اب حالات کو دوسرے رخ سے پرکھ لیں۔ عمران خان صاحب اپنے منشور " تبدیلی آگئی ہے" میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ اور اب یہ جلد "نئے پاکستان" کے وزیراعظم ہونے کا حلف اٹھانے جا رہے ہیں۔ یہ حکومتی نظام بھی تشکیل دے لیں گے۔ خان صاحب اب ایک سیاسی پارٹی کے ہی لیڈر نہیں بلکہ اب یہ بائیس کڑوڑ عوام کے نمائندہ بھی ہیں۔ ایک مملکت کے سربراہ بھی ہیں۔ لہٰذہ اب انہیں اپنی بول چال اور عمل و حرکات میں محتاط بھی رہنا پڑے گا اور ہر بات کو بولنے سے پہلے تولنا بھی ہو گاتا کہ یہ اپنے موقف پر ڈٹ سکیں اور عوام کے سامنے جواب دہ ہو سکیں۔
اگر آپ دنیا کے ممالک کی ساکھ کو پر کھیں تو دو کیٹگریز کے ممالک کے زمرے بنیں گے۔ ایک وہ ملک جومعاشی لحاظ سے مستحکم، جس کا نظام حکومت مضبوط اور جس کے قرضے اس کے اثاثوں سے کم ہوں۔ لوگوں کا معیار زندگی بلند ہو۔ بے روزگاری کا لیول بہت کم ہو اور روزگار لوگ اپنی آمدن سے خوشحال ہوں۔ تعلیم کا معیا ر اچھا اور شرح خواندگی زیادہ ہو۔ سرمایہ کاری کا نظام اچھا اور انڈسٹریز کی ساکھ بہتر ہو۔ صحت کے محکمے کی کاکردگی احسن اور ملکی انفرا سٹرکچر قابل انحصار ہو۔ سیاسی استحکام ہو۔ ایسے ممالک ترقی یافتہ ممالک کہلاتے ہیں۔ کیونکہ ہمارے ملک کا کوئی نظام مندرجہ بالا نظام سے دور دور تک نہیں ملتا لہٰذہ ہمارا ملک ترقی یافتہ ملک کہلانے کی صف سے کوسوں دور ہے۔ کیونکہ ہمارے ملک کا ہر شہری سوا لاکھ کا قرضائی ہے۔ ہمارے ملک کا سیاسی نظام غیر مستحکم، تعلیم کا معیار پست، بے روز گاری کا لیول زیادہ ہے۔ روز گار لوگ بھی آمدن سے خوشحال نہیں۔ محکمہ صحت کے حالات بھی حاصے اچھے نہیں۔ سرمایہ کاری بہت خراب ہے۔ کوئی غیر ملکی ہمارے ملک میں سرمایہ کاری کے لئے تیارنہیں۔ ملکی لوگ جو بیرون ملک مقیم ہیں اپنا پیسہ اپنے ملک میں لگانے سے بھی گریز کرتے ہیں۔
مندرجہ بالاخصوصیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ عمران خان صاحب ایک ترقی پذیر ملک کے حکمران ہیں۔ جس کوترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں لا کھڑا کرنا نہائیت مشکل اور نہایت محنت اور حکمت عملی کا کام ہے۔ ایسے حالات میں ملک کے نفع کمانے والے اداروں (ریلوے، واسا، واپڈا، وغیرہ) جیسے سرکاری اداروں کے نظام کو درست کر کے ملک کے لئے نفع بخش بنایا جا سکتاہے۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب ایک حاکم کی تمام تر توجہ ملکی مفادات کے لئے ہو۔ لوگ عمران خان صاحب کو ان حالات میں فٹ سمجھتے ہیں۔ یہ ان کو ایک محب وطن کا درجہ بھی دیتے ہیں۔ عوام ان کو ایماندار، دیانتدار اور لیڈر شپ کی تمام تر خوبیوں کا سرغنہ بھی سمجھتی ہے۔ اچھے فیصلے اور بہتر نظام حکومت کو ہینڈل کرنے کر قابل بھی گردانتی ہے۔
میں نے عمران خان صاحب کی 26جولائی کی تقریبا آدھے گھنٹے کی تقریر بڑے خشوع و خضوع سے سنی۔ اس تقریر نے جہاں کڑوڑوں لوگوں کے دل جیتے ہیں اس میں ایک میں بھی ہوں۔ میں ذاتی طور پر خان صاحب کے چیدہ چیدہ نکات سے متفق ہوں۔ پاکستان جیسے ملک کو واقعی ان نکات کے نفاذ کی ضرورت ہے۔ اگر حقیقت میں ہمارے ملک میں احتساب اوپر سے شروع ہوتو ملک کا بیڑہ بھی پار ہو ہی جائے گا۔ اور اپنے ملک کی ترقی کے لئے ہمیں اپنے ہمسائے ممالک سے تعلقات بھی بہتر کرنا ہوں گے۔ پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے۔ ہمیں زراعت کے فروغ کے لئے اقدامات کرنے چاہیے۔ جس طرح ملک کے صاحب اقتدار لوگ اپنے پروٹوکول پر پیسہ ضائع کرتے ہیں ہمیں وہ نظام بہتر کر کے پیسہ سرمایہ کاری کے نظام پر لگانا چاہیے۔
آپ عمران خان صاحب کی 29 اپریل کو مینار پاکستان میں کی گئی دھماکہ دار تقریر بھی سن لیں۔ خان صاحب کے گیارہ نکات جو تعلیم، صحت، ٹیکس کولیکشن، کرپشن سے منافی ریاست، سرمایہ کاری، روزگار کی فراہمی، زراعت کو فروغ، وفاقی نظام کی بہتری، ماحول پر توجہ، پولیس کا نظام، اور وومن ایمپاورمنٹ ہیں۔ اگرعمران خان صاحب نے حقیقت میں ملک میں ان کا نفاذ کر دیا تو یہ بے فکر ہو کر اپنی کرسی پر بیٹھ جائیں۔ کیونکہ یہ لوگوں کی ان سے قائم کردہ تمام تر تواقعات پر پورا اتر آئے گے۔ عوام ان کو اپنا حقیقی لیڈربھی مان لے گی۔ مگر ان سب کے نفاذ کے لئے خان صاحب کے پاس کوئی الہٰ دین کاچراغ نہیں۔ جس سے یہ تمام چیزیں اصلاحات ممکن ہوں۔ اس کے لئے نہائیت دانشمندانہ حکمت اور پالیسیوں اور وقت کی ضرورت ہے۔ صرف انقلابی ہونا ہی کافی نہیں۔ محض لفظ "انقلاب" استعمال کرنا انتہائی آسان ہے مگر ریاست میں "انقلاب" برپا کرنا انتہائی کٹھن ہے۔ لیکن اگر خدانخواستہ یہ بھی اپنے مشن میں ناکام ہو گئے تو یہ بھی دوسروں کی طرح اپنا بوریا بستر گول کر کے ملک سے باہر چلے جائیں گے یا پھر ہاتھ میں فائیلیں پکڑ کر کوٹ کچیریوں کے چکر کاٹ رہے ہوں گے۔ بہرحال، نتائج جلد حقیقت کا روپ دھار جائیں گے۔ لیکن امید ہے یہ ان اپنے جیالوں کومایوس نہیں کریں گے۔