پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ کے طور پر 1947 میں قائم ہوا۔ اس ریاست کے قیام کا بنیادی مقصد ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینا تھا جہاں عدل، مساوات، امن اور انسانی حرمت کے اصول نافذ ہوں۔ اسلام نے ہمیشہ معصوم جانوں کے تقدس کو سب سے اہم قرار دیا ہے۔ قرآنِ کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: "جس نے ایک جان کو ناحق قتل کیا گویا اُس نے تمام انسانیت کو قتل کیا"۔ (سورۃ المائدہ، آیت 32)
مگر افسوس! 2025 کے پاکستان میں، کراچی جیسے بڑے شہر میں پانچ سالہ معصوم بچی سویرا کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ ہمیں جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے کہ ہم بحیثیت قوم کس گراوٹ کا شکار ہو چکے ہیں۔ بچی کے گردے اور دل نکال کر لاش لیاقت آباد نالے میں پھینک دی گئی یہ واقعہ اسلامی معاشرے منہ پر ایک طمانچہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سوالیہ نشان بھی ہے۔
تفصیلات کے مطابق پوسٹ آفس سوسائٹی سیکٹر 13/A کراچی سے گزشتہ روز لاپتہ ہونے والی معصوم بچی سویرا کی لاش لیاقت آباد گجر نالے سے برآمد ہوئی۔ سی سی ٹی وی فوٹیج میں ایک خاتون کو بچی کو اٹھاتے دیکھا گیا ہے مگر بچی زندہ واپس نہ آ سکی۔ بدھ کی شام اطلاع ملی کہ نالے میں ایک بچی کی لاش ملی ہے۔ جب اہل خانہ نے شناخت کی تو انکشاف ہوا کہ بچی کے گردے اور دل نکال لئے گئے ہیں، یعنی اسے صرف قتل نہیں کیا گیا بلکہ اعضا کی اسمگلنگ جیسے درندہ صفت جرم کا نشانہ بھی بنایا گیا۔
یہ واقعہ صرف سویرا کے خاندان کا المیہ نہیں، بلکہ پورے معاشرے کی اخلاقی گراوٹ، سماجی اور قانونی زبوں حالی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بچی کے اغواء کے فوراً بعد پولیس کی ناقص کارکردگی، فوری ردعمل کی کمی اور تحقیقات میں تاخیر اس نظامِ انصاف کی کمزوری کو ظاہر کرتی ہے جو معصوم جانوں کے تحفظ میں ناکام رہا ہے۔
اتنے بڑے شہر میں دن دہاڑے بچی کا اغواء ہونا اور کسی شہری کا فوراً مداخلت نہ کرنا، اس بات کی علامت ہے کہ ہمارا سماج اجتماعی طور پر ضمیر کی موت کا شکار ہو چکا ہے اور ہم میں درندوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اعضا کی غیر قانونی اسمگلنگ میں کون کون ملوث ہیں ان کو کون کیفر کردار تک پہنچائے گا؟ یہ پہلو اس سانحے کو مزید سنگین بنا دیتا ہے۔ پاکستان میں اعضا کی غیر قانونی خرید و فروخت کے حوالے سے پہلے بھی کئی کیسز منظر عام پر آ چکے ہیں، مگر مؤثر قانونی کارروائی نہ ہونے کے باعث یہ مکروہ کاروبار ابھی تک جاری ہے۔
اسلامی تعلیمات میں معصوم بچوں کی حرمت سب سے زیادہ ذکر ہے۔ نبی اکرم حضرت محمد اسلام میں بچوں سے حسن سلوک کو ایمان کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم واقعی ایک اسلامی معاشرے کا حصہ ہیں؟
جہاں نہ خواتین محفوظ ہیں، نہ بچے، نہ بزرگ اور نہ ہی انسانی جان کی حرمت باقی رہی ہے۔
ریاست، میڈیا اور عدلیہ کے کردار پر بھی لوگ سوال اٹھا رہے ہیں۔ ریاستی اداروں کو فوری ایکشن لینا ہوگا۔ عدلیہ کو اس کیس کو ترجیحی بنیادوں پر نمٹانا ہوگا۔ میڈیا کو اس خبر کی سنجیدگی کو اجاگر کرنا ہوگا، میڈیا کو محض سنسنی پھیلانے کے بجائے عوامی شعور کی بیداری کے لیے مؤثر کردار ادا کرنا ہوگا۔
سویرا ہم سب کی بچی تھی۔ اُس کے ساتھ جو ظلم ہوا وہ پوری انسانیت پر ظلم کے مترادف ہے۔ اس واقعے نے ہمیں جھنجھوڑ دیا ہے کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ایک اجتماعی ضمیر بیدار کریں، قانون کو مضبوط کریں اور سب سے بڑھ کر اپنے اسلامی و اخلاقی اقدار کی طرف لوٹیں، ورنہ تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔
اللہ تعالیٰ معصوم سویرا کے درجات بلند فرمائے، اس کے والدین کو صبرِ جمیل عطا کرے اور اس ظلم میں ملوث درندوں کو کیفرِ کردار تک پہنچائے۔