آج قائداعظم محمد علی جناح کو اپنے ملک سے بچھڑے ستر برس بیت گئے ہیں، ان ستر برسوں میں ہم نے قائدکے پاکستان کی بنیادوں کو کس حد تک مضبوط کیاہے، یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، اس کا اندازہ تب ہو ہی جاتا ہے کہ جب نئی حکومت آکر تمام تر نزلہ پرانی حکومتوں پر گراتی ہے، اوراپنی تمام تر توجہ اور کاوش پرانی حکومتوں کے پول کھولنے میں صرف کرتی ہے، جیسا کہ آجکل میڈیا پہ یہ حرکات عام ہیں، ہر کوئی محالفین پہ ملبہ گراتا ہے، اپنی ہر حکمت عملی کو اپنی خوبیوں اور سابقہ حکومتوں کی حماقتوں میں ڈکلیئر کیا جاتا ہے، اورہرحکومت، بری اور ناپسند حکمت عملی اور پالیسیوں کو پچھلی حکومتوں کا فلاز ہی گردانتی ہے، اور ہر صاحب اقتدار کسی نہ کسی طریقہ سے بغیر قائد کے نقش پر قدم رکھے، قائد ثانی بننے کی کوشش میں رہتا ہے، جیسا کہ پچھلے پانچ سالوں میں نن لیگ کے حامی "نوازشریف" صاحب کو اپنا قائد تسلیم کرتے تھے، اور اب تحریک انصاف کے حامیوں کو ملکی تاریخ میں پہلی بار قائد کا ثانی ملنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے، اور جب اقتدار کا دیہ ٹمتماتا ہے تو یہی حامی کسی اور منڈیر پر بیٹھ کر نزدیک اقتدار ہستی کو اپنا قائد تسلیم کر لیتے ہیں، خیر، قصہ مختصر، کیا اقتدار پسند لیڈرز یعنی کہ" قائدین "میں کوئی ایسی جھلک نظر آتی ہے، جس کا وجوود، واقعتا میرے قائد اور "فادر آف دی نیشن" میں تھا؟ اس گتھی کو سلجھانے کیلئے مندرجہ ذیل چند واقعات ہی کافی ہوں گے، جو لوگوں کی نظر میں قائد اعظم اور قائدین حاضر کی شحصیت کو نمایاں کر دیں گے،
آپ پہلا واقعہ ملاخظہ کیجئیے،
یہ واقعہ قیام پاکستان سے پہلے کا ہے، لیکن اس میں قائد کی ملک پاکستان سے مخلصی، حب اور ہمدردی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے،
1945ء میں قائداعظم سرحد کے دورے پر پشاور گئے، اس وقت ان کو سات ہزار کی ایک تھیلی بطور نذرانہ پیش کی گئی، آپ نے وہ رقم بنک میں جمع کروانی مناسب سمجھی اور اسی سلسلے میں آپ بنک تشریف لے گئے، قائداعظم کے کہنے پر پتہ کیا گیا کہ اس بنک کے عملے میں مسلمان کتنے ہیں، جب آپ کو بتایا گیاکہ صرف ایک اور وہ بھی کلرک، تو آپ پریشان ہو گئے، اور" ٹھیک "ہے کہہ کر چلے گئے، جب سب لوگوں نے وجہ پریشانی کا استفسار کیا تو قائد اعظم نے لیگی سردار نشتر، سردار اورنگ زیب، میاں ضیاء الدین، خان عبدالقیوخان سے مخاطب ہو کر کہا، سردار اورنگ زیب! آپ کی حکومت یہاں سال دو سال رہی ہے، یہ آپ لوگوں نے کیا کیا ہے؟آپ کو قرداد پاکستان کے ساتھ ہی ہوم ورک شروع کر دینا چاہیے تھا، میں آپ کو یہ بتا دوں کی پاکستان بہت جلد بننے والا ہے،
اب آپ دوسرا واقعہ ملاخظہ کیجئے،
جہاں قائداعظم نے شمار خوبیوں کے مالک تھے، وہی انہوں نے اپنی زندگی میں کبھی کسی ذاتی مفاد کے لئے اپنی ساکھ اور اثر و رسوخ کا سہارا نہ لیا، اس سلسلہ میں حد سے بھی زیادہ محتاط قسم کا رویہ اختیار رکھتے تھے،
قیام پاکستان کے بعد آپ کے ایک بھانجے جو وکیل تھے، وہ کراچی میں تشریف لائے اور قائداعظم سے ملاقات کی، قائداعظم نے ان کی قابلیت کی داد دی، اور کہاکہ، آپ کو یہاں میری قرابت داری کی وجہ سے اور بغیر کسی قابلیت اور اہلیت دکھائے کوئی عہدہ نہ ملے گا، اور کہا کہ، مجھے معلوم ہے کہ تم ایک اچھے وکیل ہو، لیکن میرے اخترام کی وجہ سے اہل مقدمہ اور عدالتوں کا تمہارے حق میں رجوع خارج ازامکان ہے، لہٰذا میں تمہیں یہاں وکالت کرنے کا مشورہ نہیں دے سکتا، آپ، قائداعظم کے اس واقعہ کادور حاضر کی حالت کے ساتھ موازنہ کر کے دیکھ لیجئے، تو آپ کو ملک اور ملکی سسٹم کی دھجیاں اڑانے والے نااہل اور نا تجربہ کار عہدیداران کی حقیقت کا علم ہو جائے گا، جب، جہاں اور جس جگہ میرٹ کی جگہ سفارش اور تعلیم یافتہ بے روزگار، مواقع سے عاری اور ناقابل اور قرابت دار، جو کہ سفارش کے بل بوتے پر ملکی کمان سنبھالے گے تو ملک کی ساکھ کیسی ہو، اس کا خمیازہ ہم ابھی تک بگت رہے ہیں، قائداعظم کے مندرجہ بالا ان واقعات سے ہمیں "قائداعظم "اور دور حاضر کے "قائد ین ثانی" کی شحصیات کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے، میں تو بس اتنا کہہ سکتا ہوں کہ قائدین ثانی تو بدلتے رہیں گے، لیکن شاید کوئی ایسا قائد دوبارہ نہ پیدا ہو گا کہ جو حقیقت میں قائدثانی کے لقب کا مستحق ہو۔