کوثرعباس
سلطان ایوبی کا دور تھا۔ صلیبی ہر میدان جنگ میں مسلمانوں کے ہاتھوں پے در پے شکست سے بہت پریشان تھے۔ ایک وقت ایسا بھی آیاجب بحراوقیانوس کے ساحلوں پر 150000 مسلمانوں نے 1500000 صلیبی کافروں کی لاشوں کے ڈھیر لگا دیئے۔ متحدہ صلیبی فوج کا بادشاہ رونالڈ اس وقت پھوٹ پھوٹ کر رویا۔ اس نے ایک میٹنگ بلائی جس میں مسلمانوں کی فتح اور صلیبیوں کی شکست کا تجزیہ کیا گیا۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمان جنگجو ؤں کے دلوں میں اللہ کا خوف ہے اور ان کی روحیں ہر قسم کی دنیاوی لذت، عیاشی اور گناہوں سے پاک ہیں۔ دلوں کا یہی نور ان کی آنکھوں میں بجلیوں کی طرح چمکتا ہے۔ میدان جنگ میں صلیبی کافروں کے لیے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا بھی مشکل ہے چہ جائیکہ مقابلہ کریں۔ اس پر مستزاد ان کا فلک شگاف نعرہ تکبیر سونے پر سہاگے کا کام کرتا ہے۔ جبکہ صلیبی سپاہی رات بھر شراب اور شباب میں مشغول رہتے ہیں۔ بادشاہ نے اس کا توڑپوچھا۔ اسی میٹنگ میں ”ہرمن“ نام کا ایک انٹیلی جنس آفیسر بھی موجود تھا۔ اس نے کہا کہ اگر مسلمانوں کو شکست دینا چاہتے ہو تو انمیں جنسی بھوک پیدا کردو۔ مسلمان مجاہد اس سے ناآشناہیں، جو شادی شدہ ہیں وہ بھی اس کو ایک دینی فریضہ سمجھتے ہیں اور جو غیرشادی شدہ ہیں، ان کو اس سے کوئی راہ نہیں۔ چونکہ وہ اس تصوراور حسین نظاروں سے غیرمانوس ہیں لہذا انہیں اپنی جان قربان کرتے ہوئے ڈرمحسوس نہیں ہوتا۔ جب کہ ہمارے سپاہی اس لیے ڈرتے ہیں کیونکہ وہ ان لذتوں سے محروم نہیں ہوناچاہتے جو ان کوحکومت کی طرف سے میسر ہیں۔ ہرمن نے کہا کہ میری زندگی کا تجربہ ہے کہ جو بندہ بے حیائی کا عادی ہو جائے وہ میدان جنگ تو کجا زندگی کے کسی میدان میں بھی اچھا Response نہیں دے سکتا۔ اس کے بعد ہرمن نے ان مسلمانوں کے نام بطور ثبوت پیش کیے جو کبھی ان کے لیے سب سے بڑاخطرہ تھے اور مسلمانوں کے سب سے بڑے جنگجو لیکن آج وہ صلیبی کیمپوں میں عورتوں کے ساتھ دادعیش دے رہے تھے۔ ان کو جہاد، دین اور اللہ و رسول بھول گئے تھے۔ بادشاہ نے کہا کہ ہم نے کئی دفعہ کوشش کی کہ مسلمان فو جیوں کو لڑکیاں پیش کی جائیں لیکن ہم ناکام رہے۔ ہرمن نے جواب دیاکہ آپ کی بات بجا لیکن ایسا اس لیے ہوا کہ کیونکہ ان کی سوچ کی وادیوں میں Porn کا تصور ہی نہیں ہے۔ اگر آپ اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں تو پہلے ان میں یہ تصورپیدا کرنا ہوگا۔ اس کے بعد اس بھیانک منصوبے کا آغازہرمن کی قیادت میں ہواجس کا نام رکھاگیا”آرٹ پورنوگرافی“۔ کچھ عرصہ بعد سلطان کو اطلاع ملی کہ فوج کے کچھ نوجوان رات کو غائب ہو جاتے ہیں اور حیرت انگیز طورپر یہی نوجوان دن کے وقت سستی کا شکاربھی رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی معلوم ہوا کہ کچھ لوگ رات بھر جنسی گفتگو میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ دیکھ کر سلطان خود میدان میں اترا اور بھیس بدل کر اس حقیقت تک پہنچا کہ فوج کے پڑاؤ کے قریب ایک تجارتی قافلہ رکا ہوا ہے جہاں کچھ تاجروں کے پاس فحش تصاویر ہیں اور یہیں سے یہ تصاویر مسلم آرمی تک سپلائی ہوتی ہیں۔ مزیدیہ کہ دمشق اور مصر میں باقاعدہ قحبہ خانے کھل گئے ہیں جہاں جنسی تصاویر ہوش ربا مناظر کے ساتھ دکھائی اور بیچی جاتی ہیں۔ یہ دیکھ سلطان نے اپنی جنگی پیش قدمی روک دی اور فوج کی اصلاح شروع کی۔ اسی موقع پر سلطان نے یہ مشہورفقرہ ”کہ کسی قوم کو تباہ کرنا ہوتو ان میں بے حیائی پھیلادو۔ جنگ کیے بناء ہی وہ قوم ڈھیر ہو جائے گی“ اداکیا تھا۔ اسی جنسی تصور اور لڑکیوں کااستعمال بعد حسن بن صباح نے بطورہتھیار استعمال کیا لیکن اس کا مؤجدہرمن تھا اور مقصد سلطان صلاح الدین ایوبی کو شکست سے دوچار کرنا تھا۔ سلطان بیت المقدس کی فتح کے بعد چل بسااورصلیبی بھی اپنا دم خم کھو بیٹھے لیکن ہرمن کا تیارکردہ Pornography کا زہر پوری آب وتاب سے مسلمانوں میں پھیلنے لگااور ان کو کھوکھلاکرنے لگا۔
اٹھارویں صدی میں اسی جحان کو دیکھتے ہوئے فرانس میں جنسی اعضاء کے نمونے درختوں کی شاخوں اور رتنوں کو راش خراش کر پیش کیے گئے جن کو دیکھنے کے لیے لوگ ٹوٹ پڑے۔ اسی صدی میں کیمرا اوربعدازاں پرنٹر ایجاد ہوا تو ان کے ذریعے جنسی پلے کارڈ اور تصاویر ان ہاتھوں میں پہنچ گئیں جن کے پاس کیمرانہیں تھا۔ یوں یہ کام پوری آب و تاب سے پھیلنے لگا۔ 1876ء میں ویڈیو کیمرا ایجاد ہوگیا۔ یہاں سے پورنو گرافی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ لومیئر برادرز نے تاریخ کی پہلے پورن فلم بنائی جس کا دورانیہ پندرہ منٹ تھا۔ اس فلم نے ریکارڈمنافع اور ناظرین پیدا کیے۔ یوں پورن انڈسٹری کی بنیاد پڑگئی۔ ان فلموں میں ایک ہی طرح کے مناظر دیکھ کر یورپی عوام بددل ہوگئی تو 1970 میں اسے پاکستان اور انڈیاکے سینماؤں میں پیش کرنے کی اجازت مانگی گئی لیکن حکومتوں کی طرف انکار کر دیا گیا۔ لیکن پھر VCR کی بدولت یہ کام آسان ہوگیااور یہاں کے لوگ بھی اس لت میں گرفتار ہو گئے۔ جب حکومتوں کی طرف ان موویز پر پابندی لگائی گئی تو ایک دفعہ پھر ان کے پروڈیوسرپریشان ہوئے لیکن پھر انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کی ایجاد اس دم توڑتی ا نڈسٹری کے لیے آب حیات ثابت ہوئی۔ 1992 میں برین کمپنی کی طرف سے پاکستان میں بھی انٹرنیٹ متعارف کردیا۔ یوں لوگ گھر بیٹھے سیکس موویز دیکھنے لگے۔ کچھ عرصہ تک یہ انڈسٹری چھائی رہی لیکن مسئلہ پھرو ہی یکسانیت کا تھا۔ یہ چیز بددلی کا باعث بن رہی تھی۔ یہ دیکھ کر انڈسٹری نے مختلف کیٹیگریز بنا دیں تاکہ ہر کئی اپنی پسند کے مطابق تیز، ریلیکس یا غیرفطرتی سیکس دیکھ سکے۔ مزید دلچسپی کے لیے ماں بیٹے، بہن بھائی، باپ بیٹی اور دیگر رشتوں پر مشتمل موویزبھی بننے لگیں تاکہ ایک طرف تو دیکھنے والوں کو دلچسپی ہواوردوسری طرف مسلم قوم میں ان رشتوں کا احترام کم ہواور ان کاتقدس اور عزت جاتی رہے۔ اس کے ساتھ ہی اورل سیکس بھی متعارف کرادیا گیا۔ آج کی سائنس یہ کہہ چکی ہے کہ اس سے منہ کا کینسر پیدا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس طرح کے اداکاروں کے منہ میں مووی بنانے کے فوراً بعد سپرے کیا جاتا ہے تا کہ اس کے ا ثرات سے چھٹکاراپائے جاسکے۔ اس کے بعد مروعورت کے مومی مجسمے بنادیئے گئے اور یوں یورپ میں شرح پیدائش کم ہو رہ گئی، شادی کا تصورماند پڑگیااور معاشرتی تعلقات کمزورہوگئے۔ یورپی سروے اس بات کا اعلان کررہے ہیں کہ 2050 تک مسلم آبادی یورپی آبادی کو پیچھے چھوڑ دے گی۔ دوسری طرف یہ رپورٹ کہ ڈھائی کروڑ پاکستانی ایک دن میں ایسی سائٹ کو وزٹ کرتے ہیں حالانکہ ایسی مختلف سائٹ کو حکومت کی طرف سے بلاک بھی کیا جاتا ہے لیکن پھر بھی نوجوان پراکسی لگا کر ان تک پہنچ ہی جاتے ہیں۔ یہ بات ان لوگوں کے لیے حوصلہ افزا ہے جو اس زہر کو مسلمانوں میں پھیلانا چاہتے ہیں تا کہ مسلم معاشرہ بے حیائی کا شکار ہو، ان میں شادی کا روج کم ہو، بچوں کی پیدائش میں کمی ہو، ان کی ذہنی اور جسمانی صلاحتیں کھوکھلی ہوجائیں اور ان کی بڑھتی ہوئی آبادی کو کم کیا جائے۔ اس کے ساتھ یہ خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہوں جن کی دوائیں بہت مہنگی اور پورن انڈسٹری کے مالکان کے پاس ہیں۔ یوں ”پہلے بیماری بیچو اورپھر دوا“ والا فارمولا آزماجاسکے۔ ان کا یہ منصوبہ بہت حدتک کامیاب بھی ہوچکا ہے۔ پاکستان میں ناکام ہونے والی شا دیوں کی ننانوے فیصد وجہ لڑکے کے جنسی مسائل ہوتے ہیں۔ اگر آپ کا کوئی جاننے والا میڈیکل سٹورچلاتا ہے تو وہ آپ کو جنسیات سے متعلق دواؤں کی خریداری میں نوجوان نسل کا رجحان بتابھی سکتاہے۔ یوں مسلم قوم تباہی کی طرف جا رہی ہے اور ہرمن کا منصوبہ اور سلطان صلاح الدین ایوبی کا یہ فقرہ سچ ہوتا جا رہا ہے کہ کسی قوم کو تباہ کرنا ہوتو بے حیائی کا عادی بنا دو، جنگ کرنے کی ضرورت نہیں رہے اور وہ قوم خودبخود تباہ ہو جائے گی۔ کاش! کوئی اس بات کا احساس کرلیتا۔