم مٹائی جاسکتی ہے۔ ایک انقلابی تحریک کے ذریعے یہاں کے نوجوان اور محنت کش وہ نظام استوار کرسکتے ہیں جس میں عید والے دن کوئی محتاج نہ ہو۔ سبھی ایک دوسرے کو سچے جذبوں اور پیار سے گلے ملیں۔ محبتوں اور نیک تمناؤں کی عیدیوں، کے تبالے ہوسکیں!

ایسا معاشرہ نہ ہو کہ ایک طرف عیاشی عروج پر ہو تو دوسری طرف "رو رہی تھی عید کے دن کسی غریب کی بیٹی دیکھا جب سب نے نئے کپڑے پہن رکھے ہیں۔ سب کے سامنے روزہ کھانا گناہ ہے، اے قاضی وقت کوئی ایسا فتوی بھی لگا جو عید پہ یتیموں اور مسکینوں کے سامنے نئے کپڑے پہنے وہ بھی گنہگار ٹھرے بابا کی قبر پہ جاکر کہا ایک بیٹی نے، بابا جانی عید آگی ہے ابھی تک ہمارے لیئے کپرے نہیں آئے۔

عابد ہاشمی

Abid Hashmi

عابد ہاشمی کے کالم دُنیا نیوز، سماء نیوز اور دیگر اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔ ان دِنوں آل جموں و کشمیر ادبی کونسل میں بطور آفس پریس سیکرٹری اور ان کے رسالہ صدائے ادب، میں بطور ایڈیٹر کام کر رہے ہیں۔