ڈاکٹر حسن انصاری (حسن فرہنگ) مغرب میں مقیم، معاصر ایرانی محقق ہیں جنھوں نے تاریخ و کلام اسلامی پر خاصا کام کیا ہے۔ انھوں نے متعدد مستشرقین کے ساتھ ملکر شیعی اور معتزلی مخطوطوں کی تصحیح کا کام بھی کیا ہے۔ بعض ویب سائٹس جیسے کاتبان ڈاٹ کام پر آپکی تحریریں چھپتی رہتی ہیں۔
انصاری صاحب نے اپنی یاداشتوں (نوٹس)، حواشی اور مقالہ جات کو موضوعاتی ترتیب سے کتابی شکل میں شائع کیا ہے، یوں اب تک فارسی میں آپکی متعدد کتب شائع ہو چکی ہیں۔ آپکی کتب کو پڑھنا نسبتاً آسان لگتا ہے کہ بعض مطالب مختصر تو بعض قدرے طولانی ہوتے ہیں، ہاں ان میں مجموعی نظم اور ترتیب پائی جاتی ہے۔
حال ہی میں آپکی ایک کتاب "از میراث غُلّات" خریدی ہے، تقریباً چار سو صفحات پر مشتمل اس کتاب کو انتشارات علمی، تہران نے شائع کیا ہے۔ اس میں ایک مقدمہ اور چار فصلیں ہیں۔
محقق حسن انصاری کا کہنا ہے کہ غلو اور تشیع کی بحث اب بھی تازہ ہے، شیعی تاریخ پر کام کرنے والے محققین میں ایسی ابحاث اب بھی موجود ہیں کہ آیا تشیع باطنی اور تاویلی فرقہ ہے، جس کی بنیاد امامت کے باب میں غلو پر ہے، بعد ازاں بعض دیگر فرقوں (جیسے معتزلہ) سے تعامل کے سبب سے یہ بھی باقاعدہ ایک فقہی اور کلامی مکتب میں بدلا، یوں غلو کا عنصر دَب گیا یا اس کے برعکس کہ تشیع بنیادی طور پر ایک معتدل فرقہ، باقاعدہ ایک فقہی اور کلامی مکتب ہے، جس میں ضمنی طور پر غلو پر مبنی نظریے بھی سامنے آئے لیکن ایسے نظریات کو عمومی قبولیت حاصل نہیں ہوئی اور آج معتدل انداز میں تشیع موجود ہے؟
ڈاکٹر حسن انصاری کا خیال ہے کہ ایسے سوالات پر بحث سے پہلے ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ غلو کیا ہے؟ اور ابتدائی صدیوں میں کونسی غالی تحریکیں تھیں اور ان کے غلو کرنے کے اسباب کیا تھے؟ تشیع میں کیوں بعض افراد یا گروہوں کو غالی کہا گیا ہے؟ غلو اور تفویض میں کیا فرق ہے؟
ان سوالات کے جوابات کے سلسلے میں غالی افراد اور غلو کی پرچارک تحریکوں کے نظریات کو سمجھنا ضروری ہے۔ غالیوں کی فکر کی نمائندہ بعض کتب، بعض دریافت ہونے والے مخطوطوں اور غالی قرار دیے گئے بعض راویوں کی روایات کا اس کتاب میں جائزہ لیتے ہوئے مذکورہ بالا بعض سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
مقدمے میں مؤلف نے غلو اور تشیع کے حوالے سے مختصر اور مفید نکات لائے ہیں۔
پہلی فصل میں غلو اور غالیوں کی بابت تحقیق کے سلسلے میں نظری ڈھانچے (خُطے) پر بحث کی گئی ہے۔ اس میں مختلف فرقوں کے تعارف پر لکھی گئی کتب کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔
دوسری فصل میں بعض غالی گروہوں کی دستیاب کتب کو زیر بحث لایا گیا ہے جیسے شلمغانی کی کتاب الاوصیاء، اہلیلجہ و توحید از مفضل بن عمر، ابو خالد کابلی کی بعض روایات، کتاب طب الائمہ از فرزندانِ بسطام، ابراہیم بن اسحاق نہاوندی جی کتاب الغیبۃ، کتاب عیون المعجزات، بحار الانوار کی بعض روایات جن کی نسبت سے کہا جاتا ہے کہ وہ غالیانہ مضامین کی حامل ہیں اور ایسی بعض دیگر کتب۔
تیسری فصل میں نُصیریوں اور غالیوں کو ایک قرار دیتے ہوئے، نُصیریہ کی بعض کتب اور افراد کو زیر بحث لایا گیا ہے۔
چوتھی اور آخری فصل میں عصر حاضر میں غلو کی بابت ہوئے تحقیقی کاموں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ مؤلف کا کہنا ہے کہ اس بابت افراط اور تفریط کے رویے موجود ہیں، اس موضوع پر سنجیدہ کام کی ضرورت ہے۔ آخر میں مؤلف نے چوتھی صدی ہجری کے مؤرخ، مسعودی (م: 346ھ) کی کتاب مروج الذہب کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ مسعودی نے شیعہ امامیہ کو شیعہ غالی گروہوں سے الگ بطور "مقصر" اور غالیوں کے مقابلے میں ذکر کیا ہے۔ مؤلف کا کہنا ہے کہ متعدد فرقہ شناس علما نے شیعہ امامیہ کو شیعہ غالی فرقوں سے الگ شمار کیا ہے۔
مؤلف کی باقی کتب کی طرح یہ بھی اپنے موضوع پر دلچسپ اور لائق مطالعہ کتاب ہے۔