1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. فرحت عباس شاہ/
  4. کشکول بدست ابسولیوٹلی ناٹ

کشکول بدست ابسولیوٹلی ناٹ

افغانستان، عراق، لیبیا اور شام کے حالات دیکھ کر بھی اگر کسی مسلمان ملک کی لیڈرشپ کو بین الاقوامی صورتحال کی سنگینی کا انداہ نہیں ہوتا تو پھر خاکم بدہن اپنے ملک کی فاتحہ پڑھنے سے بہتر ہے اس لیڈر یا جماعت کی فاتحہ پڑھ لینی چاہیے۔ مجھے حیرت ہے ہمارے دانشوروں کی اکثریت ہر معاملے کو صرف لوکل تناظر میں ہی دیکھنے تک کیوں محدود ہے جبکہ آج کسی چھوٹے سے چھوٹے ملک کو بھی الگ تھلگ کرکے دیکھنا سیاسی جرم سے کم نہیں۔

پاکستان کی بین الاقوامی پوزیشن جتنی پیچیدہ ہے شاید ہی کسی دوسرے ملک کی ہو۔ یہاں سے ہمیشہ ہاتھیوں کی لڑائی کا میدان سجتا رہا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ ملک کے اندر کارفرما دشمن قوتیں تو جیسے ہمارے دروازوں پر دستکیں دے رہی ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے ہر جگہ گُھس بیٹھیے اپنے پنجے گاڑ چکے ہیں۔ موجودہ حالات کے پیشِ نظر ہر صوبے کی انتظامیہ اور ذمہ داران کو پہلے سے زیادہ الرٹ اور چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ جنگ اب صرف روایتی نہیں رہ گئی۔

اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک طرف دہشت گردی کا بازار گرم ہے تو دوسری طرف بارڈرز سے دراندازی پہلے سے بھی زیادہ ہوگئی ہے۔ پہلے کم از کم افغانستان کی طرف سے سکون تھا لیکن جب سے وہاں بھارت کا اثر و رسوخ بڑھا ہے پاکستان کے لیے مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ ملک کی سیاسی پارٹیوں سے لیکر کرائے کے دانشوروں تک کی طرف سے افواج پاکستان کے خلاف زہریلے پراپیگنڈے کا تسلسل کبھی ٹوٹنے میں ہی نہیں آیا سوائے اس وقت کے کہ جب انہیں اوپر سے " گزارش " کر دی جاتی ہے۔ یہ بظاہر خاموش ہو بھی جائیں لیکن ان کی منافقت کبھی گئی ہی نہیں۔

دکھ کی بات یہ ہے کہ پاکستان کی پوری سیاسی تاریخ میں تقریباً ہر سیاسی پارٹی جب بھی اقتدار سے باہر ہوتی ہے تو اس کے مسلسل دو وطیرے رہے ہیں، ایک بار بار اسٹیبلشمینٹ کو آواز دینا کہ اگر اب بھی اسٹیبلشمینٹ نے مداخلت نہ کی تو نہ ملک بچے گا نہ ادارے۔ یا پھر اسثیبلشمینٹ اور فوج کے خلاف زہریلے پراپیگنڈے کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کردینا۔ جس دن سے اسٹیبلشمینٹ کے کاندھوں پر بیٹھ کر اقتدار میں آنے والی تحریک انصاف کی حکومت ختم ہوئی ہے اس جماعت نے زہر پھیلانے، انتشار پیدا کرنے اور عوام الناس کے ذاتی استعمال کی انتہا کر دی ہے۔

مجھے حیرت ہے ذاتی فین شپ، پٹھان قومیت کارڈ، مذہبی ٹچ کارڈ کا اتنا بےدریغ استعمال دیکھ کر بھی کچھ لوگوں کی آنکھیں کُھل نہیں پائیں۔ علی امین گنڈا پور نے کیا کیا نہیں کہہ دیا۔ چلیں فرض کیا تحریک انصاف کو حکومت اور اسٹیبلشمینٹ سے شکوہ، ناراضی یا دشمنی ہو بھی تو اس میں پاکستان اور پاکستان کے عوام کا کیا قصور ہے۔ کبھی ملک بند کرنے کا تماشا تو کبھی سول نافرمانی کی دھمکیاں۔

تحریک انصاف نے کشمیر، گلگت بلتستان اور کے پی کے جیسے صوبوں کو جس طرح نہایت چالاکی سے ریاست کے خلاف اکسایا ہے اس کے ثبوت جگہ جگہ مل رہے ہیں۔ الحمراء آرٹس کونسل میں بیٹھے افسر شہزادگان کو اب پہلے سے زیادہ چوکس ہو کر پروگرامز کی بُکنگ دینی چاہیے۔ ادبی تنظیموں سے پیسے مانگنے والے الحمراکے افسر چالیس پچاس ہزار کے لالچ میں ریاست مخالف تقریریں کرنے والوں کو تو ہال کرائے پہ دے دیتے ہیں لیکن وہ شاعر، ادیب، سماج اور وطن کی بےلوث خدمت کرتے جن کی زندگیاں بیت گئی ہیں یہاں سے عزت تک نہیں لے پاتے۔

جب سے الحمراء کے بورڈ میں ایک کمزور اور دوسرے چور شاعر کو ممبر بنایا گیا ہے بورڈ بھی زنگ آلود ہوگیا ہے۔ ان کی ہر ممکن کوشش ہے کہ کسی تقریب میں کہیں کوئی جینوئن شاعر ادیب نظر نہ آجائے۔ مجلس ترقی ادب تو ویسے ہی موجودہ صدر نشین کی ذاتی دکان بن کر رہ گئی ہے۔ حال ہی میں ایک ایسے شاعر کانمبر شائع کیا گیا ہے جس نے مبینہ طور پر موجودہ صدر نشین اور اس کے حواریوں کو سرکاری اعزازات دلوانے میں مدد کی تھی۔

آپ کو یاد ہوگا کہ اس جتھے کو سرکاری اعزازات ملنے پر جس قدر شدید عوامی ردعمل آیا تھا پہلے کبھی ایسا دیکھنے میں نہیں آیا۔ کچھ برس پہلے اسی الحمراء ہال میں بھارتی گیت نگار جاوید اختر پاکستان بارے ہتک آمیز باتیں کر گیا اور سامنے بیٹھے جعلی دانشور تالیاں پیٹتے رہے۔ جس طرح کراچی آرٹس کونسل میں انور مقصود پاکستان بحری فوج کے شہداء کے بارے خرافات بکتا پایا گیا اور سامنے بیٹھے احمد شاہی جتھے قہقہے لگا لگا کر اپنے کھوکھلے پن کا مظاہرہ کرتے رہے۔

آج عوام انتشاری ٹولے کے ہاتھوں اگر بیوقوف بن رہے ہیں تو اس میں سرکاری اداروں کی غفلت بھی شامل ہے۔ عوامی خدمت کے لیےبنائے گئے اداروں میں بیٹھے ذمہ داران اگر پچاس فیصد بھی دیانت سے کام لیں تو لوگوں کا ریاست پر ایمان کبھی کمزور نہ ہو۔ ایک طرف فوج ہماری ہے، فوج ہماری ہے کی رٹ لگانے والی تحریک انصاف دوسری طرف لوگوں کو جس طرح کے ٹیکے لگا رہی ہے اسے سیاسی منافقت کے سوا کیا نام دیا جاسکتا ہے۔

یہ کہتے ہیں کہ عمران خان ہمارا نظریہ۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے تو سب سے پہلے تو ستر سال کی عمر میں بھی شادی کھڑکانے والے اس نظریے کو سمجھائیں کہ جن لیڈرز کے کاندھوں پر مظلوم و مقروض ملکوں اور قوموں کا بوجھ ہوا کرتا ہے انہیں سونا جاگنا اور کھانا پینا ہی یاد نہیں رہتا چہ جائےکہ وہ ہر دو چار سال بعد شادی رچاتا پھرے، وہ بھی ساٹھ ستر سال کی عمر میں۔ بھولے عوام بیچارے سمجھ رہے تھے کہ تحریک انصاف کا نظریہ شاید واقعی ریاستِ مدینہ ہے۔ اب پتہ چلا کہ نہیں ایسا ہرگز نہیں۔ ان کانظریہ کرکٹ کا ایک ایسا کھلاڑی ہے جو سیاست اور حکومت کرکٹ کی روشنی میں چلاتا ہے۔

ذاتی تحفظ اور رہائی کے لیے بار بار اپنے غریب پرستاروں کا بھرکس نکال کے رکھ دینے والا یہ لیڈر اپنی رہائی کے لیے اُسی امریکہ کے آگے کشکول بدست ہے جس کے خلاف پھریرے لہرا لہرا کر ابسولیوٹلی ناٹ کہتا رہا ہے۔ ہم کوئی غلام ہیں کہنے والے کو آج بھی اگر اسٹیبلشمینٹ وزیراعظم کے سنگھاسن پر بٹھا دے تو ٹھیک اور اگر نہ بٹھائے تو غلط۔ امریکہ کارڈ چل جائے تو قومی غیرت اور آزادی، نہ چلے تو غلامی کی خیرات کے لیے ترلے۔ یہ ہے نظریہ جس کا نام ہے عمران خان۔ نظریہء شادی و خانہ بربادی۔