پہلے آپ یہ واقعہ ملاحظہ کریں۔
ایک صاحب حیثیت انسان سے کسی نے ضرورت کے پیش نظر کچھ رقم ادھار لی، رقم واپسی کی ایک تاریخ مقرر کی، قرض دینے والے نے تاریخ پر رضا مندی کا اظہار کیا، قرض کی رقم کمرے سے نکال کر ضرورت مند کے ہاتھ میں تھما دی، ضرورت مند شکریہ ادا کرتے، سینکڑون دعائیں دیتے اپنی راہ ہو لیا، وقت گزرتا گیا، حتیٰ کہ قرض کی واپسی کی تاریخ آپہنچی، مقروض مقررہ تاریخ تک رقم واپس نہ کر سکا، قرض خواہ انتظار کرتا رہ گیا، کچھ دن اوپر ہوئے مگر پھر بھی مقروض کی طرف کوئی پیغام، کوئی سندیسہ نہ آیا، کافی دن بیت جانے کے بعد قرض خواہ نے مقروض کو قرض کی رقم واپسی کی تاریخ گزر جانے کی یاددہانی کروئی، مقروض کو یہ بات یاددہانی کروانا گراں گزری، اس نے جیسے تیسے رقم کا بندوبست کر کے قرض خواہ کے گھر رقم لوٹانے پہنچ گیا، رقم لوٹاتے کچھ الٹی سیدھی باتیں کیں، ماتھے پہ بل ڈالے، چہرے پہ برے تاثرات لیئے اٹھ کر چلا گیا، قرض خواہ بھی شکریہ کی بجائے ناراضگی کا اظہار کرنے پر مقروض کا ناقد ہو گیا، نیکی کر دریا میں ڈال!
اب آپ دوسرا واقعہ ملاحظہ کریں،
میں ایک دوست کے پاس بیٹھا تھا، ایک صاحب ان کے پاس آئے اور مجبوری کے پیش نظر میرے دوست سے گاڑی کچھ دیر کے لئے لینے کا مطالبہ کیا، دوست نے چابی دیتے ہوئی موصوف کو طے شدہ وقت پر واپس آنے کا کہا، موصوف نے اظہار رضامندی سے گاڑی لی اور چلا گیا، میرے دوست نے مقررہ وقت پر موصوف سے رابطہ کیا، موصوف نے تاخیر کی معذرت کی اور جلدپہنچنے کی یقین دہانی کرائی، ہم پھر باتوں میں مشغول ہو گئے، مزید کافی دیر گزرنے کے بعد بھی جب موصوف نہ پہنچے تو میرے دوست کے چہرے پہ ناراضگی کے تاثرات نمایاں ہونے لگے، اس کے لہجے میں غصے کی جھلک محسوس ہو رہی تھی، اتنے میں موصوف آ پہنچے، میرے دوست نے دو چار کھری کھری سنادی، موصوف خاموشی سے سنتے رہے، عاجزانہ لہجے میں شکریہ ادا کیا، وجہ تاخیر بتا کر مشکور انداز میں چل دئیے، مجھے یک دم اس قرض خواہ اور مقروض کی بات یاد آگئی، میں چونکا، مجھ سے رہا نہ گیا، میں نے موصوف کو سڑک پر جا لیا، ان کے روئیے کی داد دی، اور پہلا واقعہ بیان کیا، انھوں نے قہقہ لگایا، میرے کندھے پر ہاتھ رکھااور گویا ہوئے کہ آج ان کا انٹرویو تھا، اور جائے انٹرویو پر پہنچنا لازم و ملزم تھا، اگر ذرہ سی تاخیر ہو جاتی تو وہ نوکری سے محروم رہ جاتے، صبح میری گاڑی خراب ہو گئی، مگر الحمدللہ بوجہ آپ کے دوست کے میں وہاں پہنچا، اگر یہ مجھے گاڑی نہ دیتے تو میں کیسے پہنچتا، تاخیر توہو گئی مگرکوئی بات نہیں، آپ کے دوست کا غصہ قابل برداشت تھا، اس لئے میں نے ان کی جھاڑ کو بغیر کسی پریشانی کے سن لیا۔
میں ورطہ حیرت میں گم ہو گیا، میں اس انسان کو داد دئیے بغیر رہ نہ سکا، مجھے میاں محمد بخش کا ایک شعر یاد آگیا،
نیکاں دسے سنگ نیکی کرئیے، نسلاں نئیں بھلاندے
بریاں دے سنگ نیکی کرئیے، الٹا ضعف پہنچاندے
اصل میں قرض خواہ نے مقروض کی مجبوری کے پیش نظر اس کو رقم ادھار لی، مگر مقروض نے رقم کی تاریخ گزر جانے کے بعد بھی رقم نہ واپس کی تو قرض خواہ کے پوچھنے پر" اُلٹا چور کوتووال کو ڈانٹے " والا کام کیا، مگر یہ نہ سوچا کہ قرض خواہ نے ان پر کتنی نیکی کی ہے، اور دوسری طرف گاڑی ادھار لینے والے کو میرے دوست کی نیکی کا اندازہ تھا اور اس نے احسان فراموشی والا کام نہ کیا، آپ بھی اندازہ کر کے دیکھ لیجیے کہ آپ کے اردگرد کتنے لوگ احسان فراموش ہیں، یہ تب تک آپ کے ساتھ ہیں جب تک آپ ان کی امیدوں پر پورا اترتے ہیں، آج کل لوگ مدد کرنے والے کا شکریہ کی بجائے کئی کئی باتیں سنا جاتے ہیں، جن احسان فراموش لوگوں کی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ یہ بھلائی کا زمانہ ہی نہیں، پر بات سمجھنے کی! جو کوئی کوئی سمجھ پاتا ہے۔