1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. اسماعیل آفتاب/
  4. چراغ آزادی خون سے جلتے ہیں

چراغ آزادی خون سے جلتے ہیں

ذرہ سی غور طلب بات ہے۔ آپ غور کرلیں اپنے روزمرہ کے ان کاموں پہ جن پہ ہم نے کبھی دھیان ہی نہیں دیا۔ مثال کے طور کر ہم کس طرح کسی بھی فکر کے بغیر پرسکون انداز سے اپنے گھروں میں اپنی نیند کو پورا کر لیتے ہیں؟ ہم کس طرح صبح سویرے اٹھ کر بڑے اطمینان سے گاؤں یا شہر میں کہیں بھی ادھر اُدھر سیرکے لئے نکل جاتے ہیں؟ہم کس طرح بغیر کسی بھی فکر کے اپنے روزگار میں مشغول ہو جاتے ہیں؟ ہم کس طرح بنا کسی خوف کے سکول، کالج، اور اپنی نوکریوں کی طرف چلے جاتے ہیں؟ کس طرح خریدو فروخت کے لئے بازاروں میں گھوم لیتے ہیں؟ اپنی مساجد میں کس طرح چین و سکون سے اپنے فرض کی ادائیگی کرتے ہیں؟ کس طرح اس ملک میں موجود قدرت کی طرف سے عطا کردہ بیش بہا نعمتوں کا مزہ لیتے ہیں؟

ایسا ممکن کیوں ہے؟

ایسا اس لئے ممکن ہے کیونکہ ہم ایک آزاد مملکت کے رہائشی ہیں۔ ہمارا ملک، ملک پاکستان ایک آزاد ریاست ہے۔ آزادی کی قدر اگر جاننا ہو تو ان سے جانئے جو اس وقت کسی بھی فریق کے زیر دباؤاپنی زندگیاں پس پس کر، ظلم و ستم کو جھیل کر گزار رہے ہیں۔ اگر آزادی کی قدر جاننا ہو تو فلسطین، برما اور شام کے مسلمانوں سے پوچھئے کہ آزادی کتنی بڑی نعمت ہے۔ آپ ان ممالک میں رہتے اُن ڈرے سہمے، لوگ جو خوف و ہراس سے گھر سے ایک قدم باہر رکھنے کو کتراتے ہوں ان سے پوچھئے۔ جو ظلم و ستم کی دلدل میں پھنس کر روٹی کے ایک ایک نوالے کو ترسیں، ان سے پوچھئے یہ آزادی کیا ہے۔ آپ اگر ان لوگوں کا نظام زندگی دیکھ لیں تو آپ اپنے کانوں کو ہاتھ لگانے پر مجبور ہو جائیں گے اور آپ اللہ کے سامنے سجدہ شکر کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ اور آپ کی زبان سے ہر وقت اپنی آزادی کو لے کر اللہ کا شکر ہی ادا ہوتا رہے گا۔ کیونکہ ایک مسلمان ہونے کے طور پر ایمان کا ہونا سب سے بڑی نعمت ہے اور ایک شہری ہونے کے طور پر آزادریاست کا ہونا اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ہم پر کڑوڑہا کر م ہے کہ ہم ایمان اور آزادی کی دولت سے مالامال ہیں۔

لیکن ایک سوال اپنے آپ سے کریں کہ یہ نعمت ’’آزادی‘‘ ہمیں بغیر کسی ترددکے مل گئی تھی؟ کیا کرہ ارض کا یہ ٹکرہ جسے ہم ’’پاکستان‘‘کہتے ہیں ازل سے ہی ہمیں یوں آزاد مل گیا تھا؟ اگر آپ ان سوالات کا جواب تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے تو آپ کو جواب ملے گا کہ

’’چراغ آزادی خون سے جلتے ہیں‘‘

یہ دھرتی جس کو ہم ’’ماں‘‘ کی سی اہمیت وعزت دیتے ہیں ہے۔ یہ ازل سے ہی ہمارے لئے مخصوص نہ کی گئی تھی۔ بلکہ اس دھرتی پر تو سکھوں، مغلوں اور انگریزوں کی حکومت رہی ہے۔ لیکن اگر آپ تاریخ کو پرکھے گے تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ کس طرح ان ادوار میں مسلمانوں کی عزت نفس مجروح ہوتی رہے، کس طرح مذہب کے اصولوں کو پامال کیا جاتا رہا۔ کس طرح مسلمانوں کو اپنی معاشرتی، سیاسی اور مذہبی فرائض کی ادائیگی کے راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی گئی۔ کہ جس کی بنا پر مسلمانوں نے اتحاد، حب الوطنی اور جذبہ ایمانی کی خاطرایک علیحدہ مملکت کے لئے کاوشیں کی۔ اور اس دھرتی کی خاطراپنا تن من دھن سب کچھ داؤ پر لگا دیا۔ ان قربانیوں کے قصے جاننے کے لئے سینے میں ایک پتھر جیسے دل کی ضرورت ہے جو شاید آزادی کی راہ میں حائل ان رکاوٹوں کو جان کر موم کی طرح پگھل جائے۔ کتنی جانوں نے نذرانہ دیا اس وطن کی حاظر، کتنی عزتیں تاتار ہوئیں، اور خون اس وطن کی مٹی کے لئے پانی طرح بہا دیا مگر اپنے منصوبے کو عملی جامع پہنانے تک حوصلے، ارادے کو پست نہ ہونا دیا۔ ایسے واقعات جو دل وجگر کو تڑپا کر رکھ دیں اورہر آنکھ پُرنم ہو جائے۔ عقیدت سے سر جھک جاتے ہیں ان کے لئے کہ جنہوں نے اس وطن کے لئے اپنے گھر باہر کی پراہ کی نہ اپنے جان و مال کی۔ لیکن یہ سب ہم اس لئے نہیں سمجھ سکتے کہ ہمیں یہ مملکت ایک آزاد ریاست کے طور پر عنایت ہوئی ہیں۔ ہم کیسے عظیم نعمت کی قدر کر سکتے ہیں؟ آپ چند لمحوں کے لئے فرض کر لیں کہ آپ کو اپنا گھرباہر چھوڑھ کر ایسی جگہ جانا پڑ جائے کہ جہاں نہ مستقبل کا کوئی اندازہ ہو اور نہ ہی جان کی کوئی یقین دہانی تو کیا آپ اپنا قدم اٹھائے گے؟ ہرگز نہیں۔ تو پھر ان لوگوں کا جذبہ اور حب الوطنی کی کوئی مثال نہیں کہ جنہوں نے اس ارض پاک کو اپنی جانوں سے زیادہ قدر دی۔ ان ماؤں کی عظمت کو سلام کہ جن کے دلیر و بہادر سپوت جذبہ ایمانی سے اس ملک کی خاطر اپنے خون کے نذرانے پیش کر گئے۔

لیکن ناجانے کیوں ہم اس ملک کو لفظی حد تک ’’ماں‘‘ تو کہتے ہیں مگرنہ تو ہم اس کی ماں جیسی حرمت کرتے ہیں اورنہ ہی ہمارے کردار سے آزادی کی قدر محسوس ہوتی ہے۔ لیکن ہمیں اس ملک کی حرمت کے لئے بڑی سے بڑی قربانی بھی دریغ نہیں کرنا چاہیے اور ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہمارے وطن پر خصوصی رحمت نازل فرمائے اور اسے تا قیامت آباد رکھے۔ آمین

اے نگار وطن تو سلامت رہے

تو سلامت رہے تا قیامت رہ