1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. اسماعیل آفتاب/
  4. کاملیت تو کسی کو حاصل نہیں

کاملیت تو کسی کو حاصل نہیں

انسان کو زندگی میں نکھار پیدا کرنے کے لئے ہمیشہ رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے، شاید اسی لئے اللہ کی ذات کا قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوتی سے تھامے رکھو، بشرط تقاضا، انسان خطا کا پتلہ ہے، انسان کی زندگی میں کبھی نہ کبھی، کہیں نہ کہیں، کوئی نہ کوئی غلطی ضرور سرزد ہو جاتی ہے، ہم دنیاکے کسی بھی اعلیٰ سے اعلیٰ عہدے پر فائز ہو جائیں، یا پھر بڑی سے بڑی سند حاصل کر لیں، ہمیں تب بھی رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے، بروز قیامت پہ یقین ایمان کے تقاضوں میں ایک تقاضا ہے، جس کے بغیر تکمیل ایمان نہیں ہو سکتی، ہر انسان جنت کا طلبگار ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ حاصل جنت، طالب جنت کے لئے کیسے ممکن ہے، اس کا راستہ تو نبی پاکﷺ کی حیات طیبہ اور قرآن مجید فرقان الحمید، جو کہ اعلیٰ فرمان الہیٰ ہے، دنیا میں ہر شعبہ میں رہنمائی کے لئے، ہر معاملہ فہمی کے لئے، ہر مشکل میں نجات کے لئے، اور ہر پریشانی کے حل کے لئے "رحمت اللعالمینﷺ" کی ذات اقدس ہی کافی ہے، ایک ایسی عظیم ذات کے جس نے خود ہر امور کو عملی طور پر سر انجام دے کر دکھایا اور عقل مندوں کے لئے لاتعداد اسباق مہیا کیے، اس ذات با برکت کی حیات مبارکہ سے یہ زندگی میں نکھار پیدا کیا جا سکتا ہے، مفہوم حدیث ہے کہ "نبی پاک ﷺ نے فرمایا "بروز قیامت نامہ اعمال میں سب سے زیادہ بھاری نامہ اعمال اخلاق کا ہوگا"آپ دنیا کا قاعدہ دیکھ لیں، ہر معیاری اور اچھی چیز اتنے ہی مہنگے داموں بکتی ہے، جتنی اس کی قدرو طلب، لیکن دنیا کے قانون قاعدہ سے منافی یہ تو ہم پہ عطیہ خداوندی ہے کہ اخلاق اپنی قدروحیثیت میں جس قدر افضال ہے، عمل میں اس قدر ہی آسان، حسن سلوک اور بول چال میں تمیز سے لے کر احکام الٰہی کے بڑے سے بڑے امر تک، کو حسن اسلوبی کرنا اخلاق کے زمرہ میں آتا ہے، آج اکثر بد اخلاقی کی حدیں عبور کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا، جھوٹ، غیبت، چغلی، گالی گلوچ، بددیانتی، بد نیتی، بدکلامی، غرور و تکبر، لڑائی جھگڑے تو معمول بن چکے، یوں کہنا بھی بے جا نہ ہو گا کہ گناہ میں ہماری آنکھوں سے لے کر ہاتھ، پاوں تک کوئی بھی اعضا مستثنیٰ نہیں، اس کا المیہ ہماری جاہلیت ہے، جب تک انسان گناہ کے مرتکب ہونے کی سزا و خمیازے سے غافل رہتا ہے، تب تک کوئی گناہ اسے گناہ نہیں لگتا، اگر کوئی انسا گناہ کو چھوڑنا چاہے تو دو باتیں ذہن نشین کر لے، ایک یہ کہ، جو گناہ اس سے سرزد ہونے جا رہا ہے، اس کی سزا کیا ہے، اور اگر گناہ کو خوف خدا کے ترک کر دے تو اس کا اجر کیا ہے، تو انسان کوئی بھی بڑے سے بڑا گناہ چھوڑ سکتا ہے، حسن اخلاق کے بار ے میں تو نبی ﷺ نے حکم فرمایا"مومنوں میں سب سے کامل ایمان والے وہ ہیں جواخلاق میں سب سے بہتر ہوں"۔ حسن اخلاق کا بہترین نمونہ کو نبی پاکﷺ کی ذات مبارکہ خود ہیں، آپ ﷺ کا اخلاق تو چرند، پرند تک بھی تھا، انسان کو تو اللہ نے اشرف المخلوقات بنایا ہے، انسان کی پہچان اس کا لباس نہیں بلکہ اس کا اخلاق ہے، بطور مسلمان زندگی میں نکھار کے لئے اور اخلاق کی بہتری کے لئے، نبی پاک ﷺ کے اسوہ حسنہ سے ضرور استفادہ کرنا چاہیے، ہر طالب رہنمائی کے لئے یہ اعلیٰ ذات ہی سرچشمہ ہدایت ہے، کیونکہ کاملیت تو کسی کو حاصل نہیں، مگر کامل ذات کی پیروی سے زندگی میں نکھار ضرور آجاتا ہے۔