1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. اسماعیل آفتاب/
  4. آپا دھاپی

آپا دھاپی

انسان اپنے آپے میں اس قدر مگن ہے کہ اسے نہ کسی کی خبر نہ قدر، اب سے آدمی میں آدمیت کھوچکی ہے، آج کل کے دور میں انسان کو تمام جدید تر سہولیات میسر ہیں، تمام سہولیات سے لیس انسان کو ماضی کے بسنے والوں سے ہزاروں گنابہتر معیار زندگی میسر ہے، مہینوں میں طے کی جانے والی مسافت اب دنوں یا گھنٹوں میں طے ہو جاتی ہے۔ طبی سہولیات، بجلی، پانی، الیکٹرانک مصنوعات نیز ہر قسم کی سہولیات موجود ہیں، جو ایک صدی پہلے لوگوں کے موازنہ سے جدید تر ہیں، ہم اُس وقت کی نسبت ہزاروں گنابہتر معیار زندگی پہ ہیں۔ پہلے پہل، گاؤں سے گاؤں تک رسائی اور فاصلہ کافی وقت میں طے ہوتا تھا، اب تو گاؤں، شہر، ملک کیا دنیا ایک گلوبل گاؤں کی شکل اختیار چکی ہے، ہر سہولیات سے آراستہ جہاں ہم جدید تر ہو گئے ہیں وہی ہم میں احساس، محبت اور چاہت چھین چکی ہے، کم ترقی یافتہ لوگ جو بیک ورڈ سمجھے جاتے تھے ان میں ایثار و احساس کی دولت پائی جاتی تھی، ایک صدی یا اس بھی کم جب موبائل فون ایجاد نہ ہوئے تھے، جب کسی دور دراز پردیس میں رابطہ مشکل و دشوار تھا، وقت بھی کافی درکار ہوا کرتا تھا، تب بھی لوگ بڑی چاہت اور حلوص سے محبت بھرے پیغام ارسال کیا کرتے تھے، اور بڑی بے قراری و امنگ سے جواب کا انتظار رہا کرتا تھا، اس کے بعد کہیں جا کہ جب لینڈلائن میسر ہوئے تو قطاروں میں لگ کر اور گھنٹوں انتظار کے بعد اپنے دور دراز کسی بسنے والے سے بات کی جاتی، جو بنسبت آج بہت مشکل اور لمبا طریقہ تھا، آج تو ہر انسان دنیا میں بسنے والے کسی بھی دوسرے انسان سے ایک کال کی مسافت پر موجود ہے، لیکن پھر بھی ہمیں فرصت نہیں کہ ہم کسی کے لئے ذرہ سا وقت نکال کہ اس کا حال احوال دریافت کر لیں۔

آج وہ مزہ، وہ چاشنی یا وہ عجیب سی ایک خوشی کی کیفیت کبھی محسوس نہیں ہوئی جو پہلے پہل کسی حاص موقع سے قبل ہوا کرتی تھی، عید کے چند روز قبل ایک عجیب سے فیلنگ آ گھیرتی، دل میں ایک عجیب کیفیت گھر کرتی، اس دن کا انتظار بے صبری سے کیا جاتا کہ دل میں ایک ٹکٹکی سی بندھ جاتی، وہ لذت بدولت قرابت داروں کے ہوا کرتی تھی، اب کہ ہمیں فرصت کہاں اپنے تعلق داروں سے رابطہ استوار کرنے کی تو محسوسات بھی دور کہیں کھو گئی، اب نہ وہ مٹھاس نہ مزہ اور نہ ہی لذت، اب کس کو کس کی صحبت حاصل ہے، کہاں محفلیں لگتی ہیں، ہر انسان اپنے آپے میں اس قدر مگن ہے کہ نہ کسی کی خبر نہ قدر، بس اپنا آپا۔ ہمارے بزرگ بتایا کرتے ہیں، کہ تب جب انساں کے پاس سہولیات نہ تھی، ٹی وی کی ایجاد سے پہلے جب کہیں کسی کے پاس ریڈیو ہوا کرتا، تو اس کے گرد سارے محلے کا ایک ہجوم سا لگا رہتا، رات گئے محفلیں لگا کرتیں، ہر قسم کے لوگوں کے حلقے ہوا کرتے، تب اتفاق تھا، سکون تھا اور تحفظ بھی، کسی ایک خوشی سب کی خوشی ہوا کرتی اور کسی ایک کے غم میں سب نڈھال ہوا کرتے تھے، تب نہ کوئی تنہا تھا نہ کسی کو کوئی تنہائی۔

اپنے حسیں ماضی کو یاد کر کے وہ بزرگ ’’ہوں،، کر کے اٹھ جاتے ہیں اور چہرے پہ ایک عجیب سا تاثر لیئے چل دیتے ہیں۔

لیکن آج ہم اس جدید دور میں تگ و دو کرنے والے سات سمند پار رسائی پا کر بھی تنہا ہیں، ٹیکنالوجی کے اس دور نے جہاں ہمیں دنیا سے با خبر کر دیا ہے، وہی ہم اپنوں سے بے خبر ہو کر رہ گئے ہیں، ایسی میسر قربت میں بھی ہم سے احساس رحصت ہو چکا ہے، مجلسیں اب کہاں لگتیں ہیں، سوشل میڈیا اور بہت سے دوسرے بے فائدہ ذرائع اب کسی کو کہاں کسی صحبت کا محتاج ہونے دیتے ہیں، ہم جدید تر ہو کر بھی بد تر ہو رہے ہیں، کیونکہ جہاں امن و سکون اور اتفاق نہ ہوتو وہ لوگ بد تر ہوا کرتے ہیں، اور افسوس کہ ہم آج اس کیٹگری میں شامل ہیں، احساس سے مبرا آج کا دور بس آپا دھاپی کا دور ہے، آپا دھاپی کے اس دور میں ہم لذت زندگی سے محروم ہیں۔