2013ء کو ابھی زیادہ دن نہیں گزرے، میری کراچی میں سندھ کے اس وقت کے وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ سے چھوٹی سی پبلک میٹنگ ہوئی، شاہ صاحب موج میں تھے، وہ اپنی سیاست کے ابتدائی دنوں کی باتیں دہرا رہے تھے، کسی صاحب نے عرض کیا، کراچی میں کچرے کے ڈھیر لگ رہے ہیں، لوگ سر پر ہاتھ رکھ کر دہائیاں دے رہے ہیں، آپ یہ گند صاف کیوں نہیں کرتے، وہ ہنس کر بولے "سائیں کر رہے ہیں، آہستہ آہستہ ہو جائے گا"۔
صاحب نے عرض کیا "شاہ صاحب آہستہ آہستہ تو بہت دیر ہو جائے گی" وہ ہنس کر بولے "میں نے سیاست میں دو سبق سیکھے ہیں،کچھ بھی ہو جائے، پارٹی نہ چھوڑیں، جس نے بھی چھوڑ دی وہ کٹی پتنگ بن گیا اور دوسرا ،جو بھی کام کریں آہستہ آہستہ کریں" میں خاموشی سے ان کی طرف دیکھتا رہا، وہ بولے "کراچی کا کچرہ نہیں اٹھ رہا، لوگ مجھے گالیاں دے رہے ہیں۔
میں آج کچرہ اٹھا دوں یہی لوگ کہیں گے قائم علی شاہ نے ہمارا قیمتی کچرہ بیچ دیا، میرے خلاف سوموٹو ہو جائے گا اور مجھے کچرہ اٹھانے کے جرم میں ہتھکڑی لگ جائے گی چنانچہ آپ فیصلہ کرو ہتھکڑی اچھی ہے یا پھر گالی" وہ صاحب خاموش ہو گئے۔
سچی بات ہے مجھے ان کی دلیل اچھی نہیں لگی تھی، میں سمجھتا تھا عوام اپنے مسئلے حل کرنے کے لیے سیاستدانوں کو منتخب کرتے ہیں لیکن میں آج قائم علی شاہ کے وزڈم کی داد دینے پر مجبور ہو گیا ہوں، وہ قائم علی شاہ جس نے دس سال میں کچھ نہیں کیا، جس کے دور میں کراچی دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شامل ہو گیا اور جس کے زمانے میں سندھ کی سڑکیں شام کے بعد ڈاکوؤں کی آماج گاہ بن گئیں۔
وہ اس وقت مزے سے گھر میں بیٹھا ہے جب کہ وہ میاں شہباز شریف جس نے دس برسوں میں پنجاب کا حلیہ بدل دیا، جس نے لاہور کو لاہور بنا دیا وہ اس وقت نیب کی حراست میں اپنے گناہوں کی سزا بھگت رہا ہے، وہ جو سب کچھ کھا گئے وہ گھر بیٹھے ہیں اور جو مانگ تانگ کر عوام پر لگاتے رہے وہ حساب دے رہے ہیں،آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے اگر شہباز شریف بھی قائم علی شاہ ہوتا تو کیا اس کے خلاف کوئی کیس بنتا؟ کیا یہ بھی اس وقت آزاد نہ پھر رہا ہوتا؟۔
ہم ایک دلچسپ قوم ہیں، آپ 2008ء سے 2013ء کے دوران پیپلز پارٹی کی کارکردگی دیکھ لیجیے، ان پانچ برسوں میں راجہ رینٹل ڈویلپ ہوئے، صاحبزادوں نے حج بیچ دیے، این ایل سی اسکینڈل میں چارارب روپے غائب ہو گئے، این آئی سی ایل کا پانچ ارب روپے کا اسکینڈل آ گیا، ای او بی آئی میں 42 ارب روپے غائب ہو گئے، اوگرا میں توقیرصادق 82 ارب روپے کھا گیااور وزیراعظم کے صاحبزادے نے نو ہزار کلو گرام ایفی ڈرین بیچ دی، ملک بھر میں اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی تھی، روزانہ بم دھماکے ہوتے تھے، کراچی میں روز لاشیں گرتی تھیں اور فارن ایکسچینج ریزروز 7۔ 65 ارب ڈالر پر آگئے تھے لیکن وہ لوگ آج گھروں میں بیٹھے ہیں۔
وہ عدالتوں میں جا کر اگلی تاریخ لے آتے ہیں مگر ان کے مقابلے میں جنہوں نے کام کیا ان کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر کیس چل رہے ہیں، کوئٹہ میں سیکریٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کے گھر سے 65 کروڑ روپے برآمد ہوئے تھے اور وزیراعلیٰ ثناء اللہ زہری پر الزام تھا وہ روزانہ دس بیس کروڑ روپے اڑا جاتے ہیں،آج وہ سیکریٹری خزانہ کہاں ہیں اور ثناء اللہ زہری کے خلاف اب انکوائری شروع ہوئی۔
آپ بیورو کریٹس کو بھی لے لیجیے،وہ تمام افسر جو پوری زندگی فائلیں آگے بھجوانے، کام روکنے اور ترقیاتی کام بند کرانے کے سوا کچھ نہ کر سکے وہ آج کرسیوں پر ہیں یا پھر ریٹائرمنٹ کے بعد سرکاری پلاٹوں پر گھر بناکر پنشن انجوائے کر رہے ہیں لیکن جس جس افسر نے کام کرنے کی غلطی کی، جس سے کچھ نہ کچھ کرنے کا گناہ سرزد ہو گیا وہ اس وقت فائلیں اٹھا کر عدالتوں کے دھکے کھا رہا ہے، آپ یہ بھی چھوڑ دیجیے، ملک میں اس وقت 6 ہزار جعلی اور غیرقانونی ہاؤسنگ سوسائٹیاں ہیں، یہ سوسائٹیاں عوام کے کھربوں روپے کھا گئیں، پارلیمنٹیرینز کے لیے 2005ء میں پارلیمنٹیرینز انکلیو سوسائٹی بنی، سی ڈی اے نے اس کی باقاعدہ منظوری دی۔
آج تک اس کی ایک سڑک نہیں بنی، سینیٹ کی ہاؤسنگ سوسائٹی 1996ء میں بنی، آج تک کام شروع نہیں ہوا، سپریم کورٹ کی اپنی ہاؤسنگ سوسائٹی (سپریم کورٹ ایمپلائز کوآپریٹو ہاوسنگ سوسائٹی)1984ء میں شروع ہوئی، آج تک مکمل نہیں ہوئی۔
وزارت داخلہ سمیت ملک کی تمام وفاقی وزارتوں کی بھی ہاؤسنگ سوسائٹیاں ہیں، ان میں سے بھی کوئی مکمل نہیں ہوئی اور پولیس، رینجرز اور ائیرفورسز کی ہاؤسنگ اسکیمیں بھی پھنسی ہوئی ہیں لیکن ملک کا کوئی ادارہ، کوئی محکمہ ان سے نہیں پوچھ رہا، کوئی ان کا احتساب نہیں کر رہا اور احتساب اگر ہو رہاہے تو اس ملک ریاض کا ہو رہا ہے جو دو دو سال میں پورا پورا شہر آباد کر دیتا ہے اور ریٹائرڈ جنرلز، ایڈمرلز اور ائیر چیف ہوں یا پھر سفیر، تاجر، صنعت کار اور بیورو کریٹس ہوں وہ اپنے سرکاری پلاٹس بیچ کر اس کی ہاؤسنگ اسکیموں میں رہتے ہیں، اوور سیز پاکستانی سب سے زیادہ سرمایہ کاری ملک ریاض کی اسکیموں میں کرتے ہیں، یہ بینکوں پر اتنا اعتبار نہیں کرتے جتنا اعتبار یہ اس کے لوگو پر کرتے ہیں چنانچہ یہ کرنے کی سزا بھگت رہا ہے۔
آپ کمال دیکھئے ہم نیا پاکستان گھر اسکیم کے لیے باہر سے 20 ارب ڈالر کی توقعات لے کر بیٹھے ہیں لیکن تین ہزار ارب روپے مالیت کی کمپنی تباہ کر رہے ہیں، چیف جسٹس دیامر بھاشا ڈیم کے لیے پوری دنیا سے امداد مانگ رہے ہیں، میری درخواست ہے یہ ڈوبی ہوئی چھ ہزار ہاؤسنگ اسکیموں کے مالکان کو بلوائیں اور یہ ان کی جائیداد بیچ کر ان سے ایک ایک ارب روپے وصول کر لیں، ڈیم کے پیسے پورے ہو جائیں گے اور آپ ٹیکس دینے والوں کو بھی لے لیجیے، ملک میں جو شخص ٹیکس دے رہا ہے صرف اس کا آڈٹ ہوتا ہے، حکومت اسی پر ٹیکس بڑھاتی جاتی ہے اور جو حکومت کی رٹ کو نہیں مانتے وہ آج بھی موج کر رہے ہیں، کیا یہ ملک اس طرح چل سکے گا۔
میاں شہباز شریف سے اس وقت 56 پرائیویٹ پبلک کمپنیوں کے بارے میں پوچھا جا رہا ہے، یہ اگر غلط ہیں تو پھر ضرور پوچھا جانا چاہیے لیکن حقیقت تو یہ ہے پرائیویٹ پبلک کمپنیوں کے موجد میاں شہباز شریف نہیں ہیں، پاکستان میں یہ تصور جہانگیر ترین نے متعارف کرایا تھا، یہ کمپنیاں سیکشن 42 کہلاتی ہیں، جہانگیر ترین 1997ء میں میاں شہباز شریف کے ایڈوائزر تھے۔
انھوں نے شہباز شریف کو قائل کر کے سیکشن 42 کی پہلی کمپنی پنجاب رورل سپورٹ پروگرام شروع کی، یہ اس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین بھی تھے، پھر ورلڈ بینک نے2000ء میں پاکستان پاورٹی ایلی ویشن فنڈ (PPAF) کے نام سے کمپنی بنائی اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بھائی قاضی عظمت عیسیٰ کو اس کا چیف ایگزیکٹو بنایا۔
جہانگیر ترین 2004ء میں انڈسٹریز کے وزیر بنے تو انھوں نے اس دور میں درجن سے زیادہ کمپنیاں بنائیں، پاکستان ماربل کمپنی ہو، پاکستان جمز اینڈ جیولری کمپنی ہو یا پھر پاکستان فرنیچر کمپنی، پاکستان ہیلتھ سیکٹر مینجمنٹ کمپنی، اسمال آرمز کمپنی، ایک ہنر ایک نگر کمپنی، پاکستان سکل ڈویلپمنٹ کمپنی، پاکستان ہنٹنگ اینڈ اسپورٹس آرم کمپنی، نیشنل انڈسٹریل پارکس کمپنی، کھاڈی کرافٹ ڈویلپمنٹ کمپنی، سندر انڈسٹریل کمپنی اور پنجاب ایگری مارکیٹنگ کمپنی (میاں شہباز شریف نے اس کا نام تبدیل کر کے پنجاب ایگری اینڈ میٹ کمپنی رکھ دیا) ہو یہ تمام کمپنیاں جہانگیر ترین نے بنائی تھیں، یہ کمپنیاں آج تک موجود ہیں۔
کیا کسی نے ان کمپنیوں کے سربراہوں کو بلا کر پوچھا آپ نے14 برسوں میں کون سے تارے توڑے، آپ نے کیا کمال کیا لیکن وہ قائداعظم تھرمل کمپنی جس نے کم ترین مدت میں 1200 میگاواٹ کا پلانٹ لگادیا، ہم نے اس کی فائل کھول لی۔
اس کا سی ای او مقدمے بھگت رہا ہے، ملک میں اس وقت پرائیویٹ کمپنیاں بھی بجلی بنانے کے کارخانے لگا رہی ہیں، آپ ان کے سی ای اوز کی تنخواہوں اور پلانٹس کی مالیت منگوا لیں یہ دونوں قائداعظم تھرمل کمپنی سے زیادہ نکلیں گی لیکن قائداعظم تھرمل کمپنی مجرم ہے اور باقی سب پوتر ہیں، آپ کسی دن پنجاب کی 56 کمپنیوں کا ڈیٹا منگوا کر دیکھیں، آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے ان 56 کمپنیوں میں سے جس نے دس سال میں کچھ نہیں کیا، جو صرف کاغذ پورے کرتی رہی، اس کے خلاف کوئی کیس نہیں۔
کسی نے اس کے سی ای او کو بلا کر نہیں پوچھا"آپ نے کیا کیا" لیکن جس نے کام مکمل کر لیا، جس نے ڈیلیور کر دیاوہ عبرت کی نشانی بن گیا،کیوں؟آپ یہ بھی تحقیق کر لیںپرائیویٹ پبلک کمپنیوں کا تصور کس نے دیا تھا، یہ تصور مارگریٹ تھیچر نے دیا، اس نے اپنے دفتر میں ریفارمز اینڈ پرفارمنس کے نام سے یونٹ بنایا، مارکس اینڈ سپنسر کے سی ای او کو اس کا سربراہ بنایا اور برطانیہ میںپرائیویٹ پبلک کمپنیوں نے کام شروع کر دیا، ان کمپنیوں نے برطانیہ کا مقدر بدل دیا۔
نیوزی لینڈ نے بعد ازاں برطانیہ کی تقلید کی اور یہ اس وقت 47 لاکھ آبادی کے ساتھ 70 بلین ڈالرکی مصنوعات ایکسپورٹ کر رہا ہے جب کہ ہم 20 بلین ڈالر پر کھڑے ہیں، دنیا نے اس تصور سے فائدہ اٹھایا لیکن ہم اس تصور کو جوتے مار رہے ہیں اور آپ کسی دن یہ بھی دیکھ لیجیے سندھ اور کے پی کے حکومتوں نے دس سال میں میاں شہباز شریف سے متاثر ہو کر اپنے صوبوں میں کتنی کمپنیاں بنائیں؟ اور آپ پھر ان کمپنیوں کی کارکردگی کا جائزہ بھی لے لیں، آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی۔
ہم اگر اس ملک کو واقعی چلانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ریزن ایبل ہونا پڑے گا، ہمیں کام کرنے والوں کو عزت دینا ہو گی ورنہ دوسری صورت میں اس ملک میں صرف قائم علی شاہ فلاسفی بچے گی، کچھ نہ کریں اور عزت کے ساتھ زندگی گزاریںاور اگر غلطی سے کچھ کر دیا تو پھر جوتے کھانے کے لیے تیار ہو جائیں، آج شہباز شریف آشیانہ کی سزا بھگت رہے ہیں اور کل عمران خان کا نام نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم اتھارٹی اسکینڈل میں ای سی ایل پر ہو گا، یہ بھی اندر اور وہ بھی اندر مگر ثبوت ان کے خلاف بھی نہیں اور ثبوت عمران خان کے خلاف بھی نہیں ہو گا۔