افق کو چھوتی، بلندوبالاخواہشات جو انسان کو بے چین، بے بس، بے سکون، بے راحت اور زندگی کو بے رنگ کر کے رکھ دیتی ہیں۔ انسان ان خواہشات کی تسکین کے لئے دربدر کی ٹھوکریں کھاتاہے۔ مگر تمام عمران کا افادہ نہیں کر پاتا۔ ایک کے بعد ایک، اور پھر جنم لینے والی کئی اوربے شمار خواہشات انسان کو تھکا کر رکھ دیتی ہیں۔ اور ہر انسان بوجہ ان خواہشات کے حصول کے لئے مایوس و مضطرب نظر آتا ہے۔ اور انسان کی بے سکونی کا دوسرہ عنصر "ہوس"ہے۔ خواہشات و ہوس کے ملبے تلے دھبہ انسان پوری عمر راحت و سکون سے محروم رہتا ہے۔ ایک چپڑاسی سے لے کر بڑے سے بڑے عہدیدار تک کوئی انسان ایسا نہیں کہ جو خواہشات کی تکمیل کر کے خوش ہو سکے۔ تکمیل خواہشات میں انسان دنیا کے بھرے ہجوم میں اپنی ذات تک محو رہتا ہے۔ احساس انسان کی اس تگ و دو میں دم توڑ چکا ہے۔ یہ ہوس، یہ خواہشات ہم سے ہمارے اندر کا انسان نوچ نوچ کر مار دیتے ہیں۔ اس دنیا کے بڑے بڑے فاتحین، بادشاہ، سلاطین اور وزراء اپنی اپنی خواہشات و ہوس کی تسکین کے لئے ایسے ایسے جھمیلوں میں الجھے رہتے ہیں کہ تمام عمر محالفین کے ڈر سے ڈھکے چھپے اور دربدر میں بے سکوں زندگی گزار کر رہتی دنیا کے لوگوں کے لئے نشان عبرت بنتے چلے جاتے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہوس تو آدھے دنیا کے فاتح "سکندراعظم" کی بھی تسکین نہ کر سکی۔ جب اس کے ایک ماہر فلکیات دوست نے اسے یہ بتایا کہ اس کائنات میں اور بھی بے شمار دنیا آباد ہیں تو وہ رونے لگا۔ دوست نے حیرت سے پوچھا تو کہنے لگا کہ ابھی تک میں نے ایک بھی فتح نہیں کی۔ اور وہی سکندر اعظم آدھی دنیا کی فتح کا جشن اپنے شہرمقدونیہ میں منانا چاہتا تھا مگر وہ لت پت اپنی ہوس میں جب ملتان کے آگے نا جا سکا تو مایوسی کے عالم میں اس نے اتنی شراب نوشی کی کہ وہ بیمار پڑھ گیا اور بابل بھی نہ پہنچ سکا۔ اور جہان فانی سے رخصت ہوگیا۔ ایک روایت میں سکندراعظم کو اس کی بیوی نے زہر دے کر مارا۔ یہ وہ بیوی تھی جس سے سکندر نے ایران فتح کرنے کے وقت وہاں کی ملکہ نے شادی کی تھی۔ مگر دونوں روایت میں ہمارے لئے عبرت ہے کہ ہوس نے اس کی جان لے لی۔ فاتح دنیا اس دنیا سے جاتے یہ وصیت کر گیا کہ میرے مرنے کے بعد میرے ہاتھ تابوت سے باہر رکھنا کہ یہ لوگ سبق لیں کہ آدھی دنیا کا مالک اس جہاں سے خالی ہاتھ جا رہا ہے۔ ہوس تو قارون کی لالچ کی پیاس بھی نہ بجھا سکی۔ قارون کی دولت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی خزانوں کی کنجیاں ساٹھ اونٹوں پر لادھی جاتی تھی۔ مگر دولت کی اس ہوس نے اس سے اس کا ایمان تک چھین لیا، اس کی اتنی بیش بہا، بیش قیمت دولت بھی اس کی اندر کا انسان مطمئن نہ کر سکا اور وہ کافر ٹھہرابوجہ گھاٹے کی اس دولت کے۔ تاریخ گواہ ہے کہ منگولوں سے لے کر مغلوں تک تمام سلاطین اس قطہ اراضی کے لئے اپنے ہی خون کے پیاسے بنے رہے۔ انسان کی کھوپڑیوں سے مینار بنانے والا "امیرتیمور" بھی ہوس و لالچ میں مبتلا بے سکون اپنے دیش سے کہیں دور مرا۔ اور اپنے لئے بنائی گئی قبر تک میں اس کو دفن ہونا نصیب نہ ہوا۔ مغلیہ سلطنت کے پہلے بادشاہ بابر سے لے کر ظفر تک کی زندگی بے چین، بے سکون، دربدر کی ٹھوکروں میں بوجہ اس ہوس کے گزری۔ بابر اقتدار کی ہوس میں دربدر کی ٹھوکرے کھاتا رہا۔ اپنی بیوی "ارجمند بانو(ممتاز محل)" کے لئے تاج محل بنانے والا عظیم سلطنت کا مالک اپنے ہی بیٹے کی ہوس کا شکار ہو گیا او اپنی زندگی کے آخری ایام تاج محل کے سامنے بنی کال کوٹھری میں اپنے ہی بیٹے کی قید میں گزاری۔ شاہ جہاں کے چار بیٹے (دارا شکوہ، شجاہ، اورنگ زیب اور مراد بخش) اور دو بیٹیاں (روشن آراء، اور جہاں آراء)بھی اقتدار کی ہوس میں اپنے ہی خون کے پیاسے بنے رہے اور ایک دوسرے کو بے دردانہ موت کے گھاٹ اتا دیا۔ لیکن یہاں اگر سیاہ و سفید کا مالک بھی ٹھہرا توبے چین زندگی کو بطور عبرت نذر کر گیا۔ یہ خواہشات و ہوس کا ڈھیر ہمیں ڈھیر کر گیا۔ اور ہمیں اندھے گڑھے میں گرا کر خود بھی اسیر نہ ہو سکا۔ ہوس اقتدار میں لاکھوں، کڑوڑوں جانوں کا خون پانی کی طرح بہایا گیا۔ عقل والوں کے لئے یہ دنیا عبرت سے بھری پڑی ہت۔ مگر افسوس کے ہم آج اپنی خواہشات اور ہوس میں ہم ا پنوں سے ہی منہ موڑھ لیتے ہیں۔ یہ خواہشات ہمیں مضطرب، اور زندگی کو بوجھل رکھتی ہیں۔ ان کا ڈھیر ہم انسانوں کو اپنے تلے روندتا چلاجاتاہے۔ ایک بار زندگی میں ان خواہشات و ہوس کے وزن کو اپنے کاندھوں سے اتار کر دیکھیں کہ زندگی کس قدر پُرسکون، لطف اندوز ہے۔ کیونکہ زندگی تو ہلکی پھلکی ہے، بوجھ سارا خواہشوں کا ہے۔