1. ہوم
  2. کالمز
  3. رحمت عزیز خان
  4. منور شکیل

منور شکیل

پاکستان کی تہذیبی و ادبی تاریخ ایسے گوہر نایاب افراد سے مزین ہے جنہوں نے نامساعد حالات میں بھی اپنے فن کے چراغ کو بجھنے نہیں دیا۔ منور شکیل، جن کا تعلق پنجاب کے ایک چھوٹے سے قصبے روڈالہ (ضلع جھنگ کے قریب جڑانوالہ) سے ہے، ان نایاب ادبی ہستیوں میں سے ایک نمایاں نام ہے۔

منور شکیل نہ صرف پچھلے تیس برسوں سے گاؤں کے لوگوں کے پرانے اور بوسیدہ جوتے مرمت کر رہے ہیں، بلکہ ساتھ ساتھ وہ اپنے ارد گرد کی زندگی کے تلخ و شیریں تجربات کو شاعری کی صورت میں رقم کر رہے ہیں۔ ان کی جھونپڑی نما دکان اب صرف جوتے ٹھیک کرنے کی جگہ نہیں رہی، بلکہ ایک ادبی بیٹھک بن چکی ہے جہاں لوگ ان کی شاعری سننے آتے ہیں۔

منور نے اپنے قلم کے ذریعے دیہی معاشرت، غربت، سماجی ناہمواری، پردیس کے دکھ، ماں کی ممتا، مزدور کی فریاد اور انسانی احساسات کی گہرائیوں کو سادہ مگر دل نشین اندازا میں پیش کیا ہے۔ ان کی شاعری عام قاری کی روح سے ہم آہنگ ہوتی ہے، کیونکہ وہ محض الفاظ کا کھیل نہیں بلکہ تجربات کا نچوڑ ہے۔

ان کی شائع شدہ پنجابی شعری کتب میں سوچ سمندر (2004)، پردیس دی سنگت (2005)، صدیاں دے بھیت (2009)، جھڑا ڈھاپ گواچی دا (2011) اور اکھاں مٹی ہوئیاں (2013) شامل ہیں۔

یہ تمام کتابیں ادبی حلقوں میں نہ صرف پذیرائی حاصل کر چکی ہیں بلکہ ان کو مختلف ایوارڈز سے بھی نوازا جا چکا ہے۔ پاکستان رائٹرز گلڈ، آشانائے سنڈل بار اور پنجابی سیوک جیسی معتبر ادبی تنظیموں نے ان کی خدمات کو تسلیم کیا ہے۔

منور شکیل جیسے فنکار قوموں کے تہذیبی ورثے کا حصہ ہوتے ہیں۔ ان کی شاعری میں جو خلوص اور حقیقت پسندی ہے، وہ ہمارے معاشرے کے اجتماعی ضمیر کی آواز ہے۔ وہ نہ کسی بڑے شہر کے باشندے ہیں، نہ کسی نامور ادارے سے وابستہ، لیکن ان کی تخلیقات میں جو گہرائی ہے، وہ انہیں بڑے شہروں کے بڑے شعرا کے برابر لا کھڑا کرتی ہے۔

منور شکیل کو حکومتی سطح پر اعتراف کی ضرورت ہے۔ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ایسے دردمند، سچے اور محنت کش ادیبوں کو اکثر ریاستی سطح پر وہ مقام نہیں ملتا جس کے وہ حقیقی معنوں میں حقدار ہوتے ہیں۔ لہٰذا راقم الحروف کی طرف سے یہ تجویز پیش کی جاتی ہے کہ حکومتِ پاکستان منور شکیل کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں کسی قومی سول ایوارڈ جیسے تمغۂ حسنِ کارکردگی یا تمغۂ امتیاز سے نوازے۔ یہ نہ صرف ان کے فن کی حوصلہ افزائی ہوگی، بلکہ ان جیسے ہزاروں غیر معروف مگر عظیم فنکاروں کے لیے بھی باعثِ تقویت بنے گی۔

منور ایک جوتا مرمت کرنے والے کاریگر ہی نہیں، بلکہٹ پنجابی ادب کے ایک روشن چراغ بھی ہیں۔ ان کی شاعری گاؤں کی مٹی سے جنم لیتی ہے اور قاری کے دل میں اتر جاتی ہے۔ ان کی زندگی خود ایک نظم ہے یعنی محنت، فن، سچائی اور خلوص کی ایک خوبصورت نظم۔ ہمیں فخر ہے کہ ہمارے ہاں منور شکیل جیسے گوہر نایاب موجود ہیں۔