میں نپولین بونا پارٹ کا فین ہوں، میں نے 2005ء میں نپولین کا پیچھا شروع کیا، یہ کورسیکا (Corsica) آئی لینڈ میں اجیکسیو(Ajaccio) میں پیدا ہوا تھا، میں پیرس سے فلائٹ لے کر وہاں پہنچا اور دو دن بونا پارٹ کے شہر میں گزارے۔
اجیکسیو میں نپولین کا گھر آج تک موجود ہے، میں تنگ گلیوں سے ہوتا ہوا اس کے گھر پہنچا اور دیر تک وہاں بیٹھا رہا، کورسیکا میں گاڑیاں نہیں ہیں، لوگ بگھیوں میں سفر کرتے ہیں، میں نے بگھی میں سارا جزیرہ دیکھا، میں 2006ء میں واٹر لو بھی گیا، واٹر لو بیلجیئم کا چھوٹا سا شہر ہے، اس میں برطانیہ اور روس نے مل کر 1815ء میں نپولین کو آخری شکست دی تھی، حکومت نے نپولین کے میدان جنگ کو میوزیم بنا دیا ہے، میدان جنگ کے درمیان اونچی پہاڑی ہے، چوٹی تک جانے کے لیے سیڑھیاں ہیں اور وہاں سے پورا میدان دکھائی دیتا ہے۔
واٹر لو میں "پلوٹوریم" بھی ہے، یہ ایک 360 زاویئے کا فورڈی سینما گھر ہے جس میں آپ کھلی آنکھوں سے پوری جنگ دیکھتے ہیں اور میں 2007ء میں سینٹ ہیلینا بھی گیا، یہ جنوبی بحراوقیانوس میں 16 بائی8 کلومیٹر کا چھوٹا سا آتش فشانی جزیرہ ہے، جزیرے کی فضا میں گندھک کی بو بسی تھی، یہ بدبو نپولین کے پھیپھڑے کھا گئی اور وہ 1821ء میں خون تھوک تھوک کر مر گیا، میں پیرس میں درجنوں مرتبہ اس کے مزار پر بھی گیا اور اس کا محل ٹولریزبھی تلاش کرتا رہا، یہ ٹولریز میں 15سال مقیم رہا، یہ عمارت 1871ء میں جلا دی گئی تھی، اس کا صرف گارڈن بچا تھا۔
نپولین حقیقتاً حیران کن کردار تھا لیکن یہ حیران کن کردار ہمارا موضوع نہیں، ہمارا موضوع اس کی وہ فلاسفی تھی جس نے اسے برطانیہ جیسی طاقت سے لڑا دیا، وہ برطانیہ کو نیشن آف شاپ کیپرز (دکانداروں کی قوم) کہتا تھا، اس کا خیال تھا برطانوی قوم دکانداروں پر مشتمل ہے اور دکاندار کبھی لڑ نہیں سکتے چنانچہ نپولین نے برطانیہ کو فتح کرنے کا فیصلہ کر لیا، نپولین کی پہلی آبزرویشن نیشن آف شاپ کیپرز درست تھی لیکن دکاندار لڑ نہیں سکتے وہ یہاں مار کھا گیا کیونکہ برطانیہ نے اسے نہ صرف دوبار خوفناک شکست دی بلکہ دکانداروں کی قوم نے اسے تاریخ کا رزق بھی بنا دیا۔
نپولین کی یہ فلاسفی اور یہ آبزرویشن ہمارا موضوع ہے۔ برطانیہ اپنے صنعتی انقلاب تک ایک عام غریب ملک تھا، ملک کے 80 فیصد عوام خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے تھے لیکن پھر ملکہ وکٹوریا نے پورے ملک کو ہنر مند بنانے کا فیصلہ کیا، ملکہ انقلابی تھی، اس کا خیال تھا قوم جب تک کمائے گی نہیں اس وقت تک اس کی حالت نہیں بدلے گی لہٰذا اس نے بے کار قوم کو دکاندار بنانا شروع کر دیا۔
برطانیہ کے ہر خاندان نے ڈرائنگ روم توڑ کر دکان بنائی اور وہاں کوئی نہ کوئی کاروبار شروع کر لیا، لاکھوں کی تعداد میں نئی دکانیں کھلیں، مصنوعات کی ڈیمانڈ پیدا ہوئی، ڈیمانڈ نے سپلائی کا پہیہ چلایا اور یہ پہیہ فیکٹریوں میں تبدیل ہو گیا یوں برطانیہ میں دو نئے طبقے پیدا ہوئے، مزدور اور بزنس مین، آپ آج بھی برطانیہ جائیں تو آپ کو ہر گھر، ہر عمارت کے نیچے دکان ملے گی، پورا لندن شہر دکانوں پرمشتمل ہے، یہ سلسلہ اٹھارہویں صدی میں شروع ہوا تھا، یہ تکنیک خوش حالی لے کر آئی اور پورا برطانیہ امیر ہو گیا، نپولین کا خیال تھا خوش حالی نے برطانیہ کو سست بنا دیا ہے، یہ لوگ اب لڑنے کے قابل نہیں ہیں لیکن واٹر لو کے معرکے نے یہ خوش فہمی غلط ثابت کر دی، دکانداروں کی قوم جیت گئی اور نپولین بونا پارٹ تاریخ میں دفن ہو گیا، یہ کیسے ہوا؟
ہم جب آج واٹر لو کی جنگ کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں جنگ وسائل کا کھیل ہوتی ہے، برطانیہ کے پاس وسائل تھے چنانچہ یہ جنگ جیت گیا اور نپولین بونا پارٹ وسائل اور پیسے کی کمی کی وجہ سے مار کھا گیا، جنگ کے لیے گولہ بارود، سپاہی، گھوڑے، گاڑیاں اور بحری جہاز درکار ہوتے تھے اور یہ رقم کے بغیر ممکن نہیں ہوتا، برطانیہ کے پاس رقم تھی، اس نے اپنی فوج کو تمام وسائل فراہم کر دیے جب کہ نپولین اور فرنچ عوام بے روزگاری اور کساد بازاری کا شکار تھے لہٰذا فرانس پھنستا چلا گیا، یہاں سے معیشت کے ایک پریکٹیکل فلسفے نہ جنم لیا اور یہ پریکٹیکل فلسفہ ہمارا موضوع ہے۔
دنیا میں معیشت کی بے شمار تکنیکس ہیں لیکن معاش کی اصل عمارت صرف دو ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے، آمدنی میں اضافہ اور غیر ضروری اخراجات میں کمی، آپ اپنی آمدنی میں اضافہ کرتے رہیں، آپ کی معیشت مضبوط ہوتی جائے گی اور آپ وہ سوراخ بند کرتے رہیں جہاں سے آپ کا سرمایہ ضایع ہو رہا ہے، آپ اپنی خوش حالی کو زیادہ دیر تک انجوائے کریں گے لیکن اگر آپ کی آمدنی بھی کم ہے اور آپ کے وسائل بھی مختلف سوراخوں سے نکل رہے ہیں تو پھر آپ خود کو زیادہ دیر تک برقرار نہیں رکھ سکیں گے اور برطانیہ نے صنعتی انقلاب کے زمانے میں یہ دونوں کام کیے تھے۔
ملکہ نے ہر شخص کو کمانے پربھی لگا دیا تھا اور اسے بچت کی عادت بھی ڈال دی تھی چنانچہ برطانیہ نے نپولین جیسی آندھی کا رخ موڑ دیا، یہ پہلی اور دوسری عالمی جنگ بھی جیت گیا اور یہ آج بھی دنیا کی مضبوط ترین معیشت ہے، ہم جس دن اس حقیقت پر غور کریں گے ہم اس دن اس نتیجے پر پہنچیں گے ہم ان دونوں مسئلوں کا شکار ہیں، ہم 21کروڑ لوگوں کا ملک ہیں لیکن ہم میں کمانے والے ایک کروڑ اور کھانے والے 20 کروڑ ہیں، کمانے والے کروڑ لوگوں میں سے بھی صرف 15لاکھ لوگ ٹیکس دیتے ہیں گویا21 کروڑ لوگوں کا بوجھ صرف 15 لاکھ لوگوں کے کندھوں پر ہے۔
ہم اگر ملک کو خودمختار اور اپنے قدموں پر دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں کمانے والے بڑھانے ہوں گے اور کمائی تجارت سے بڑھتی ہے ملازمت سے نہیں، ہمیں بھی لوگوں کو بچپن سے کمانے کی عادت ڈالنا ہو گی، حکومت نوجوانوں کے لیے خصوصی پیکیج کا اعلان کرے، یہ انھیں لڑکپن سے کمانے کی عادت ڈالے، حکومت ٹیکسوں میں کمی لا کر ٹیکس بیس بھی بڑھائے، آپ خود سوچیے حکومت اگر کسی شخص کی چوتھائی آمدنی لے جائے گی تو وہ ٹیکس کیوں دے گا؟ دوسرا ہمارے سرکاری ادارے لیکج کا بہت بڑا مرکز ہیں، حکومت کے 195 صنعتی اور کاروباری ادارے خسارے میں جا رہے ہیں۔
یہ ادارے ہر سال 1100 ارب روپے ضایع کر دیتے ہیں، پی آئی اے کا روزانہ کا خسارہ 11 کروڑ روپے ہے، آپ حد ملاحظہ کیجیے ہمارے پاس جہاز 32 ہیں لیکن پائلٹ 522 ہیں، 2018ء میں پی آئی اے کو دنیا کی تیسری بدترین ائیرلائن قرار دیا گیا تھاجب کہ اسی سروے میں سائوتھ افریقن ائیرویز کو دنیا کی پانچویں بہترین ائیرلائن ڈکلیئر کیا گیا، سائوتھ افریقن ائیرویز کے ملازمین کی تعداد پی آئی اے سے پانچ ہزار کم ہے۔
ہم یہ صورتحال کب اور کہاں تک برقرار رکھ سکیں گے چنانچہ حکومت اپوزیشن اور عوام کو اعتماد میں لے اور یہ خسارے کے شکار195 ادارے فروخت کر دے تاکہ کم از کم 1100 ارب روپے تو بچ جائیں، دوسرا ہمارے ملک میں ہر سال 24 فیصد بجلی اور 22 فیصد گیس چوری ہوتی ہے، حکومت یہ چوری صارفین پر ڈال دیتی ہے جس کی وجہ سے عوام کے لیے گیس اور بجلی کے بل دینا ممکن نہیں رہا، یہ بھی اب چوری کے بارے میں سوچ رہے ہیں، حکومت کچھ بھی کرے لیکن یہ چوری بند کرا دے، اس سے لوگوں کے بل نیچے آ جائیں گے، ہماری امپورٹس کا 30فیصد پٹرول اور گیس پر مشتمل ہے۔
ہم اگریہ کم کر دیں تو بھی ہماری درآمدات میں ٹھیک ٹھاک کمی آ جائے گی اور ہم ہر سال اپنے مالیاتی ذخائر کے برابر رقم بچا لیں گے اوریہ پبلک ٹرانسپورٹ کے بغیر ممکن نہیں، حکومت جتنی جلدی یہ حقیقت مان لے گی ہم اتنی جلدی امپورٹ بل کم کرلیں گے، ہم اتنی جلدی رائیٹ ٹریک پر آ جائیں گے، عوام کو سستی اور آرام دہ سواری چاہیے، یہ عوام اور حکومت دونوں کے لیے ضروری ہے، پوری دنیا اس حقیقت کو مان چکی ہے، صرف ہم اپنی ضد کی وجہ سے پیچھے رہ گئے ہیں، ہم جتنی جلدی اس حقیقت کو تسلیم کر لیں گے ہمارے پیاز اور ہمارے جوتے اتنے کم ہو جائیں گے ورنہ یہ سلسلہ آگے چلتا جائے گا۔
ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا ملکی سرمائے کی لیکج کی ایک بڑی وجہ ترقیاتی منصوبوں میں تاخیر بھی ہے، اورنج لائن منصوبوں کی اصل کاسٹ 164ارب تھی، عدالتوں کی وجہ سے 22 ماہ ضایع ہو گئے جس سے کاسٹ 240ارب روپے ہو گئی، یہ منصوبہ اب عثمان بزدار کے اسپیڈ بریکر پر رک گیا ہے، یہ اسپیڈ بریکر مزید سو ارب روپے ضایع کر دے گا، ہم جس دن ٹھنڈے دماغ سے ان عوامل کا جائزہ لیں گے جن کی وجہ سے پشاور میٹرو کی کاسٹ 17 ارب سے 82 ارب روپے، تھرکول پراجیکٹ 100 ارب روپے سے 300 ارب روپے، کراچی کا سرکلر ریلوے پچاس ارب روپے سے 207ارب روپے اور گوادر پورٹ 30 ارب روپے سے 300 ارب روپے تک چلی جاتی ہے ہم اس دن ملک کو ٹھیک کر لیں گے۔
حقیقت تو یہ ہے ہمیں 2007ء میں اسٹیل مل کے 22 ارب روپے مل رہے تھے لیکن ہم نے اپنی ضد کی وجہ سے اس پر مزید 50 ارب روپے ضایع کردیے، یہ اب کوڑیوں کے مول بھی نہیں بک رہی، ہماری یہ حماقتیں سرکار کی بالٹی کے پیندے میں سوراخ بڑھاتی چلی جا رہی ہیں اور یہ سوراخ جب تک موجود ہیں ہم اس وقت تک کشکول لے کر دردر پھرتے رہیں گے، اس دن تک ہماری بھیک کا سلسلہ بند ہو گا اور نہ ہم غربت سے نکل سکیں گے، ہمیں یہ بھی مانناہوگا ہماری پرانی حکومتیں بھی آئی ایم ایف سے قرضے مانگ کر یہ سوراخ پالتی رہیں اور ہماری یہ حکومت بھی سعودی عرب، یو اے ای، چین اور آئی ایم ایف سے قرض لے لے کر اس بالٹی میں ڈال رہی ہے۔
اصل مسئلے پچھلی حکومتوں نے ختم کیے اور نہ یہ کر رہے ہیں، پچھلی حکومتیں بھی کینسر کا علاج پیناڈول سے کر رہی تھیں اور یہ بھی یہ گولیاں نگلتے چلے جا رہے ہیں چنانچہ میری درخواست ہے آپ اصل حل کی طرف آئیں، لوگوں کو کمانے پر لگائیں اور حکومت لیکج کم کرے، یہ ملک تب چلے گا ورنہ آئی ایم ایف کا باپ بھی آ جائے تو بھی ہم غربت اور بے روزگاری کے سمندر سے باہر نہیں آ سکیں گے، ہم نپولین کی طرح ڈوبتے چلے جائیں گے، ہم اپنے مزار کا چراغ بن کر رہ جائیں گے۔