میں دنیا جہاں میں سب سے گناہگار شحص ہوں، میں کم عقل اور علم ناقص کا مالک ہوں، میں عمل کے لحاظ سے کمزور اور ظرف کے لحاظ سے بھی ادنیٰ ہوں، جب سے رب غفور ورحیم کے فضل و کرم سے ہاتھ میں قلم تھاما ہے تب سے ہی تاجدار مدینہﷺ کی شان میں چند الفاظ بطور نذرانہ و عقیدت پیش کرنا چاہتاتھا، مگر ان کی اعلیٰ اور کامل ذات کی شان تو شاید کوئی بھی بیان کرنے سے قاصر ہو، جس لحاظ، جس درجہ سے بھی ان کی شحصیت کو جانچا جائے تو اتنی گہری اور پائیداری کہ ظرف کی کس حد کو کس لحاظ سے بیان کیا جائے، لاکھ کوشش کے باوجودخود کو باز رکھتا ہوں، مگر مجھ جیسے گناہگار کو حصول بخشش کے لئے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے بعد جس ذات عالی شان کا وسیلہ ہے، وہ ذات تو نبی پاکﷺ کی ہی ذات ہے، میلادالنبیﷺ کے اس بارونق موقع پر کچھ الفاظ اپنی قلم سے لکھنے کی طبع آزمائی کر نا چاہ رہا ہوں کہ یہ نذرانہ عقیدت باعث بخشش بن جائے، اور گناہگارکو قبر و محشر میں نبی پاکﷺ کی پُرنور ذات کی شفاعت حاصل ہو سکے، (انشاء اللہ)،
نبی کریمﷺ عملی زندگی کے ہر لحاظ میں ایسے بلند پایہ کردار کے مالک تھے کہ جس کی کردار کشی کرنا انتہائی مشکل ہے، مقروضوں کا بار ہو، غریبوں کی اعانت ہو، مہمانوں کی ضیافت ہو یا پھر کوئی بھی کام، اخلاق مصطفیﷺ ہی آپ ﷺ کی زندگی کا وہ حصہ ہے کہ جو تمام انبیاء اکرام سے آپ ﷺ کو علانیہ ممتاز کرتا ہے، ایسا اخلاق کہ رہتی دنیا تک تمام لوگوں کے لئے باعث صراط مستقیم، انسان تو اشرف المخلوقات نبی پاکﷺ کی ہمدردی تو جانوروں اور چرند، پرند تک بھی تھی، اخلاق کے اگر ہزاروں درجے بھی ہوں تو وہ سارے کے سارے درجے نبی پاکﷺ کی واحد ذات اقدس میں موجود تھے، بردباری کا یہ عالم تھا کہ ہر روز بڑھیا کے کچرے کا ڈھیرخود پر برداشت کرتے، اور جب بڑھیا نے کچرہ نہ پھینکا تو اس کے گھر خیر و عافیت دریافت کرنے چلے گئے، اخلاق کے اس رتبہ کو دیکھ کر بڑھیا بھی با مشرف اسلام ہو گئی، طائف والوں کے پتھر کھا کر بھی بدعا کا ایک لفظ بھی زبان پر نہ لایا، جوتے خون سے لہو لہان ہو گئے مگر پھر بھی ان کے لئے دعا خیر کرتے رہے اور کہتے رہے کہ اے اللہ، ان کو سیدھی راہ دکھا، اوریہ نہیں جانتے کہ میں کون ہوں، واقعی طائف کے باشندے میرے نبی پُرنور ﷺ کی عظمت کو نہ پہچانتے تھے۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نبی پاک ﷺ نے پوری عمر کسی سے بدلہ نہ لیا، حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ انہوں نے نبی پاک ﷺ کی دس سال خدمت کی، مگر نبی پاک ﷺ نے کبھی بھی ان کے کسی کام یا کسی بات پر اعتراض نہیں کیا۔
سید سلیمان ندوی کی تالیف کردہ "سیرۃُالنبی ﷺ" میں حضرت خدیجہؓ کے بیان کردہ نبی پاکﷺ کے اوصاف درج ہیں، جس میں وہ کہتی ہیں کہ نبی پاکﷺ نے کبھی کسی کو بُرا بھلا نہیں کہا، کبھی کسی مسلمان کا نام لے کر لعنت نہیں کی، برائی کے بدلہ میں بُرائی نہ کی، کبھی ذاتی انتقام نہ لیا، بلکہ عفودرگزر کیا، کبھی کسی غلام، لونڈی، حتیٰ کہ جانور کو بھی اپنے ہاتھ سے نہ مارا، جب گھر میں تشریف لاتے تو ہمیشہ خنداں، ہنستے اور مسکراتے ہوئے آتے، دوستوں میں پاو، ں پھیلا کر نہ بیٹھتے، اگر کوئی بات کرتے تو اس انداز سے کرتے کہ اگر کوئی سننے والا اسے یاد کرنا چاہتا تو کر سکتا تھا۔
ایک دفعہ حضرت امام حسینؓ نے حضرت علیؓ شیر خدا سے نبی پاک ﷺ کے عادات و اخلاق کے بارے میں سوال کیا، تو آپؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ خندہ جبیں، نرم خو، مہربان طبع تھے، سخت مزاج اور تنگ دل ہر گز نہ تھے، کوئی ایسی بات ہوتی جو آپ ﷺ کو ناپسند ہوتی تو اغماض فرماتے، اپنے نفس میں تین چیزیں نبی پاک ﷺ نے بلکل دور کردی، بحث و مباحثہ، ضرورت سے زیادہ بات کرنا اور جو بات مطلب کی نہ ہوتی اس میں پڑنا، دوسروں کے منہ سے اپنی تعریف سننا ناپسند فرماتے، احسان و انعام کا شکریہ ادا کرتے اور قبول فرماتے، نہایت فیاض، نہایت راست گو، نہایت نرم طبع، اور خوش صحبت تھے۔
بطور مسلمان ہمیں بھی نبی پاکﷺ کے اخلاق پہ عمل پیرا ہونا چاہیے، ان کی زندگی ہمارے لئے باعث رحمت اور ان کی ذات باعث بخشش ہے۔
میں ایک گناہ گار اور عمل میں کمزور انسان ہوں، میرا علم بھی ناقص اور نفس بھی کمزور ہے، میرا ظرف بھی ادنیٰ اور میری ذات بھی ابتر ہے، میرا سویا ہوا ضمیر چمک اٹھے اور میرا ڈگمگایے ہوئے حوصلے کو بلندی مل سکے، اس لئے میں میلاد نبیﷺ کے موقع پر نبی پاک ﷺ کے خضور چند الفاظ بطور نذرانہ اور عقیدت پیش کرنا چاہتا ہوں، الفاظ سے بھی بڑھ کر وہ محبت اور جذبات جن کی بدولت اس نذرانہ کو پیش کرنا چاہتا ہوں، کہ شاید اس نذرانہ کو اللہ اور نبی پاک ﷺ کے خضور شرف قبولیت مل جائے، اور یہ میرے لئے باعث بخشش بن جائے، اور مجھے زندگی میں نبی پاکﷺ کی زیارت نصیب ہو جائے، اور بروز قیامت شفاعت مصطفیﷺ سے مستفید ہو سکوں، اللہ کرے کہ گناہگار کے اس نذرانہ کو شرف قبولیت حاصل ہو سکے۔