1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. محمد کاشان یعقوب/
  4. دور حاضر کے تلخ حقائق

دور حاضر کے تلخ حقائق

آج کل کے دور میں ایک رجحان پایا جاتا ہے کہ عورت یا لڑکی نوکری نہیں کر سکتی۔ گھر سے باہر نہیں نکل سکتی۔ گھر کی چار دیواری کو ایک لڑکی کی پاؤں کی بیڑی بنا دیا جاتا ہے۔

کیا اس عورت کو بھی اجازت نہیں جس کا شوہر کماتا نہ ہو۔ یا کماتا ہو لیکن ان کا گزر بسر بمشکل ہو رہا ہو۔ ۔ یقیناً اب آپ کا جواب ہوگا کہ اجازت ہے۔ ۔

ہم بحیثیت ایک قوم کے یہ تو کہتے ہیں کہ ملک و ملت کی ترقی میں خواتین کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے لیکن پھر تنگ نظری سے دیکھتے ہیں اور انہیں گھروں سے ہی باہر نہیں نکلنے دیا جاتا۔

قیام پاکستان سے لے کر آج تک خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں۔ دہلی کی سلطنت پر راج کرنے والی رضیہ سلطانہ ایک عورت تھی۔ فاطمہ جناح اس ملک کے بانی قائد اعظم کی بہن کی بھی ملک و ملت کے لیے گراں قدر خدمات ہیں۔ مریم مختیار اس ملک کی شہید پائلٹ آفیسر بھی انہی خواتین میں سے ایک ہیں۔

تو پھر ہم پابندیاں کیوں لگاتے ہیں۔ ۔ پہننے اوڑھنے کی پابندی سے لے کر سونے جاگنے اٹھنے بیٹھنے کی، کھانے پینے کی پابندی۔ ۔ ہمارے ملک کے بہت سے علاقہ جات میں ابھی بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو عورتوں کا ملک کے لیے اپنے ہی گھر کے لیے کام کرنا پسند نہیں کرتے۔ وہی پابندیاں بھی لگاتے ہیں۔

ایک مسلمان عورت اپنے پردے سے واقف ہوتی ہے، اس کو گھر اور باہر کا فرق پتا ہوتا ہے۔ ۔ ایک سلجھی اور سمجھدار عورت اچھا برا سمجھتی ہے۔ ۔ اسے اپنے پردے کی اہمیت کا پتا ہوتا ہے۔ ۔ اور جو پردہ کی آیات پڑھ کے سناتے ہیں وہ بھی جان لیں کے اس سے پہلے والی آیت میں مرد کو بھی کہا گیا ہے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھو۔ ۔ تو کتنے مرد اس حکم کی تعمیل کرتے ہیں؟ دوسروں پر الزام تراشی سے قبل اپنے گریبان میں جھانکیے۔ ۔ اور فیصلہ خود کیجیے۔ مسئلہ یہ بھی تو ہے کہ ہماری نظر دوسروں کے عیوب پر ہے۔ اپنے جسم پر سانپ اور بچھو لٹک رہے ہوں ہم اس کی پرواہ نہیں کرتے اور یہی بات ہمیں کمزور کر رہی ہے۔ مردوں کا بلکہ (یہاں لفظ ہمارا استعمال کیا جائے تو بے جا نہ ہو گا) مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم جس عورت کو نگاہ میں رکھتے اس سے نکاح نہیں کرتے اور جس سے نکاح کرتے اسے نگاہ میں نہیں رکھتے۔

ہمارے اس معاشرے میں بدکردار کا لفظ عموماً صرف عورتوں کے لیئے استعمال کیا جاتا ہےاور مرد سارے عیب اور برائیوں کے باوجود خود کو ہمیشہ پاک دامن خیال کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مرد چاہے کتنا بےوفا اور عیاش ہو پر اس کو بیوی وفادار اور باحیا چاہیے۔ مردوں کے اس سماج میں عورت کو آزادی ملتی ہے یا پھر عزت جو عورت زندگی میں آزادی لینا چاہتی ہے تو یہ مرد اس سے عزت سے جینے کا حق چھین لیتے ہیں۔ اس مردانہ سماج کے سارے اصول مردوں نےطے کیے ہیں عزت کا ٹوکرا عورت کے سر پر رکھ کر خود آزادی کا حقدار بن جانے والا مرد عورت کو کبھی اپنے برابر انسان نہیں سمجھتا اس لیئے عورتوں کے لیئے استحصالی سوچ رکھتا ہے۔

مردوں کے اس سماج کی اخلاقیات بھی نرالی ہوتی ہے جو عورت اپنے مرد کی گالی پر خاموشی اختیار کرےُ اور اس کی مار اور تشدد پر جارحیت نا کرے تو وہ نیک پارسا اور اچھی عورت کہلاتی ہے۔ اور جو مرد کی ذیادتی برداشت نا کرےُ تو وہ بدکردار عورت کہلاتی ہے یہ معاشرہ عورت کو ہونے والے ہر ظالم پر برداشت اور صبر کا مشورہ دیتا ہے کیوں کے شور مچانے سے عورت کی اپنی ہی عزت خراب ہوگی۔ اس لیئے خاموشی سے استحصال کراتے رہو!

ان مردوں نے استحصال کا نام عزت رکھا ہے جتنا زیادہ استحصال ہوگا عورت کی عزت سماج میں اتنی ہی بڑھے گی۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ ایک عورت کو کیا مقام دیا گیا ہے۔ وہ کسی کی بیٹی تو رحمت۔ بیوی تو عزت اور اگر ماں بنتی تو جنت اس کے قدموں میں اتار دی جاتی ہے۔ لہذا ان کا استحصال کرنے سے پہلے اپنا احتساب کریے اور اپنی سوچ کو بڑا کیجیے۔ ۔

ان عورتوں سے بھی کہ اگر کوئی فرد آپ کو منع کرتا ہی ہے تو اس کی بات کو سمجھیں۔ جذباتی ہونے کے بجائے سوچیے۔ ہوسکتا آپ کی آنکھ وہ نہ دیکھتی ہو جو اس فرد کی دیکھتی ہو۔ مجھے میرے ایک عزیز کی بات یاد آئی کہ اگر وہ غلط کہے گا اور آپ اس کی غلط بات بھی مانے گی تو ضرور سوچے گا اور اپنے فیصلہ پر نادم ہوگا۔

ایک آدمی اور انسان میں بنیادی فرق سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اسی لیے لوگ اکثر کہتے ہیں انسان بنیے۔ آدمی نہیں۔

بہت سے لوگوں کو میری بہت سی باتوں سے اختلاف ہو گا۔ ہو سکتا میرا نظریہ غلط ہو۔ اپنے دلائل سے آگاہ کیجیے گا۔ شاید میری اصلاح ہو جائے۔ اور جن کی نظر میں میری بات ٹھیک وہ اپنی اصلاح خود کریں۔ ایک گھر ترقی کرے گا تو ایک معاشرہ ترقی کرے گا اور ایک معاشرہ ملک کی ترقی کا باعث بنے گا۔ ۔

خوش رہیں۔ ۔ آباد رہیں۔ ۔ اور خوشیاں بانٹیں۔ ۔ ۔ ع

مت سہل اسے جانو، پھرتا ہے فلک برسوں

تب خاک کے پردے سے انساں نکلتا ہے