خواب دیکھنے اور خواب بُننے میں فرق ہوتا ہے، ہر انسان اپنی زندگی میں ڈھیروں خواب بُنتا ہے، وہ خواب اس کی کامیابی کو حاصل کرنے میں پہلی سیڑھی ثابت ہوتے ہیں، یہ خواب ہی وہ پہلا باب ثابت ہوتے ہیں جو انسان کو مستقبل کے دھندلے دنوں کا آئینہ دکھاتے ہیں، انسان اپنے آپ کو مستقبل قریب یا مستقبل بعید میں کہاں دیکھتا ہے، اس کی ایک ایک تصویر کی جھلکیاں اس کے یہ خواب ہی اس کے ذہن میں اتارتے ہیں، شاید اسی لئے اشفاق احمد نے کہا تھا کہ ہر انسان کے اندرایک بچہ ہوتا ہے، جو انسان کو خواب دکھاتا ہے، انسان کو کبھی اُس بچے کو مرنے نہیں دینا چاہیے، آپ اپنے اردگرد کسی بھی انسان کو دیکھ لیجئے، اگر اس کے خواب، اس کی خواہشات اور اس کا مقصد چھوٹا ہے تو وہ اسی قدرمحدود گزر بسر کرتا ہے، لیکن جو بڑے خواب بُنتے ہیں اور ان خوابوں کی تعبیر کے لئے ہمہ وقت سرکردہ رہتے ہیں، وہی انسان زندگی میں کامیاب ہو پاتے ہیں، خواب بُننا ہی حاصل کامیابی نہیں، بلکہ یہ تو راہ کامیابی میں کاری گر ضرور ثابت ہو سکتے ہیں، لیکن حاصل کامیابی تو محنت کی مرہون منت ہے، اسی لئے کہا جاتا ہے کہ خواب وہ نہیں جو آپ کو سوتے ہوئے دکھائی دیں، بلکہ خواب تو وہ ہوتے ہیں، جو آپ کو سونے نہ دیں،
اس گتھی کو میں ایک واقعہ سے سلجھانے کی طبع آزمائی کرتا ہوں، میرے ایک دوست ہیں، اللہ نے انہیں عقل، علم، عمل اور شعور جیسی قیمتی نعمتوں سے نواز رکھا ہے، وہ بھی دوسروں انسانوں کی طرح بڑی بڑی خواہشات کے مالک ہیں، وہ ہر رات چارپائی پہ لیٹ کر کھلے آسمان میں تاروں کی طرف نظریں جمائے، دل ہی دل میں کئی سپنے سجاتے رہتے ہیں، گاڑی، مکان، بنک بیلنس اور اچھا معیار زندگی، یہ سب ان کی ترجیحات میں شامل ہیں، تکمیل خواہشات کے لئے کوئی بھی ایک منصوبہ بناتے ہیں، اس کے بارے میں علم حاصل کرتے ہیں، اور ہمہ وقت اس پر ڈٹ جاتے ہیں، لیکن ان کی ایک خامی ہے، وہ اپنے اس کام سے ہفتوں یا مہینوں بعد ہی اکتا جاتے ہیں، ان کے مطابق یہ کام ان کو مطمئن نہیں کر پا رہا، اکثر ان سے ایک ہی مطالبہ رہتا ہے کہ کسی بھی چیز کو ہاتھ لگانے سے وہ سونا نہیں بنتی، بس اسی "رنڈی رونے" میں وہ اپنا دل اٹھا لیتے ہیں، جس کی وجہ سے کسی صورت کامیابی سے ہم کنار نہیں ہو پاتے، ان سے یہ بھی جھڑپ رہتی ہے کہ کوئی راتوں رات تھوڑی سب کچھ حاصل کر لیتا ہے، اس کے لئے محنت، لگن اور مستقل مزاجی چاہیے ہوتی ہے، سونا بھی تو ایسے ہی سب کی نظر کو نہیں بھانے لگتا"پہلے سنار اسے سلگاتا ہے، پھر اس پر ہتھوڑی سے ہلکے ہلکے وار کرتا ہے، اس کی اصل شکل و صورت کو تبدیل کر ایک ایسا نکھار اس میں لاتا ہے، جو سب کی نظر کو بھانے لگتا ہے، لیکن وہ ان تمام دلائل کو پش پشت ڈال کر کسی نہ کسی شارٹ کٹ کی تلاش میں رہتے ہیں، جس کی وجہ سے اپنا بیشتر قیمتی وقت ضائع کر بیٹھتے ہیں مگر سوائے پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہیں آتا،
یہ المیہ صرف ان کی ذات تک محدود نہیں بلکہ ہماری آج کے دور کی پوری کی پوری قوم کسی نہ کسی شارٹ کٹ کی تلاش میں رہتی ہے، ہم میں سے ہر انسان جہاں دنیا جہاں کی سہولیات سے آراستہ ہونا چاہتا ہے، مستقبل میں آپ اپنے کو کسی نہ کسی اعلیٰ عہدے پر فائز دیکھتا ہے، گاڑی، بنک بیلنس اور اچھے معیار زندگی کی امنگ دل میں لئے ہوتا ہے، مگر اپنی زندگی کا بیشتر حصہ کسی نہ کسی شارٹ کٹ کی تلاش میں گنوا دیتا ہے، کامیابی کے لوازمات کو پورا کرنا ہی کامیابی کی گارنٹی ہے، جو کہ محنت، لگن اور مستقل مزاجی سے ہی حاصل کی جاسکتی ہے، ہم نہ تو دل جمعی سے اپنے کام کو سرانجام دیتے ہیں، بلکہ پوری عمر کسی نہ کسی معجزہ کا انتظار کرتے ہیں، کہ جو ہماری زندگی میں اس طرح رُونما ہو کہ ہماری زندگی میں زمین، آسمان جتنا فرق لے آئے، مگر شارٹ کٹ ضمانت کامیابی نہیں، بلکہ محنت اور مستقل مزاجی،
میرے وطن عزیز کے عظیم شاہینوں نے بھی ایک عجیب سا انداز زندگی اپنا لیا ہے کہ جو یورپ میں بسی لڑکیوں کو بطور مسیحا خیال کرتے ہیں، اور کسی نہ کسی طریقہ سے ان کے ساتھ ٹانکا فٹ کرنے کے چکر میں ہوتے ہیں کہ کسی بھی طرح وہ یورپ پہنچ جائیں تو پھر نکالیں گے بھوک کی کسر، ان زنگ آلود اور غلاماں ذہنیت کے حامل شاہینوں پہ کیسا تبصرہ بلکہ جو غیر ملکی شہریت کے لئے اپنی ماں سے بھی زیادہ عمر کی خواتین سے حرص و لالچ کی بنا پر شادی رچا لیتے ہیں، ان کا توبس "فٹے منہ"۔