کسی بھی ملک کی زبان اس میں بسنے والے لوگوں کے لئے کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ احساسات اور جذبات کو ظاہر کرنے کے لئے زبان لازمی جزو ہے۔ ملک میں بسنے والی مختلف قومیں اور قبائل جو مختلف زبانیں بولتے ہوں، ملک میں بسنے والے دوسرے لوگوں سے اپنے اظہار خیال کے لئے"قومی زبان" میں کرتے ہیں۔ اگر دو لوگوں کے درمیان سے زبان کے تعلق کو نکال دیا جائے تو باقی کچھ نہیں رہتا۔ لہذا، احساسات و جذبات کے بہترو شائستہ اظہار خیال کے لئے زبان پر مکمل عبور ہونا ضروری ہے۔ یہ ایک کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ اردو ایک لشکری زبان ہے اور اس کا وجود بہ نسبت باقی زبانوں کے نیا ہے۔ اس زبان کی نشونما اور پھلنے پھولنے کے لئے مغلیہ دور میں کافی اقدامات کئے گئے، جس کے اثرات مغلیہ سلطان شاہ جہاں کے قائم کردہ "اردو معلی، سے ملتے ہیں۔ کسی بھی زبان کے تحریری مجموعے کو ادب کہا جاتا ہے، اور ادب ہی زبان کی شائستگی کو بیان کرتا ہے اور یہ ادب ہی کی مرہون منت ہے کہ جو صدیوں بعد کے لوگوں تک پہنچتا ہے۔ ادب لسانی، معاشرتی لحاظ سے کلیدی کردار کا حامل ہے۔ ادب کو چاہے کوئی فن کہے یا آرٹ، تخلیق مسرت کہے یا کوئی اور نام دے۔ لیکن ادب، زبان کا ایسا ہمسفر ہے جس کے بغیر زندگی ادھوری ہے۔ مفکرین اور دانش وروں کے خیالات کے مطابق جو بات منصہ شہود پر آتی ہے وہ یہ کہ ادب زندگی کا پیر ہن ہے۔ لیکن آج یہ پیرہن بیرونی زبان میں گندھ کر میلا ہو چکا ہے۔ اب ہمارے ادب میں نہ وہ اصناف، نہ شائستگی، نہ قرینہ اور نہ خوشبو رہی ہے اور نہ ہی کوئی قاعدہ نہ قانون۔ بغیر دستور کے اور ملاوٹ شدہ شے کا معیار ہمیشہ پست ہی رہتا ہے اور تو اور ہمارا روزمرہ زندگی میں اظہارخیال اور انداز بیاں تک اپنی اصل شکل و ہییت کھوچکا ہے۔ اس بات کو اس شعر سے سمجھا جا سکتا ہے۔
وہ کرے بات تو ہر لفظ سے خوشبو آئے
ایسی بولی وہی بولے جسے اردو آئے
ہماری اس موجودہ لہجہ میں جس قدر انگریزی کی ملاوٹ کا رنگ روپ چڑھا ہے اس پر مولانا مودودی نے جوبیان کیا ہے اس سے اخذشدہ قاعدہ یہ ہے کہ، کسی دوسری زبان میں گفت و شنید کا مزہ ایسے ہے جیسے ایک بادام کو چھلکا اتارے بغیر کھایا جائے، جبکہ اپنی زبان میں گفتگو اس قدر شائستہ ہے کہ جس کا مزہ ایسے ہے جیسے بادام کو اس کے چھلکے کے بغیر مزے سے کھایا جائے۔ اردو ادب کی عمدہ تحریریں تو ہمیں بیسویں صدی کے وسط اور آخر تک تو ملتی ہیں مگر اکیسویں صدی میں کیوں نہیں؟ اس کہ بنیادی وجہ یہ کہ جب خط و کتابت کی جگہ فون اور میسجز نے لے لی ہے۔ فون کی اس بیس پچیس سالہ تاریخ نے ادب کی سینکڑوں سالہ تاریخ کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا ہے اور دوسری وجہ کتابوں سے دوری ہے، جس کا الزام بھی کسی نہ کسی اینگل سے سمارٹ فونز پر ہی آتا ہے۔ اس کے بے فائدہ اور بے جا استعمال پر۔ مطالعہ کی اہمیت کا اندازہ آج کتابوں سے دوری سے ہو ہی جاتا ہے۔ مگر تاریخ میں زندہ عظیم لوگوں کی زندگی کا ایک راز مطالعہ کہ عادت بھی ہے کہ جو انہیں ہر طرح سے علم دیتیں تھیں، کتابوں کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے تو واضح ہے کہ لارڈ میکالے نے کہا تھا کہ" اگر مجھے روئے زمین کی بادشاہت دے دی جائیں اور مجھ سے میری لائبریری لے لی جائیں تو میں بادشاہت کو ٹھکرا دوں گا، اور وہ لوگ جو کتابوں کے بغیر گھر کو جسم بغیر روح سے تشبیہ دیتے ہیں۔ کیا اس سے مطالعہ اور کتابوں کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہو جاتا۔ لیکن آج کتنے لوگ کتابوں کے مطالعہ کا ذوق شوق رکھتے ہیں؟ ٹیکنالوجی کی اس بے ہودہ ایجاد نے قوموں کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ صدیوں کے ادب کو کل آئی ٹیکنالوجی نے تھکا کر رکھ دیا ہے۔ بس یوں سمجھ لینا چاہیے کہ یہ ٹیکنالوجی ادب کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگی، اورموجودہ حالات کے پیشے نظر شاید وہ وقت دور نہیں۔