1. ہوم
    2. کالمز
    3. رحمت عزیز خان
    4. ریاستِ بہاول پور، ایک درخشاں تعلیمی، تمدنی و دینی ورثہ

    ریاستِ بہاول پور، ایک درخشاں تعلیمی، تمدنی و دینی ورثہ

    جب ہم برصغیر کے اسلامی سیاسی، علمی اور تہذیبی خدوخال کا جائزہ لیتے ہیں تو مغل سلطنت یا دکن کی ریاستیں فوری ذہن میں ابھرتی ہیں، لیکن ایک ایسی اسلامی ریاست بھی ہے جس نے علم، فن، تہذیب، دین اور تمدن میں انمول نقوش چھوڑے یعنی ریاستِ بہاول پور۔ آج کا یہ کالم ریاست بہاول پور کے قیام، دینی و تعلیمی خدمات، ثقافتی اثرات اور طرزِ حکمرانی کے بارے میں ہے۔

    1258ء میں بغداد کی تباہی کے بعد عباسی شہزادوں کی ہجرت نے اسلامی دنیا کے بہت سے گوشوں میں ایک نیا رنگ بھرا۔ امیر چنی خان عباسی کو مغلیہ دربار سے جو منصب ملا، وہ محض ایک سیاسی عہدہ نہ تھا بلکہ یہ ایک تمدنی تسلسل کی شروعات تھی۔ مہدی خان اور داؤد خان کی نسلوں میں اختلافات اگرچہ افسوسناک تھے، مگر انہی سے "کلہوڑے" اور "داؤد پوتا" جیسی شناختیں ابھریں۔

    ریاست بہاول پور کے بانی نواب صادق محمد خان اول عباسی داؤد خان کی تیرھویں پشت سے تھے۔ انہوں نے جس طرح کلہوڑوں سے علاقہ چھین کر ایک نئی ریاست کی بنیاد رکھی، وہ قیادت، عسکری حکمتِ عملی اور سیاسی بصیرت کا شاہکار ہے۔

    ریاست کا اولین مرکز اللہ آباد سے بہاول پور تک تھا۔ 1727ء میں اللہ آباد کو پہلا دارالخلافہ قرار دینا اور پھر 1774ء میں دریائے ستلج کے قریب بہاول پور شہر کی بنیاد رکھنا ایک دور اندیش فیصلہ تھا۔ یہ فیصلہ نہ صرف جغرافیائی مرکزیت کو مدِنظر رکھ کر کیا گیا بلکہ یہ انتظامی اور سیاسی استحکام کی علامت بھی بنا۔

    نواب بہاول خان ثانی کے دور میں ریاست کو "دارالسرور" کا رسمی خطاب دیا جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ اس ریاست نے محض حکمرانی پر توجہ نہ دی بلکہ ایک جدید، منظم اور روحانیت سے جُڑی ریاست کی تشکیل کو ترجیح دی۔

    نواب سر صادق محمد خان خامس عباسی ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔ نواب سر صادق کا عہد بہاول پور کی تاریخ کا نقطۂ عروج ہے۔ ان کی شخصیت میں علم، شرافت، تدبر اور قیادت کی خوبیاں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ 1911ء میں دہلی دربار میں صرف سات برس کی عمر میں فوج کی قیادت کرتے ہوئے حاضر ہونا، ایک ایسی تصویر پیش کرتا ہے جو جدید قیادت، شاہی تربیت اور برصغیر کی اسلامی ثقافت کا حسین امتزاج ہے۔

    نواب صاحب کی ابتدائی تعلیم علامہ مولوی غلام حسین قریشی جیسے قدآور عالم سے ہوئی، جس نے ان کی شخصیت کو دینی اعتبار سے بھی پختہ کیا۔

    علم و ادب کی سرپرستی میں اس ریاست کا بڑا کردار تھا، اسے علمی روشنی کی ریاست کہا جاتا تھا۔ نواب سر صادق اور ان کے پیش رو علم کے حوالے سے نہایت فراخدل رہے۔ 1886ء میں جب سرسید احمد خان کی تحریک ابھی مروج تھی، نواب صادق چہارم نے "صادق ایجرٹن کالج" قائم کرکے برصغیر میں علم کا چراغ روشن کیا۔

    یہاں تعلیم کی بنیاد صرف مغربی یا دینی علوم پر نہیں تھی، بلکہ دونوں کو بیک وقت ہم آہنگ کرکے ایک جدید نصاب متعارف کرایا گیا۔ جامعہ عباسیہ، جسے آج اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے نام سے جانا جاتا ہے، ایک ایسا ادارہ تھا جہاں اہل سنت، اہل تشیع، اہل حدیث، دیوبندی اور بریلوی تمام مکاتبِ فکر کو ایک ہی چھت تلے تعلیم دی جاتی تھی، یہ کسی بھی اسلامی ریاست کا مثالی ماڈل تھا۔

    اس ریاست میں دینی ہم آہنگی اور جدیدیت کا امتزاج بھی تھا۔ جامعہ عباسیہ کی ایک خاص بات یہ تھی کہ یہاں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ ریاضی، انگریزی، سائنس اور طب یونانی کی تعلیم بھی لازمی قرار دی گئی تھی۔ 1926ء میں طبیہ کالج کا قیام اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ ریاست بہاول پور نے محض علماء نہیں بلکہ اطباء، ماہرین، سائنسدان اور دانشور پیدا کیے۔ یہ ادارہ صرف علم کا مرکز ہی نہیں بلکہ فکری وحدت کا استعارہ بھی تھا۔

    ریاست میں خواتین کی تعلیم کو ایک ترقی پسند وژن کے طور پر متعارف کرایا گیا تھا۔ نواب سر صادق کے دور میں خواتین کی تعلیم پر جو زور دیا گیا وہ اُس دور کے لیے حیران کن تھا۔ صادق گرلز کالج، خواتین کے لیے موبائل لائبریری اور مفت تعلیم، یہ سب اس بات کی دلیل ہیں کہ بہاول پور محض ایک ریاست ہی نہیں بلکہ ایک فکری انقلاب بھی تھا۔ آج جب یہ ادارہ خواتین یونیورسٹی کی صورت اختیار کر چکا ہے، تو یہ نواب صاحب کی دوراندیشی کی عملی تعبیر ہے۔

    ریاست میں نہ صرف طلبہ کے لیے مفت تعلیم بلکہ ان کے لیے وظائف کا وسیع نظام بھی موجود تھا۔ بہاول پور، چشتیاں اور خانپور میں نارمل اسکولز کی بنیاد نے تدریس کے شعبے کو بھی مضبوط کیا۔ ریاست کے بہترین طلبہ کو برصغیر کے دیگر اعلیٰ اداروں میں داخل کروا کر انہیں ریاستی خرچ پر تعلیم دلوائی جاتی، جو کسی بھی جدید ریاست کی پالیسی سے کم نہ تھا۔

    بہاول پور ایک خواب سے ایک حقیقت بن گیا ہے۔ ریاست بہاول پور ایک ایسا باب ہے جسے برصغیر کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جانا چاہیے۔ یہ محض ایک سیاسی یا جغرافیائی اکائی نہ تھی بلکہ اسلامی ثقافت، علم و حکمت، دینی ہم آہنگی اور جدید تعلیم کا حسین امتزاج بھی تھی۔ نواب سر صادق محمد خان خامس عباسی کا دور جدید اسلامی ریاستوں کے لیے ایک ماڈل کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے، جہاں دین، دنیا، علم، تہذیب اور ریاستی نظم ایک ہی راستے پر گامزن تھے۔