یہ دو مختلف بادشاہوں کی داستان ہے، پہلے بادشاہ کا نام مائیکل سوم تھا، وہ بازنطینی بادشاہ تھا، عین جوانی میں بادشاہ بنا اوراقتدار سنبھالتے ہی اپنے تمام اختیارات عزیز ترین دوست اور منہ بولے بھائی بیسیلیس (Basilius) کے حوالے کر دیے، بیسیلیس ایک دلچسپ کردار تھا، وہ شاہی اصطبل میں گھوڑے سدھاتا تھا۔
مائیکل ولی عہد تھا تو وہ ایک دن اصطبل کے معائنے کے لیے گیا، ایک جنگلی گھوڑا کھل گیا، شہزادے کے تمام گارڈز بھاگ گئے، بیسیلیس نے یہ دیکھا تو اس نے گھوڑے پر چھلانگ لگا دی اوراس کی گردن سے لپٹ گیا، گھوڑے نے اسے گرانے کی بے شمار کوششیں کیں لیکن وہ ناکام ہو گیا۔
شہزادہ یہ سارا منظر دیکھتا رہا، وہ نوجوان کسان کی ہمت اور جرات سے متاثر ہوا اور اس نے اسے اصطبل کا سربراہ بنا دیا، یہ دونوں کے درمیان دوستی کا آغاز تھا، مائیکل سوم نے اس کا وظیفہ لگایا اور اسے شاہی اسکول میں داخل کرا دیا، بیسیلیس ذہین انسان تھا، وہ چند ماہ میں شاہی آداب سیکھ گیا، مائیکل سوم بادشاہ بنا تو اس نے اسے اپنا منہ بولا بھائی ڈکلیئر کر دیا اور اسے اپنے تخت کے ساتھ بٹھانے لگا۔
بیسیلیس آہستہ آہستہ شاہی اختیارات استعمال کرنے لگا، بادشاہ اس پر اندھا اعتماد کرتا تھا، وہ اسے اختیارات دیتا چلا گیا، شاہی خاندان اور پرانے درباری بادشاہ کو سمجھاتے رہے لیکن وہ اپنے دوست کے خلاف کوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں تھا، یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ بیسیلیس سرکاری خزانے پر بھی قابض ہو گیا۔
وہ پوری سلطنت کے عمائدین کی تنخواہیں اور مراعات بھی طے کرتا تھا اور سرکاری اہلکاروں کے تقرر اور تبادلے کا فیصلہ بھی، بادشاہ نے اس کی شادی بھی شاہی خاندان میں کر دی یوں وہ کسان زادہ جس کا بچپن گھوڑوں کی لید صاف کرتے گزرا تھا وہ شاہی خاندان کا حصہ بن گیا، بیسیلیس اب تقریباً بادشاہ تھا بس اس کے سامنے ایک رکاوٹ تھی اور اس رکاوٹ کا نام بارڈس (Bardas) تھا، بارڈس مائیکل سوم کا سپہ سالار تھا۔
وہ ایک بہادر، وفادار اور سمجھ دار کمانڈر تھا، وہ وقتاً فوقتاً اشارے کنایوں میں بادشاہ کو سمجھانے کی کوشش بھی کرتا تھا لیکن انسان کو جب اعتماد اندھا کرتا ہے تو پھر اسے دیوار پر لکھا ہوا بھی نظر نہیں آتا، مائیکل کی مت بھی ماری گئی تھی، وہ بیسیلیس کے خلاف ہر بات مسترد کر دیتا تھا، بادشاہ کے منہ بولے بھائی نے آخر میں بارڈس کے خلاف سازشیں شروع کر دیں۔
وہ کمانڈر انچیف کے خلاف بادشاہ کے کان بھرنے لگا یہاں تک کہ مائیکل سوم کو یقین آگیا سپہ سالار اسے قتل کر کے اقتدار پر قابض ہونا چاہتا ہے، بیسیلیس نے بادشاہ کو اعتماد میں لیا اور ایک دن بارڈس کو قتل کرا دیا، بادشاہ نے فوج بھی اپنے منہ بولے بھائی کے حوالے کر دی، وہ اب سپہ سالار بھی تھا جس کے بعد پوری بازنطینی سلطنت اس کے کنٹرول میں آ گئی۔
نام مائیکل سوم کا چلتا تھا لیکن احکامات بیسیلیس جاری کرتا تھا، بادشاہ نے ایک دن خزانچی سے رقم طلب کی، بیسیلیس نے انکار کر دیا، یہ انکار بادشاہ کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونا چاہیے تھا لیکن وہ انکار کو دوست کی ادا سمجھ کر خاموش ہو گیا مگر پھر ایک رات بادشاہ کی آنکھیں واقعی کھل گئیں۔
وہ شراب کے نشے میں دھت تھا، بیسیلیس گارڈز کے ساتھ شاہی خواب گاہ میں آیا، بادشاہ کو گھسیٹ کر محل کے فرش پر پھینکا اور تلوار سونت کر سر پر کھڑا ہو گیا، بادشاہ پھٹی ہوئی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھنے لگا، وہ بار بار سوچتا تھا ایک ایسا انسان جسے وہ اصطبل سے اٹھا کر تخت تک لایا تھا وہ یہ نمک حرامی کیسے کر سکتا ہے لیکن بیسیلیس نمک حرام ثابت ہو چکا تھا، تاریخ بتاتی ہے بیسیلیس نے اس رات مائیکل سوم کا سر کاٹا، نیزے پر پرویا اور اگلے دن وہ نیزہ اٹھا کر شہر کی گلیوں میں گھوڑا دوڑاتا رہا، بیسیلیس اس کے بعد بازنطینی سلطنت کا بادشاہ بن گیا جب کہ مائیکل سوم اپنے دوست کا شکار ہو کر تاریخ کی ٹریجڈی بن گیا۔
ہم اب دوسرے بادشاہ کی طرف آتے ہیں، دوسرے بادشاہ کا نام چاؤ کے یونگ ین (Chao K"Uang Yin) تھا، وہ تاریخ میں شہنشاہ سنگ (Sung) کے نام سے مشہور ہوا، چین میں اس زمانے میں عجیب روایت تھی، فوج مضبوط ترین ادارہ ہوتا تھا، جوان فوج میں بھرتی ہوتا تھا، جرات اور بہادری کے ساتھ لڑتا لڑتا جنرل بن جاتا تھا، طاقتور جرنیل کمزور جرنیلوں کو قتل کرا دیتے تھے، فوج کی مختلف یونٹیں اور رجمنٹس اپنے وفاداروں میں تقسیم کرتے تھے اور آخر میں بادشاہ کو قتل کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیتے تھے، شہنشاہ سنگ نے بھی یہی کیا تھا، وہ فوج کا سپہ سالار تھا اور وہ بادشاہ کو قتل کر کے بادشاہ بن گیا تھا، وہ اچھی طرح جانتا تھا وہ چند برسوں کا بادشاہ ہے۔
کوئی نہ کوئی جنرل طاقت پکڑے گا، وہ قتل ہو گا اور اس کے تخت پر کوئی دوسرا قابض ہو جائے گا، سنگ اس انجام سے بچنا چاہتا تھا چنانچہ اس نے دو حیران کن کام کیے، اس نے ایک رات اپنے تمام جرنیلوں کو کھانے پر بلایا، انھیں خوب کھلایا پلایا اور وہ جب بری طرح مدہوش ہو گئے تو اس نے اپنے گارڈز کے ذریعے جرنیلوں کے محافظوں کو محل سے نکال دیا، جرنیلوں کو اپنی موت سامنے نظر آ رہی تھی، شہنشاہ سنگ نے اس کے بعد ان سے کہا، سلطنت میں دو سو سال سے خونی کھیل کھیلا جا رہا ہے۔
میں آج آپ لوگوں کو چھوڑدیتا ہوں تو کل آپ میں کوئی اٹھے گا اور مجھے اور آپ سب کو مار دے گا اور اس تخت پر قابض ہو جائے گا، پھر کوئی اسے مار دے گا اور اس کی جگہ تخت پر بیٹھ جائے گا، میں یہ کھیل ختم کرنا چاہتا ہوں، آپ میرا ساتھ دیں، جرنیلوں نے حیرت سے پوچھا، کیسے؟
بادشاہ نے کہا، میں تم سب کو بادشاہ بنادیتا ہوں، جرنیلوں نے پوچھا، کیسے؟ وہ بولا، تم سب لوگ ریٹائرمنٹ لے لو، میں تمہیں محل، جاگیریں اور کنیزیں دے دیتا ہوں، تم بادشاہوں کی طرح عیش و عشرت کے ساتھ زندگی گزارو اور طبعی موت مرو، جرنیلوں کو یہ پیشکش موت سے بہتر لگی چنانچہ انھوں نے ہاں کر دی، شہنشاہ سنگ نے ان سے استعفے لیے، انھیں جاگیریں دیں اور وہ عیش کے ساتھ زندگی گزارنے لگے، سنگ اس کے بعد اپنے دشمنوں کی طرف متوجہ ہوا، چین اس وقت تین حصوں میں تقسیم تھا، سنگ نے سب سے پہلے جنوبی حصے کے کنگ لیو کو فتح کیا، گرفتار کیا۔
محل میں اپنے برابر بٹھایا اور اسے اس کی سلطنت واپس کر کے اسے اپنا دوست بنا لیا، شمالی چین پر چین زو (Chien Suo) کی حکومت تھی، وہ سنگ کے خلاف سازشیں کرتا رہتا تھا، بادشاہ سنگ نے اسے ملاقات کی دعوت دی۔
میزبانی اور محبت کی انتہا کر دی اور آخر میں رخصت کرتے ہوئے ایک صندوق اس کے حوالے کر دیا اور کہا "تم اسے آدھے راستے میں کھولو گے" چین زو نے آدھے راستے میں صندوق کھولا تو وہ ان خطوط سے بھرا ہوا تھا جو اس نے شاہی غلاموں کو بادشاہ کے قتل پر اکسانے کے لیے لکھے تھے، بادشاہ کے ظرف نے اسے اپنا گرویدہ بنا لیا چنانچہ وہ بھی اس کا جگری دوست بن گیا، سنگ نے "دشمن کو دوست بنا لو" کی اس تکنیک کے ذریعے چین میں ہن سلطنت کی بنیاد رکھی اور وہ اور اس کا خاندان سیکڑوں سال حکومت کرتا رہا۔
ہم اب دونوں بادشاہوں کی کہانیوں کے نتیجے کی طرف آتے ہیں، انسان نے دس ہزار سال کی ریکارڈڈہسٹری سے طاقت کے 48 اصول وضع کیے ہیں، سلطنتیں خواہ حضرت داؤد ؑ یا حضرت سلیمان ؑ کی ہوں یا پھر آج کا سنگا پور اور ملائیشیا ہو یہ ان 48 میں سے کسی ایک، دو یا پانچ چھ اصولوں پر قائم رہتی ہیں، یہ اس دائرے سے باہر نہیں جاتیں اور طاقت کے ان 48 میں سے دوسرا اصول ہے "اپنے دوستوں کو زیادہ اختیارات نہ دو، اپنے دشمنوں کو استعمال کرنے کا گُر سیکھو"۔
تاریخ میں آج تک جس شخص نے بھی مائیکل سوم کی طرح اپنے دوستوں کو دوستی کی بنیاد پر اختیارات دیے وہ خود بھی ڈوب گیا اور اس کی سلطنت، جاگیر اور کمپنی بھی اور جس نے شہنشاہ سنگ کی طرح اپنے دشمنوں کو دوست بنانے کا گُر سیکھ لیا وہ اور اس کی سلطنت دونوں بچ گئے۔
انسان کی فطرت ہے اس کے دوست صرف اس وقت تک اس سے مخلص اور وفادار رہتے ہیں جب تک وہ صرف دوست ہوتے ہیں، ہم جس دن انھیں اپنا پارٹنر، اپنا وزیر یا اپنا مشیر بنا دیتے ہیں وہ اس دن ہمارے شریک بن جاتے ہیں اور شریک اس وقت تک شریک رہتے ہیں جب تک وہ اپنے شریک کا سرنیزے پر نہ پرو لیں اور عمران خان یہ غلطی کر رہے ہیں۔
یہ اپنے ناتجربہ کار دوستوں میں عہدے تقسیم کرتے جا رہے ہیں، یہ پراپرٹی کے بروکروں کو وزیر بنا رہے ہیں اور استعمال شدہ گاڑیوں کے امپورٹرز کو گورنر لگا رہے ہیں چنانچہ مجھے محسوس ہوتا ہے عمران خان کا اصل چیلنج ان کے دشمن نواز شریف اور آصف علی زرداری نہیں ہیں، یہ جب بھی مار کھائیں گے یہ بیسیلیس جیسے دوستوں سے کھائیں گے، ان کے دوست ان کے مینڈیٹ اور سیاست دونوں کا جنازہ نکال دیں گے لہٰذا یہ اگر آج اپنے دوستوں کو صرف دوستی کے اسٹیٹس پر لے آئیں اور اپنے دشمنوں کے ساتھ ڈائیلاگ، جائز نرمی اور ہمدردی کا رویہ اختیار کریں تو یہ ملک اور خان دونوں کے لیے بہتر ہوگا۔
یہ کنگ سنگ بنیں یہ مائیکل سوم بننے کی غلطی نہ کریں کیونکہ تاریخ اور اس کے نتائج ہمیشہ یکساں رہتے ہیں، کوفہ اگر امام حسینؓ کا نہیں ہوتا تو پھریہ کسی کا نہیں ہوتا، تاریخ جب بھی دو میں دو جمع کرتی ہے نتیجہ ہمیشہ چارنکلتا ہے، آپ بھی دو میں دو جمع کر کے نتیجہ چھ نکالنے کی کوشش نہ کریں، آپ خسارے میں رہیں گے۔