1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. اسماعیل آفتاب/
  4. ظلم ہے یہ،ظلم

ظلم ہے یہ،ظلم

عقیدت چائیے ہوتی ہے پھر اس کے بعد سر توڑ کوشش تب جا کے کہیں فرض منصبی ادا ہوتے ہیں، ایک صاحب کہا کرتے مجھ میں بہت کچھ ہے، اکثر ان سے تکرار رہتی دوسرے کیا استفادہ کر رہے؟

شمع کا کام خود جل کر دوسروں کو روشنی دینا ہے، اجالا کرنا، ایک استاد مانند مشعل کے ہے، جس سے دوسرے استفادہ کرتے ہیں، فائدہ لیتے ہیں، میرا آج کا موضوع اساتذہ کا نظام تدریس ہے، ایک استاد کا اپنے شاگرد کے ساتھ صرف کتاب پڑھانے کی حد تک رشتہ محدود نہیں، بلکہ اس سے بڑھ کر بہت کام ہیں جو ایک استاد کے فرائض میں شامل ہیں، جس کو ایک فقرہ سے یوں بھی منسوب کیا جا سکتا ہے کہ والدین اپنے بچے کو آسمان سے زمین پر لاتے ہیں جبکہ ایک استاد اس بچے کی حاصی تربیت کے ساتھ اس کا رتبہ زمین سے آسمان تک بلند کر تا ہے، شاگر د کی تربیت استاد کے فرائض میں شامل ایک اہم فریضہ ہے، اس میں موجود چھپی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا، اس شاگرد کو اس کی صلاحیت میں ہنر مند بنانا ہے، جو صرف ایک استاد کر سکتا ہے، شاگرد کو ایک سوچ عطا کرنا، اس میں محنت کاجذبہ ابھارنا، لیکن یہ صرف وہ استاد ہی کر سکتا ہے جو دل سے طالب علم کے فائدے کی عقیدت رکھتا ہو، جو دہاڑی سیدھی کرنے کے چکر سے بالاتر ہو، لیکن افسوس کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں اس عنصر کی انتہا سے زیادہ کمی پائی جاتی ہے، ایک استاد بیک وقت معلم، ریسرچر، تجربہ کار اور مینٹور ہے، آپ اپنے اردگرد موجود اساتذہ کا حال ملاحظہ کر لیجئے، آپ خوداندازہ کر لیں گے کہ کتنے فیصد گھر میں سکول کی منصوبہ بندی کرتے ہیں؟اور کتنے اپنے شاگردوں میں چھپی صلاحیتوں تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں؟اور کون شاگرد کو اس کی دل کی آواز پہنچاننے میں مدد کرتے ہیں؟ شاید کوئی نہیں۔

’’تارے زمین پر، ، اسی موضوع پر مبنی ایک فلم ہے، جس میں ایک طالب علم کی نفسیات کو کوئی نہیں سمجھ پاتا، لیکن ایک استاد اس بچے میں موجود ہنر کو دریافت کرتا ہے، بچے کو موٹی ویٹ کرتا ہے، اور اسے اس کے خوابوں کو حقیقی رنگ میں رنگنے کا موقع فراہم کرتا ہے، لیکن افسوس آج ہمارے تعلیمی اداروں میں ڈسپلن کی پاسداری تو کرواتے ہیں، مگرطالب علم میں موجود ہنر کو دریافت نہیں کر پاتے، کیوں؟ کیوں کہ آج ہمارے تعلیمی اداروں میں استاد اور شاگرد کے درمیان ایک خلاہے، شاگرد اپنے ذہن میں موجود خیالات کو استاد تک پہنچانے کی ہمت نہیں کرتا، اور استاد بھی اپنے کچھ خیلے بہانوں کو مجبوریاں بنا کر شاگرد کی قابلیت تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتا، جس کی بدولت بچے کا ہنر سامنے آنے سے پہلے ہی انجام تک پہنچ جا تا ہے، کیا صرف کتابوں کی حد تک رہنے سے ہم فرضی منصبی ادا کر رہے ہیں؟ بچے میں موجود اہلیت کو ایک استاد نہیں جج کرے گا تو کون کرے گا؟ ایک شاگرد اس کے مستقبل کی بہتری کے لئے استاد کوشاں نہیں ہوگا تو کون ہوگا؟ یہ المیہ ہے ہمارا، ہمیں شاگردوں کو ان میں موجود صلاحیت کا بھرپور استعمال کا موقع بھی فراہم کرناہوگا، اور گائیڈنگ بھی کرنی ہو گی، اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو ہم فرض منصبی ادا نہیں کر رہے، ہم بھی اسے وعید کے مرتکب ہوں گے جو ناپ تول میں کمی کرنے کے زمرے میں آتے ہیں، اسی وعید سے اخذ شدہ قائدہ یہ ہو گا کہ جو وقت تدریس کے دوران اپنا وقت کہی اور گزارے تو اس کے لئے بھی جہنم عذاب کی وعید ہے، معلم کا فرض سیکھانا ہے اور اسے اپنے فرض کی پاسداری کے لئے ہمیشہ کوشاں رہنا چاہئے، ورنہ ہم بچوں پر ظلم کرتے ہیں، ہر شاگرد میں ایک قابلیت چھپی ہے، اور استاد کا کام قابلیت کو تراشنا ہے، تا کہ طالب علم اپنے اندر کی قابلیت کو بروئے کار لا کر اپنا لوہا منوئے، اپنا نام پیدا کرے، اور اپنے خوابوں کو حقیقی رنگ میں رنگے، عقیدت چائیے ہوتی ہے پھر اس کے بعد سر توڑ کوشش تب جا کے کہیں فرض منصبی ادا ہوتے ہیں، ایک صاحب کہا کرتے مجھ میں بہت کچھ ہے، اکثر ان سے تکرار رہتی دوسرے کیا استفادہ کر رہے؟

شمع کا کام خود جل کر دوسروں کو روشنی دینا ہے، اجالا کرنا، ایک استاد مانند مشعل کے ہے۔