دور اندیش افراد کی نگاہیں مستقبل میں زمانے کی کج رفتاری سے رونما ہونے والے وقوعات کو بآسانی درک کرلیتی ہیں، اور ان کے کانوں کی بصیرت زود ہنگام وقت کی آہٹ کو بھی محسوس کرنے سے قاصر نہیں ہوتیں۔ یہ ایک فطری عمل ہے، جس کا آپ مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔ قدرت نے یہ صلاحیت صرف انسانوں کو ہی نہیں ودیعت کی، بلکہ بعض جانوروں کو بھی مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات کے ادارک کی بھر پور صلاحیت عطا کی ہے۔ جس کا تجزیہ علم الحیوان کے ماہرین نے کیا ہے۔
لیکن انسانوں کے ساتھ سب سے بڑا المیہ یہی ہے، کہ وہ سب کچھ جاننے کے بعد بھی اپنے ناگزیر عمل کے عبرتناک انجام سے شعوری طور سے اعراض کرتا ہے۔ خاص کروہ سیاست مدار افراد جن کے ہاتھوں میں کسی ملک کی باگ ڈور ہوتی ہے۔ یا کوئی ایسا ملک کا مطلق العنان بادشاہ جو اپنے ملک کے عوام پر براہ راست حکومت کرنے کا اپنا پشتینی حق سمجھتا ہو۔ اس لئے کہ حکومت کا نشہ اور دولت کا غرور جب انسان کے دماغ میں حلول کرتا ہے تو سب سے پہلے اس کی عقل پر حملہ آور ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں عقل اس کی زبان و فرمان کے طابع ہوجاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں اس کی منھ زور خواہشیں سرکشی کی صورت میں تجاوز و تصرف کو اپنے ماتحت پر روا گرداننے لگتی ہیں۔ اس کی مثال کے لئے ہم دنیا کی سب سے بڑے جمہوری ملک ہندوستان کی برسر اقتدار حکومت کا مجموعی طور سے تجزیہ کرسکتے ہیں، کہ وہ ہندوستان کے مستقبل کے رخ کو آسمانوں کی سیاحت اور مریخ و سیارگان افلاک سے موڑ کر جنگل کی ہزاروں سالہ تہذیب کی طرف لیجانے کی کوشش میں منہمک ہے۔ اب اس کا منطقی انجام کیا ہوگا یہ اہل سیاست تو نہیں لیکن صاحبان علم و اہل بصیرت اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب جمہوریت سے چلنی والی عارضی حکومتوں کا یہ عالم ہے تو وہ حکومتیں جنھیں وراثت میں اپنے باپ دادا سے ملی ہوں ان کے نخوت و غرور کا کیا عالم ہوگا۔ ایسے حکمرانوں کی نظر میں عوام کی حیثیت ایک جانور سے زیادہ نہیں ہوسکتی، یہی وجہ ہے کہ جب ایسے حکمرانوں کی آزادانہ روش اور ملک کے عوامی حقوق اور ان کے جبر و استبداد کے خلاف کوئی آزاد صحافی یا دانشور اپنے قلم کے ذریعہ ان کی خودسرانہ روش پر تنقید کرتا ہے، تو اس کا انجام سوائے موت کے اور کچھ نہیں ہوتا۔
سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے آزاد صحافی جمال خاشقجی جن کا قتل استبول میں واقع سعودی سفارت خانے میں سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کے اشارے پر بڑے بیہمانہ انداز سے کردیا گیا۔ جس کا تذکرہ اس وقت عالمی میڈیا میں گردش کررہا ہے۔ لیکن ابھی ان کی گمشدہ لاش کے باقیات کی تلاش جاری ہے۔ جمال خاشقجی کے قاتلوں کی استنبول سعودی کونصیلٹ میں ہنگامی آمد و رفت سے اس بات کا انکشاف ہوچکا ہے، کہ جمال خاشقجی کے قتل میں کون لوگ شامل تھے اور اس واردات کے انجام دہی اور اس کے تانے بانے تیار کرنا والا مرکزی کردار کون ہے۔ عالمی میڈیا نے جمال خاشقجی کے قتل میں سعودی کے جواں سال ولی عہدمحمد بن سلمان کو ہی اس کا ماسٹر مائینڈ قرار دیا ہے۔ لیکن سعودی عرب کی سرپرستی کرنے والے امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا اس وردات کے بعد میڈیا میں آنے والے مسلسل بیانات میں بڑے تضادات پائے جارہےہیں۔ جس سے پوری دنیا کو اس بات کا علم ہے کہ امریکی صدرڈونالڈ ٹرمپ محمد بن سلمان کوجمال خاشقجی کے اس خونی گرداب سے باہر نکالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ چونکہ اس قتل کے واقعہ کے طشت از بام ہونے کے بعد مختلف ذرایع ابلاغ سے یہ بات موصول ہورہی ہے کہ، محمد بن سلمان نے ترکی کے صدر طیب رجب اردگان کو پانچ ارب ڈالر کی پیشکش کی تھی۔ اور اس کے ساتھ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو بھی یہ پیشکش کی گئی تھی۔ جیسا کہ ساری دنیا کو اس بات کا پتہ ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ ایک بزنس مین شخص ہیں۔ لہذا وہ اس طرح کے کسی موقع کو اپنے ہاتھ سے قطعی جانے نہیں دیں گے۔ حالانکہ انھوں نے وائٹ ہاوس سے دیئے جانے والے ایک بیان میں کہا کہ اگر اس قتل میں سعودی عرب کا ہاتھ ہوا تو ریاض حکومت کو اس کے سخت نتائج کے لئے آمادہ رہنا چاہئے۔ لیکن تجزیہ نگاروں کے مطابق محمد بن سلمان کے خلاف ڈونالڈ ٹرمپ کا یہ عندیہ ایک پر فریب بیان سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ چونکہ اسوقت امریکہ کی پوری توجہ سعودی عرب کے مادنیاتی ذخائر اور اس کی دولت پر ہے۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس واقعہ کے پس پشت خود امریکہ بھی شامل ہو، چونکہ وہ اس طرح کی سازش کے ذریعہ سعودی عرب کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے اور موٹی رقم وصول کرنے کا اسے بہترین موقع سمجھتے ہوں، اس امکان سے انصراف نہیں کیا جاسکتا۔ جیسا کہ سیریا، عراق، یمن میں امریکہ اور اسرائیل کی سرپرستی میں برپا کی جانے والی جنگ میں نقصان تو صرف اور صرف مسلمانوں کا ہوا، لیکن اس کا بھر پور فائدہ استعماری طاقتوں نے اٹھایا۔
سعودی عرب کی موجودہ سیاسی و سماجی صورتحال انتہائی مخدوش حالت میں ہے۔ یہاں کے عوام عدم تحفظ کی شکار ہوچکی ہے۔ شاہی خاندان کو پہلے ہی دو گروہوں میں تقسیم کیا جاچکاہے۔ سعودی عرب میں رہنی والی اقلیتی طبقے کودیوار سے لگانے کی کوشش جاری ہے۔ جیسا کہ القطیف شہر کو سعودی حکومت کے جارح اور سفاک فوجی اہلکاروں نے اپنے ظلم و تشدد کا ہدف بنایا ہوا ہے۔ فی الحال سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان امریکہ کے چشم ابرو کے جنبش پر اپنے پورے وجود کے ساتھ رقص کررہے ہیں۔ شاید انھوں نے اس سے پہلے بعض عرب ممالک کے حکمرانوں کے عبرتناک انجام سے کوئی سبق نہیں لیا۔ اگر محمد بن سلمان نے ماضی کے عبرتناک واقعات سے استفادہ نہیں کیا تو اس بار انھیں بھی ان کی سلطنت کے جاہ جلال کے ساتھ استعماری طاقتیں ہمیشہ کے لئے خاک میں ملا دیں گی، اور عرب کے عربتانک واقعات کے باب میں ایک اور باقیات کا اضافہ ہوجائے گا۔ دنیا کے عظیم مفکر حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ’’کفر کے ساتھ حکومت تو کی جاسکتی ہے لیکن ظلم کے ساتھ نہیں،،