کنول فیض
غلامی کے نئے نام اور بے انصافی کی اصل وجہ معاشی مسئلہ نہیں بلکہ عالمی تاریخ و سیاست کا یہ طے شدہ اصول ہے کہ یہ دنیا طاقتور اور زور آوروں کی ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے مسلم اسٹوڈنٹس فیڈ ریشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ طلباء سیاست کا مطالبہ ضرور کریں لیکن وہ سیاست کو اپنی تعلیم کا حصہ نہ بتائیں مگر یہ بد قسمتی سے ہمارے وطن عزیز نوجوانوں کو ملکی و قومی مفادات کے بجائے سیاسی مفادات کے حصول کے لئے استعمال کیا جارہا ہے جبکہ ہندوستان آزاد ہو گیا تھا پاکستان عالم وجود میں آتے ہی لیکن انسان دونوں ممالک میں غلام تھا (1) تعصب کا غلام (2) مذہبی جنون کا غلام (3) حیوانیت و بربریت کا غلام۔
کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پر رضامند
تاویل مسائل کو بناتے ہیں بہانہ
غلام کی حیثیت قبل از اسلام بھی جائیداد سے زیادہ نہ تھی قدرت نے انسان کو ایک جیسا پیدا کیا ہے لیکن زندگی کے حادثات کسی کو آقا اور کسی کو غلام بنا دیتے ہیں اسلام کی روح سے ہر انسان کی حیثیت مساوی ہے معاشرے پر کنٹرول زبان سے نہیں بلکہ قانون سے کیا جاتا ہے۔ ہمیشہ انسان ذہنی غلامی سے بچے اگر دیکھا جائے تو جسمانی غلامی اتنی نقصان دہ اور معیوب نہیں جتنی کے ذہنی غلامی ہے آج بھی ہمارا خوف ہمیں غلامی پر رضا مند کر تا ہے۔ غلامی کی بد ترین شکل وہ ہے جب غلاموں کو اپنی زنجیروں سے پیار ہو جائے اسلامی علم کی وسیع کرنے کے لیے انسیویں صدی کی دنیا خاص طور پر نئی نسل کے ساتھ اسلامی سیاست پر حملوں کے نتیجے میں سامنے آئی اسکے بعد یہ کوشش 1924 میں خلافت عثمانیہ کے خاتمے اور سیکولر، لبرل ازم کے فروغ کے ساتھ آیا۔ اسی طرح ذہن سازی اور اس پر کنٹرول کیا جارہا ہے اور اپنی سیاست اور طاقت استعمال ہو رہی ہے۔
جب دنیا دو مختلف کیمپوں، سرمایہ داری اور شراکت داری میں بٹی ہوئی ہے کیونکہ ان میں سے ہر ایک دنیا پر اپنا تسلط جمانا چاہتا ہے۔ دونوں کا نقط نظر یکساں ہے اور دونوں یکساں طور پر اقوام عالم کو اپنا غلام بنانا چاہتے ہیں دوسرے انسانوں کی حیثیت ان کی نگاہوں میں بے زبان حیوان سے زیادہ نہیں یا پھر وہ محض آلات کار ہیں۔ جدید مغرب نے سائنس کے میدان میں بے پناہ کامیابیاں حاصل کی ہیں مگر انسانیت کے میدان میں یہ انتہائی پسماندہ اور وحشی ہے۔
غلامی کے مسئلے پرگفتگو کرتے وقت ہمیں کبھی فراموش نہیں کرنی چاہئیے کہ آزادی کہیں سے خیرات کے طور پر نہیں ملتی بلکہ اسکو اپنے دست و بازو کی مدد سے حاصل کیا جاتا ہے چناچہ کوئی قانون بنا نے سے سے صدیوں کے غلام خود بخود آزاد نہیں ہو جاتے امریکی قوم نے اس سلسلے میں جوتجربہ کیا ہے وہ اس حقیقت کا آئنہ دار ہے لیکن صدیوں کی غلامی سے آزادی فی الواقع وہ آزاد تھے لیکن ذہنی اور روحانی طور پر وہ آزادی کے لئے بلکل تیار نہیں تھے چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ غلام کی نفسیاتی تربیت اور مزاج آزاد انسان کی ذہنی اور عملی کیفیت سے بلکل مختلف ہوتا ہے وہ آزاد انسان کی ذمہ داریوں سے اور ان سے صلاحیت کھو بیٹھتے ہیں زہنی غلامی ان کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے یہ قوانین بیکار اور فرسودہ ہے اور موجودہ دور میں اسکا نفاذ نا ممکن ہے۔ اگر ان لوگوں کی ذہنیت غلامانہ نہ ہوتی تو وہ یوں بے جان مشینیں بن کر نہ رہ جاتے یہ لوگ بظاہر آزاد دکھائی دیتے ہیں مگر در حقیقت ان کی حالت غلاموں سے بد تر کچھ نہیں ہوتی ہے۔
جدید دور میں مختلف ادوار میں مختلف حکومتوں نے غلامی کی پشت پناہی کی۔ ان کی طرز عمل کی وجہ صرف ہوس ملک گیری اور حرص اقتدار تھا جس کی وجہ سے ہر قوم / طبقہ دوسری قوموں کی غلام بنا کر رکھنا چاہتا تھا اسکے علاوہ غلامی کی ایک اور وجہ غربت اور افلاس بھی تھی الغرض یورپ میں غلاموں کی آزادی کی تحریک خالص معاشی اسباب کی پیداوار تھی یہی غلامی کا حقیقی مفہوم ہے لہذا خوشنما نعروں سے دھوکا نہ کھائیں 1۔ آزادی 2۔ اخوات 3۔ مساوات بلکہ ان کی اصلیت پہچاننے کی کوشش کریں خصوصاً جب کہ نسل انسانی کو ان کی تلخیوں کا ایک دو دفعہ نہیں بلکہ بار بار تجربہ بھی ہو چکا ہوا۔