1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. معاذ بن محمود/
  4. سڑک، سواری اور بے دھڑک سی یاری (1)

سڑک، سواری اور بے دھڑک سی یاری (1)

یہ تین چیزیں مجھے عیاشی سی لگتی ہیں۔ زندگی اگر سفر ہے تو سڑک اس سفر میں شاید گزرتے وقت کی طرح ہے۔ آگے کی جانب چلتی ہوئی سڑک جس پر چلتے ہوئے آپ کبھی سست روی کا شکار ہوتے ہیں تو کبھی تیزرفتاری پر مجبور، کبھی دائیں بائیں موجود نظاروں میں کھو جانے لگتے ہیں تو کبھی رک کر کچھ آرام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جیسے طوعاً و کرہاً وقت کا ایک ایک لمحہ گزارنا پڑتا ہے ویسے ہی سڑک پر بھی ایک بار چل پڑے تو گزرنا ہی پڑتا ہے۔ زندگی میں وقت کی طرح سڑک پر بھی آپ کے لیے رفتار کی حد مقرر رہتی ہے۔ زندگی کو ضرورت سے زیادہ تیزی سے گزارنے کی کوشش کریں گے تب بھی خمیازہ بھگتنے کے امکان بڑھ جاتے ہیں، سست روی کا شکار ہوجائیں تب بھی۔ بالکل ویسے ہی، سڑک پر بھی آپ نے مقررہ رفتار کے اندر رہنا ہوتا ہے بصورت دیگر جانی و مالی نقصان کا ہمیشہ احتمال رہتا ہے۔

سواری، شاید روزگار کے مشابہ ہوتی ہے۔ چلنے والے بغیر کسی روزگار کے بھی چل ہی لیتے ہیں مگر منزل تک پہنچنے میں دیر ہونے کا اندیشہ غالب رہتا ہے۔ تاخیر کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ نوٹ فرمائیے کہ جلدی اور دیر کی اصل ایک موازنہ ہے۔ موازنہ ختم کر دیا جائے تو کیا جلد بازی کیسی سست روی۔ وسائل تک رسائی کی خواہش اگر حیوانی وصف ہے تو موازنہ خالصتاََ انسانی وصف کہلایا جا سکتا ہے۔ یہ اچھا بھی ہو سکتا ہے، برا بھی مگر اس کا ہونا تو کسی بھی انسانی معاشرے میں طے ہے۔ پس جس کے پاس اچھی سواری ہوگی وہ اپنی زندگی کا سفر زیادہ بہتر طریقے سے گزار پائے گا کہ اچھی سواری آرام، تیز رفتار ہونا اور محفوظ رہنے کا سبب بنتی ہے، شاید ویسے ہی جیسے ایک اچھا روزگار۔

زندگی اور سڑک کے سفر میں مشترک البتہ یاری ہی رہتی ہے۔ مناسب دوست یار ساتھ ہو تو سفر چاہے سڑک پر ہو یا بالعموم زندگی کا، کمال ہوجاتا ہے۔ بناوٹ، رکھ رکھاؤ سے پاک دوست ہو، آپ اس سے کچھ بھی کہہ سکیں، جج کیے جانے کا خوف نہ ہو، دنیا بھر کی غیبت دل کھول کر ہو سکے، جگتیں لگا بھی سکیں کھا بھی سکیں، کوئی تیسرا آجائے تو اسے بھی کھول کر اپنے ساتھ ملا سکیں۔۔ ایسا سفر ہو تو شاید کوڈ ادو بھی پیارا لگنے لگے۔

نومبر کے آغاز میں مستنصر بھٹی اور میں نے میلبرن تا پرتھ روڈ ٹرپ کا منصوبہ بنایا تھا۔ یہ سفر براستہ سڑک قریب 38 گھنٹے اور ساڑھے تین ہزار کلومیٹر فی طرف بنتا ہے۔ ارادہ تھا کہ بارہ گھنٹے یومیہ گاڑی چلائیں گے۔ ہر روز سفر ختم کرنے سے دو گھنٹے قبل اندازے کی بنیاد پر ہوٹل یا ائیر بی اینڈ بی بک کروا کر سوجایا کریں گے اور یوں کوئی تین روز ڈرائیو کرکے پرتھ پہنچیں گے۔ پرتھ میں ایک دن گزار کر اگلے دن اڑتیس گھنٹے ساڑھے تین ہزار کلومیٹر واپسی کا سفر شروع کریں گے اور یوں ایک ہفتہ صرف اور صرف روڈ ٹرپ کا مزا لیں گے۔ پلین میں Campervan اور Starlink سیٹیلائیٹ انٹرنیٹ بھی شامل تھا۔ تیاری اچھی خاصی جاری تھی کہ میری کلاؤڈ مائیگریشن کا پہلا schedule آن پہنچا۔ اگرچہ پہلا schedule کبھی پورا نہیں ہوتا تاہم پھر بھی، آخری ایام میں سات آٹھ دن کے ٹرپ پر نکلنا میرے لیے مسئلہ بن گیا۔ ادھر بھٹی کا بھی ایک معاملہ کسی کروٹ نہ بیٹھ پا رہا تھا لہذا ہم نے ٹرپ مختصر کرکے میلبرن تا ایڈیلیڈ کر لیا۔ وہاں سے ہمارا پلین سڈنی تا برسبین کا بنا جو پرسوں رات اختتام کو پہنچا۔

پلین کے مطابق مجھے میلبرن سے روانہ ہوتے ہوئے گاڑی ائیرپورٹ پر ہی کھڑی کرنی تھی۔ یہاں لانگ ٹرم پارکنگ ہوتی ہے جو گھر تا ائیرپورٹ ٹیکسی کرائے سے کہیں سستی پڑتی ہے۔ ائرپورٹ پر میں نے گاڑی پارک کی اور جہاز کی طرف روانہ ہوگیا۔ جہاز میں بیٹھ کر ویسے ہی خیال آیا کہ اکاؤنٹ تو چیک کروں مال کتنا باقی ہے۔ جہاز ٹیک آف کرنے سے ایک منٹ قبل بینکنگ ایپ کھول کر دیکھی اور آنکھوں سمیت کافی کچھ پھٹ گیا۔ میرا اکاؤنٹ خالی تھا۔ یہ میرے لیے شدید ترین غیر متوقع معاملہ تھا کیونکہ مہینے کی اس تاریخ کو اکاؤنٹ خالی ہونا بنتا نہیں تھا۔

ایپ میں ٹرانزیکشن ذرا جو سکرول کرکے دیکھی تو معلوم ہوا میرے بینک اکاؤنٹ کے ساتھ غبن ہوا ہے۔ میرا کارڈ ایک ایسے وقت پر کسی مشکوک EFTPOS پر استعمال ہوا ہے جس وقت ہم سب گھر میں موجود تھے۔ میں کریڈٹ کارڈ استعمال نہیں کرتا۔ ایک ہی بینک اکاؤنٹ ہے جس کا ایک ہی ڈیبٹ کارڈ ہے۔ یہ ڈیبٹ کارڈ میرے اور میرے بڑے بیٹے کے موبائل پر ایپل پے کے ذریعے لنکڈ ہے۔ جس وقت یہ مشکوک ٹرانزیکشنز ہوئیں اس وقت ہم سب ہمارے موبائل اور کارڈ گھر پر تھے۔ لہذا ایفپوس مشین پر ٹرانزیکشن کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ پھر جو تین ٹرانزیکشنز ہوئیں وہ بھی بیک وقت جو کہ ممکن ہی نہ تھا کیونکہ تین بڑی ٹرانزیکشنز کرتے ہوئے کم از کم ایک منٹ تو لگ ہی جاتا ہے۔ بہرحال جب تک یہ صورتحال سامنے آئی مجھے احساس ہوا کہ معاذ صاحب، گھوڑے لگ چکے ہیں کیونکہ آپ کے پاس ایک ہی کارڈ ہے، جس میں پیسے کوئی نہیں۔

پیسے منگوانا کوئی مشکل نہیں لیکن یہ کارڈ اب compromised تھا جس کا مطلب ہے اب اس میں کوئی رقم محفوظ نہ تھی۔ یہ تھیوری ٹھیک تین دن بعد درست ثابت ہوئی جب تک میں پرانا کارڈ بلاک کروا چکا تھا۔ میرے اسی بلاکڈ کارڈ سے ایک اور بڑی ٹرانزیکشن کی کوشش ہوئی تاہم بلاک ہونے کی وجہ سے مزید نقصان سے بچت ہوگئی۔ خیر اب ایک سچویشن تھی جو ہینڈل کرنی تھی۔ جہاز میں بیٹھنے سے پہلے بیٹے کو پیغام پہنچا چکا تھا کہ اپنے موبائل سے ایپل پے ڈس ایبل کر دو۔ سڈنی پہنچ کر بینک سے رابطہ کیا اور dispute file کیا۔ عموماََ ایک دو ہفتوں میں پیسے واپس آجاتے ہیں۔ تاہم اس وقت کے لیے ایک دوست سے ایک اور کارڈ لے کر ایپل پے پر ایڈ کر لیا تاکہ ٹرپ پر زیادہ اثر نہ پڑے۔ اللہ کا کام ہوا کہ ٹرپ پر زیادہ اثر نہیں پڑا۔

میں سڈنی میں ایک عدد کرسمس پارٹی کے سلسلے میں کیو سٹیشن ٹھہرا ہوا تھا۔ جمعہ کی شام ہم دونوں رینٹ سے گاڑی اٹھا کر وہیں پہنچ گئے۔ گاڑی ہمیں ملی Pajero Sports جو ڈیزل انجن، سپورٹس موڈ اور eco fuel consumption کا کوئی عجیب ہی امتزاج تھا۔ کیو سٹیشن کی داستان الگ ہے جو شاید میں تھوڑی بہت سنا بتا چکا ہوں۔ قصہ مختصر یہ کہ یہاں 1928 سے 1984 کے درمیان 14000 بحری جہازوں کے بیمار انسانوں کو رکھا جاتا رہا ہے۔ سرکاری طور پر یہاں پانچ سو اٹھہتر انسان اللہ کو پیارے ہوئے تاہم غیر سرکاری تعداد قریب 14000 ہی بتائی جاتی ہے۔ گویا ایک ایسی جگہ سونا پڑا جہاں آس پاس 14000 اموات ہوئی ہوں۔ یہ دو راتیں بھی دلچسپ رہیں۔ ایک رات اکیلے سویا جب میرے کمرے کے باہر ایک پری نشے میں جبکہ دو ہوش میں گپیں لگا رہی تھیں۔ انہیں دیکھ سن کر تو بھوت پریت ویسے ہی دماغ سے باہر ہوئے۔ اگلی رات تک مستنصر نے آجانا تھا۔ سب بھلا تھا۔ مستنصر یہاں آیا تو کیو سٹیشن ہی پر ہم نے کھانا کھایا۔ کھانے کی روداد بھی دلچسپ ہے۔ تفصیل پھر کبھی۔ دی الوقت قصہ مختصر ہم نے سٹیک، بارامنڈی مچھلی دل کھول کر چھکی۔

اگلی صبح شاید ساڑھے سات بجے ہم کمرے سے باہر سفر کے لیے تیار تھے۔ سفر کا پہلا حصہ سڈنی سے گولڈ کوسٹ پر مشتمل تھا۔ یہ قریب ساڑھے آٹھ سو کلومیٹر بنتا ہے۔ قریب دو سے تین مقامات پر رکنا ہوا۔ ایک جگہ دریا کنارے غروب آفتاب کے چکر میں ڈیڑھ ایک گھنٹہ سورج غروب ہونے کا انتظار کرتے رہے۔ ہمارے حساب سے گولڈ کوسٹ میں سورج ساڑھے چھ بجے غروب ہونا تھا۔ سات بجے تک سورج آسمان میں کھڑا ہمارا منہ چڑا رہا تھا۔ ساڑھے سات تک بھی جب غروب ہونے سے انکاری رہا تو ہم گاڑی میں بیٹھ کر آگے چل پڑے۔ کافی دیر تک سورج پر لعن طعن کرتے رہے کہ مقررہ وقت پر کیوں غروب نہ ہوا۔ بعد میں احساس ہوا کہ ہم گولڈ کوسٹ کا غروب آفتاب دیکھ رہے تھے جہاں کی گھڑیاں نیو ساؤتھ ویلز کے حساب سے نہیں چلتیں۔

میں میلبرن سے اپنے ساتھ پائے لایا تھا جو بڑے دل سے بنائے تھے۔ پائے ایک ڈبے میں منجمد تھے۔ دھیان رہا کہ انہیں منجمد ہی رکھنا ہے۔ کیو سٹیشن میں روٹیاں دستیاب نہ تھیں۔ شدھ انگریزی ماحول تھا وہ۔ لہٰذا فیصلہ ہوا کہ اب ایک تو کہیں سے تندوری روٹیاں پکڑنی ہیں۔ دوسرا مائیکروویو والا ائیر بی اینڈ بی پکڑنا ہے۔ روٹیاں پکڑتے ہمیں کم از کم ڈیڑھ گھنٹہ اضافی لگ گیا۔ روٹیاں اٹھا کر ائیر بی اینڈ بی دیکھا تو معلوم ہوا مزید ایک گھنٹہ لگے گا۔ یوں ہم صبح ساڑھے سات بجے کے چلے رات بارہ بجے مقام مطلوب پر پہنچے۔ اس سے پہلے بھی ہم ایک غلط پراپرٹی میں وڑ گئے تھے جہاں کے پڑوسی ہمیں ایسے دیکھ رہے تھے جیسے ہم کوئی ڈاکہ ڈالنے آئے ہوں مگر غلط گھر میں گھس گیے ہوں۔

اگلی صبح ہمارا ارادہ گولڈ کوسٹ کے ساحل سمندر اور ساحل سمندر کے اندر موجود لپٹتی جھپکتی مچھلیاں دیکھنے کا تھا۔ ساحل پر پہنچے تو بہت ساری یادیں ذہن سے گھوم گئیں۔ اللہ بھلا کرے چند پینٹھ چونٹھ رشتہ داروں کا، ابا مرحوم سال بھر کی بچت ہمیں کراچی لے جانے پر لگا دیا کرتے تھے۔ وہاں پہنچ کر ہم پشاور سے آئے سمندر کے لیے مرتے مٹتے لوگ۔۔ تین ماہ کراچی ہوتے۔ دو ماہ منت ترلے کرتے رہتے کہ سمندر لے جاؤ۔ بتایا جاتا وہاں بلیو بوٹل نامی کوئی جیلی فش مارکہ مخلوق آئی ہوئی ہے جو بہت خطرے ناک ہوتے ہی۔ دو ماہ ٹالتے رہنے کے بعد آخرکار تنگ آ کر ابا حضور خود سوزوکی کروا لیتے۔ سمندر پر جانے کا وقت آتا تو وہی رشتہ دار پونسڑی کے جو دو ماہ تک بلیو بوٹل کا بھنڈی رونہ لگائے رکھتے، اپنی اولاد کو سوزوکی میں عین وقت پر چڑھاتے ہوئے کہتے۔۔ "انہیں بھی ساتھ لے جانا اپنے کزنز کے ساتھ خوش ہوجائیں گے"۔ گولڈ کوسٹ کے ساحل پر پہنچ کر میں نے ایسے تمام رشتہ داروں کو تخیلاتی زپ کھول کر شہباز گل کا دیدار کروایا اور انجوائے کرنے لگا۔

گولڈ کوسٹ سے ہم برسبین گئے۔ برسبین میں ہماری ملاقات مستنصر کے بچپن کے دوست ارسلان پائن سے ہونی تھی۔ ہم نے ارسلان پائن کے گھر بیٹھ کر تھوڑا سکون کیا۔ اس کے بعد ارسلان پائن کو لے کر مزید خواری کے لیے سن شائن کوسٹ نکل گئے۔ سن شائن کوسٹ نہایت حسین علاقہ ہے۔ مزید برآں یہاں جنگلوں کے بیچوں بیچ سے ہو کر کئی راستے سمندر کو نکلتے ہیں جو دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ٹھیک سے یاد نہیں لیکن منحوس بیچ نامی ایک ساحل تھا شاید۔ وہاں مختصر ترین لباس نما میں ملبوس اس قدر خواتین تھیں اس قدر خواتین تھیں کہ جیسے انسان کے جی میل سپیم فولڈر میں ویاگرا کی ای میلز ہوتی ہیں۔ ہمارا شدید دل تھا کہ یہاں ٹھہر کر رب باری تعالیٰ کی تخلیقات پر اس کا شکر ادا کیا جائے تاہم منحوس بیچ پر منحوس انسانوں نے ناکافی پارکنگ ایریا بنا رکھا تھا جہاں پارکنگ نہ مل سکی۔ مزید برآں بھٹی صاحب ڈرون کی اڑان واسطے کوئی پپو قسم کی بیچ پر جانا چاہتے تھے جس کے لیے انہوں نے جل پریوں سے اظہار برات کا اعلان کرنے میں ایک لمحے کا توقف نہ کیا۔

یہاں سے ہم واپس برسبین کی جانب نکلے۔ راستے میں پوائینٹ مارٹ رائٹ لائیٹ ہاؤس نظر آیا۔ یہاں ہم اپنے ڈرون اور کیمرے سمیت ساحل پر اتر گئے۔ ایک جانب کسی شادی کے بعد کا فوٹوشوٹ جاری تھا۔ دوسری جانب ہم اور ہمارے پرلے جانب ایک عدد جوڑا بوس و کنار میں مصروف تھا۔ ہم دونوں کے پاس فی ڈرون تین بیٹریاں فی بیٹری پنجی منٹ کے حساب سے وقت تھا۔ سورج غروب کے قریب تھا مگر کہیں غیب میں کہ اس روز آسمان پر بارش و بادل کا غلبہ تھا۔ حسین و جمیل نظارہ تھا۔ ہلکی ہلکی بارش، تیز ہوا اور پھر کافی دیر تک آسمان میں موجود قوس قزح۔۔ سبحان اللہ۔ یہاں ہم نے ڈرونز کی تینوں بیٹریاں نچوڑیں، چنگی بھلی فوٹوگرافی کی اور پھر واپس برسبین کو چل پڑے۔

جاری۔۔