1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. اسماعیل آفتاب/
  4. نیا نظام، نیا پاکستان۔ کیوں؟ (1)

نیا نظام، نیا پاکستان۔ کیوں؟ (1)

لمبے انتظار، چے میگوئیوں، قیاس آرائیوں اور پیش گوئیوں کے بعد بالآخرپاکستا ن کی تاریخ کا سب سے اہم ترین الیکش25 جولائی کو وقوع پذیر ہو گیا۔ جس میں شہریوں نے اپنے ووٹ کو اپنا حق سمجھتے ہوئے اپنے ملک کے مفاد کے لئے گھروں سے نکل کر ووٹ کو عزت بھی دی، اور ووٹ کو اپنے ملک کی بہتری کی خاطراس کا صحیح استعمال کر کے حب الوطنی کا مظاہرہ بھی کیا۔ اس الیکشن کو "آزادانہ، منصفانہ اور شفاف" بنانے کے لئے کی گئی تمام تر کوششیں صحیح ثابت ہوئیں۔ 10,22,46,183 میں سے 5,28,61,277 ووٹرز نے اپنا ووٹ اپنی اپنی پسندیدہ پارٹی کو ووٹ کاسٹ کیا۔ قسمت کی دیوی پاکستان تحریک انصاف پر مہربان رہی۔ جس کا نعرہ " نیا نظام، نیا پاکستان" ہے۔
مجھے نئے نظام اور نئے پاکستان کی اصطلاح نامناسب، غیر موزوں اور گراں گزری۔ کہ وہ پاکستان جس کی بنیاد "لا الہ الا اللہ"پر ہو۔ وہ پاکستان جو قومی نظریہ کی بنیاد سے لے کر قائداعظم کی عظیم کوششوں کے بعد معرض وجود میں آیا۔ جس کا خواب علامہ محمد اقبال نے دیکھا۔ اور اس کی بنیاد کے لئے مسلمانان ہند کو شعوری طور پر بیدار کرنے لے لئے ہمہ تن کوششیں کیں۔ وہ پاکستان جس کے لئے 1857 سے لیکر 1947 تک مسلمانوں نے اذیتیں اور تکلفیں برداشت کیں جن کاتاریخ میں کوئی مقابلہ نہیں۔ وہ پاکستان جس کے لئے ہمارے آباواجداد نے لاکھوں قربانیان دیں۔ کیا اس پاکستان میں کوئی کمی رہ گئی تھی، کیا اس پاکستان میں کوئی کوتاہی رہ گئی تھی جو اب "نیا نظام، نیا پاکستان" بنانے کی ضرورت پیش آئی۔
نہیں، ہرگز نہیں۔ اس میں نہ کوئی کمی تھی نہ کوتاہی۔ لیکن قیام پاکستان سے لے کر اب تک ہمارے صاحب قدر، اقتدار پسند حکمرانوں نے جس طرح اس مملکت کی دھجیاں اڑائی ہیں، بلکل یہاں ایک نئے نظام کی ضرورت ہے۔ جہاں ملک کی آدھی آبادی غربت میں مبتلا ہو اور حکمران وقت صرف چند سیاسی بیانوں کے علاوہ کوئی عمل درآمد نہ کریں۔ وہاں نئے نظام کی ضرورت ہے۔ جہاں صاحب اقتدار کے بچے تو بیرون ملک کے ٹاپ تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہوں اور ملک کے بچوں کو معیاری تعلیم تک بھی حاصل نہ ہو۔ وہاں نئے نظام کی ضرورت ہے۔ جہاں صحت اور تعلیم تو دور لوگ بنیادی ضروریات زندگی روٹی، کپڑہ اور مکان کو ترستے ہو۔ وہاں نئے نظام کی ضرورت ہے۔ جہاں غربت سے لڑنے کے لئے معصوم بچے بھی مشقت والی مزدوری کرنے پر مجبور ہوں۔ وہاں نئے نظام کی ضرورت ہے۔ جہاں میرٹ سے زیادہ سفارش اور رشوت کو ترجیح دی جائے۔ وہاں نئے نظام کی ضرورت ہے۔ جہاں امیر کا قانون علیحدہ اور غریب کا قانون علیحدہ ہو۔ وہاں نئے نظام کی ضرورت ہے۔ جہاں بے گناہ جیل میں سڑتے ہوں اور گناہ گار سر عام دنداناتے پھریں۔ وہاں نئے نظام کی ضرورت ہے۔ جہاں منصف قانون کی شقوں سے بھی واقف نہ ہوں۔ وہاں نئے نظام کی ضرورت ہے۔ جہاں لوگ ڈگریوں کے بعد نوکریاں تلاش کرتے کرتے مایوس ہو کر مزدوری کرنے پر مجبور ہوں۔ وہاں نئے نظام کی ضرورت ہے۔ جہاں اقتدار والے تو درد کی دوائی بھی بیرون ملک سے لیتے ہوں اور ملک کے بے چارے غریب ایک ایک بیڈ پر دو دو تین، تین زیر علاج ہوں۔ وہاں نئے نظام کی ضرورت ہے۔ ڈیموں سے زیادہ زور چند کلومیٹر اور ایک شہرپر محیط میٹرو اور اورنج ٹرین پر پیسہ پانی کی طرح بہا دیا جائے۔ وہاں نئے نظام کی ضرورت ہے۔ جہاں لاہور کو پیرس اور وہ پیرس ایک دن کی بارش سے پانی میں ڈوب کر وینس بن جائے۔ وہاں نئے نظام کی ضرورت ہے۔ جہاں سیاستدان ایک دوسروں پر کیچر اچھال کر خود کو دیانتدار اور ایماندار ثابت کرتے پھرے۔ وہاں نئے نظام کی ضرورت ہے۔ جہاں جو چاہے، جب چاہے دھرنا دے کر پورے ملک کے نظام کو مفلوج کر دے۔ وہاں نئے نظام کی ضرورت ہے۔ جہاں ملک کے سیاستدانوں کے پروٹوکول پر کڑوڑوں روپے خرچ ہو جائیں۔ وہاں نئے نظام کی ضرورت ہے۔ حکمران قوم کا خادم ہوتا ہے اور جب یہ خادم آقا بن بیٹھے تووہاں نئے نظام کی ضرورت ہے۔ جہاں ملکی انفراسٹرکچر کی بجائے سڑکوں پر انحصار کیا جائے۔ وہاں نئے نظام کی ضرورت ہے۔ جہاں ہمسائے ملکوں کے ساتھ ہاتھ بڑھانے کی بجائے، بندوقیں تان لی جائیں۔ وہاں نئے نظام کی ضرورت ہے۔ جہاں سیاست دان اپنی سا لمیت اور اثرورسوخ کے لئے سیاست میں ہوں۔ وہاں نئے نظام کی ضرورت ہے۔
بلکل جہاں، نظام کا خانہ خراب ہو گیا ہو۔ وہاں نئے نظام کی ضرورت ہوتی ہے۔ المیہ ہے کہ میرے عزیز ملک کے ذرے ذرے کا نظام الجھا ہوا ہے۔ یہاں بلکل ایک نظام کی ضرورت ہے، جو اس کو وہی پاکستان بنا دے۔ جس کی بنیاد قومی نظریہ کے ساتھ شروع ہوئی۔ جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا اور ایساپاکستان جیسا قائداعظم نے چاہا تھایہ پاکستان ویسا ہی بن جائے۔
اس کے لئے نئے نظام کی ضرورت ہے جو میرے ملک کی بنیادوں کو مضبوط کر کے اس کی بگڑی ہوئی شکل واپس لا دے۔ (جاری ہے)