تقریباَ ڈیڑھ سال سے ایک کیس کے سلسلہ میں مقامی عدالت میں آنا جانا لگا رہتا ہے۔ میں نے مشاہدہ کیا ہے عدالتوں میں زیادہ تر کیس خواتین کے متعلق ہوتے ہیں۔ کوئی خاتون خلع لینے کے لیے، کوئی سابقہ خاوند سے بچوں کا خرچہ لینے اور کوئی نکاح نامہ پہ لکھی شرائط کے مطابق رقم وصول کرنے آئی ہوئی ہوتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں لڑکی والوں کی طرف سے ایک رواج چل نکلا ہے کہ نکاح کے وقت نکاح نامہ پہ چند شرائط لکھائی جاتی ہے ہیں جس میں زیادہ تر یہ لکھا ہوا ہوتا ہے کہ اگر لڑکی ناراض ہو کر میکے آئے گی تو جتنا عرصہ وہ ناراض رہے گی اتنا عرصہ کا خرچہ لڑکے کے ذمے ہوگا، اگر لڑکی طلاق لے گی تو اتنے تولہ سونا لڑکا دے گا، یا طلاق کی صورت میں اتنی رقم ادا کرنی ہوگی۔ مکان یا کوئی پلاٹ لڑکی کے نام کروایا جائے گا وغیرہ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ شاید یہ شرائط لکھوانے سے ہماری بیٹی محفوظ ہوجائے گی اور اسکو سسرال میں بڑی عزت و احترام سے رکھا جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوتا جب لڑکا ایسی شرایط لکھ کر دے دیتا ہے تو اس کے دل میں سسرال والوں کے لیے اور بیوی کے لیے وہ محبت اور عزت نہیں رہتی وہ سمجھتا ہے کہ اس کے سسرال والوں نے اس پہ یقین نہیں کیا اور انہوں نے ایک طرح سے اپنی بیٹی کا سودا کیا ہے اور اسے لگتا ہے کہ اب زندگی بھر اسے بلیک میل کیا جاتا رہے گا۔ اور پھر جب بھی میاں بیوی کے درمیان لڑائی ہوتی ہے تو شوہر بیوی کو اس بات کا طعنہ دیتا ہے۔
امام حسن علیہ السلام کا فرمان پڑھا تھا کہ اپنی بیٹی کی شادی کسی متقی اور پرہیز گار شخص سے کرو کیونکہ اگر وہ اس سے محبت کرے گا تو اس کی عزت کرے گا اور اگر محبت نہیں کرے گا تو اس پہ ظلم نہیں کرے گا۔ اگر نکاح نامے پہ یہ لمبی چوڑی شرائط لکھوانی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ لڑکی والوں کو لڑکے پہ یا اس کے خاندان پہ بھروسہ نہیں ہے، بھئی اگر یقین ہی نہیں تو اپنی بیٹی انکے ہاتھ میں دے ہی کیوں رہے ہیں؟ اگر رشتہ طے کرنے سے پہلے ہی اچھی طرح چھان بین کرلی جائے تو یہ شرائط لکھوانے کی نوبت ہی نا آئے۔ جس نے آپکی بیٹی کے ساتھ اچھا سلوک نہیں رکھنا وہ ہزار شرائط لکھوانے کے باوجود بھی باز نہیں آئے گا اور جس نے طلاق دینی ہی ہوئی تو وہ ان شرائط کی پروا نہیں کرے گا، کتنی ہی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں نکاح نامہ پہ اور سٹیمپ پیپر پہ لمبی چوڑی شرائط لکھوانے کے باوجود لڑکی کو طلاق ہوجاتی ہے اور پھر سالوں عدالت کے چکر کاٹتے نظر آتے ہیں۔
لوگ جہیز کو لعنت سمجھتے ہیں لیکن بیٹی دیتے وقت عین نکاح کے وقت یہ معاہدہ لکھوانے کا دعویٰ کر دیتے ہیں اس وقت بے چارے لڑکے والے بارات واپس بھی نہیں لے جاسکتے تو بے عزتی سے بچنے کے لیے مجبوراَ لڑکی والوں کی بات ماننے پہ مجبور ہوجاتے ہیں۔
جب اپنے جگر کا ٹکڑا دے دیا تو یہ شرائط لکھوانے کا کیا فائدہ جیسے جہیز لعنت ہے ویسے ہی یہ باتیں بھی نکاح کو مشکل بنا رہی ہیں۔ نکاح کو آسان بنائیے اور اللہ اور اسکے رسول ص کے حکم کی تعمیلکیجئے ان شاء اللہ ہماری بیٹیاں اپنے گھروں میں خوش اور آباد رہیں گی۔