1971 میں سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد باقی ماندہ پاکستان تقریباً 64 فیصد پنجاب پر مشتمل ہے اور اسکی اہمیت میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ سیاسی لحاظ سے سب سے پرامن صوبہ رہا ہے تمام بڑی سیاسی تحریکوں کا آغاز پنجاب سے ہوتا رہا جن میں پاکستان پیپلز پارٹی کا قیام ہو۔ تحریک نظامِ مصطفیٰ ہو۔ مسلم لیگ نون کا قیام ہو یا تحریک انصاف کا قیام ہو۔ پنجابی لوگ بنیادی طور پر ملنسار مہمان نواز اعتماد کرنے والے بے لوث بے غرض بہادر مگر امن پسند ہیں۔ یہاں پر جو بھی پرکشش نعرہ لے کر آیا یا مظلوم بن کرآیا اسے بغیر کسی لالچ پنجابیوں نے خوش آمدید کہا اور کھل کر پذیرائی بخشی ذوالفقار علی بھٹو کی مثال دیکھ لیں۔ یا ڈھاکہ فال کے بعد شکست خوردہ مظلوم فوج کو 2014 تک سر آنکھوں پر بیٹھاتے رہے۔ جو مرضی کسی صوبے کا لیڈر آئے ان پر حکمرانی کرے انہیں کبھی اعتراض نہیں رہا نہ ہی اس صوبے کے باسیوں نے متعصب ہو کر جلدبازی میں پنجاب سے کوئی مصنوعی سیاسی قیادت بنانے کی کوشش کی۔
80 کی دھائی میں اسٹیبلشمنٹ نے کچھ پرانے سیاستدانوں کے ساتھ کچھ نئے سیاستدان بنانے کی کوشش کی جن میں اسوقت بڑا نام میاں نوازشریف کا ہے گیارہ سالہ مارشل لاء کے بعد جب سیاسی آزادی بحال ہونا شروع ہوئی تو پنجاب سے نواز شریف نے اپنے آپ کو سیاستدان کے روپ میں متعارف کرانا شروع کیا اسکے طریقہ کار سے اختلاف ہوسکتا ہے مگر اپنی کمٹمنٹ سے وہ یہ سفر طے کرتا رہا کچھ نہ کچھ عوام کیلئے ڈیلور بھی کرتا رہا جس سے پنجاب کے لوگ خاموشی سے اسکے ساتھ جڑتے گئے نواز شریف مسلم لیگ پنجاب کے صدر رہے اور محمد خان جونیجو مسلم لیگ پاکستان کے صدر تھے جب جونیجو صاحب سے اختلاف پیدا ہوا تو میاں نواز شریف نے مسلم لیگ نواز پاکستان بنا لی اور پنجاب کے تمام قابل ذکر مسلم لیگی نوازشریف کی قیادت میں اکٹھے ہو گئے حامد ناصر چٹھہ کے علاوہ۔ میاں نواز شریف پنجاب میں ایک مضبوط پنجابی قائد بن کر ابھرے۔ اس دوران چونکہ پاکستان پیپلزپارٹی گیارہ سالہ مارشل لاء کی وکٹم تھی بھٹو کی ناحق پھانسی اور محترمہ بینظیر بھٹو کی نوجوان قیات بھی تھی تو پیپلزپارٹی نے 88 کے الیکشن میں سادہ اکثریت حاصل کرنے کے بعد حکومت بنانے میں کامیاب تو ہو گئی مگر پنجاب میں وہ صورتحال نہ تھی جو بھٹو شہید کے وقت میں تھی یہاں پیپلزپارٹی کو پنجابی قیادت نوازشریف کا بڑا چیلنج درپیش تھا اور نواز شریف بھی بطور پنجاب کے بڑے لیڈر کے مرکز میں حکومت بنانے کے متمنی تھے۔
محترمہ بینظیر بھٹو نے جمہوریت کا تصور جو کتابوں میں پڑھا تھا یا مغرب میں دیکھا تھا یہاں پر عملاً اسکا کوئی تصور نہیں تھا۔ یہاں اقتدار تو عوام نے دے دیا مگر اختیار جسکے پاس تھا وہ دینے کیلئے تیار نہیں تھے سو اسی کشمکش میں میاں نوازشریف نے مہرے کا کردار اداکیا اور محترمہ کی حکومت ختم ہو گی غلام اسحاق خان نے اسمبلیاں توڑ کر نئے انتخابات کرائے اور مہرے نواز شریف کو اقتدار منتقل ہو گیا مگر اختیارات پھر نہیں ملے سو اختیارات کی جنگ میں محترمہ نے مہرے کا کرادار ادا کیا اور اختیارات والوں سے سازباز کر کے نواز شریف کو چلتا کیا اور پھر الیکشن کی سعی لاحاصل ہوئی پھر محترمہ اقتدار میں آئیں اختیارات کے بغیر۔ پھر نواز شریف نے مہرہ بن کر بدلہ اتارا اور محترمہ کی بے اختیار حکومت کو چلتا کیا اور عوام سے درخواست کی کہ ہمیں ایسے حکومت دلائی جائے کہ ہم اختیارات بھی لے سکیں عوام نے دو تہائی اکثریت سے چاروں صوبوں میں جتوا دیا اور ثابت کر دیا کہ پنجاب سے اب پورے پاکستان کیلئے سیاسی قیادت موجود ہے۔ اور اختیارات بھی لیکر رہے گی۔ حکومت میں آتے ہی نوازشریف نے چودھویں آئینی ترمیم کر کے اختیارات حاصل کرنے کے راستے کی تمام رکاوٹیں دور کردیں اور خالص جمہوریت کے تصور میں مگن ہو گئے انہیں اندازہ نہ ہوا کہ اس علاقے میں خالص جمہوریت کا پودہ لگانا ممنوع ہے یہاں صرف کلم کاری ہوسکتی ہے جو پچھلے دس سال میں ہوتی رہی ہے اس بار محترمہ نے مہرہ بننے سے انکار کیا تو انہیں بھی جلاوطنی اختیار کرنی پڑھی۔ اب اسٹیبلشمنٹ کو پنجاب سے بھی اپنے پاؤں کھسکتے نظر آئے اور اختیارات جاتے نظر آئے تو نوازشریف کو خالص جمہوریت سمیت اٹھا کر اٹک قلعہ اور لانڈھ جیل کی سیر کراتے ہوئے سعودی عرب جلاوطن کردیا اور پنجاب سندھ سے ڈمی قیادت لاکر پنجاب یعنی 64 فیصد پاکستان پر قبضہ مکمل کر لیا۔
محترمہ بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے طویل سوچ بچار کے بعد اپنے غلطیوں کو تسلیم کیا اور پاکستان کیلئے مزید غلطیاں نہ کرنے کا وعدہ کیا اور میثاق جمہوریت کی دستاویز پر پاکستان کی تمام پارلیمانی جماعتوں کی موجودگی میں دستخط کئے اور ایک بار پھر خالص جمہوریت کا پودہ لگانے کی کوشش کی جوکہ اس علاقے میں منع ہے اسکی پاداش میں محترمہ کو شہید کر دیا گیا اور آصف علی زرداری صاحب نے وہ پودہ تو لگانے کی کوشش نہیں کی البتہ کلم کاری پر اکتفا کر کے پانچ سال پورے کئے اور نواز شریف اسے پودے کو پنجاب میں پانی دیتے رہے۔ جس سے یہ خطرہ موجود رہا کہ یہ پودہ کبھی بھی لگ سکتا ہے جسکو روکنے کیلئے نیا مہرہ عمران خان کی شکل میں تلاش کیا گیا جو میثاق جمہوریت کے لندن اجلاس میں اول صف میں شریک تھے۔ عمران خان کو پاکستان میں خالص جمہوریت کے امکان کو روکنے کا ٹاسک دیا گیا جسکا راستہ پنجاب پر قبضہ سے ہی ممکن تھا اسکیلئے لوازمات مہیاء کئے جانے لگے اور 2011 میں مینار پاکستان پر بڑے جلسے کا اہتمام کرکے مزید مہرے تلاش کرنے کا عمل تیز کیا ایک طرف بے اختیار زرداری حکومت دس سالہ مشرف مارشل لاء سے تباہ حال ملک میں کچھ ڈیلور نہیں کر سکی اور نہ ہی جمہوری پودا لگانے کی راہ ہموار کر سکی اور نئے مہروں کی پرواز دیکھ کر 2013 کے الیکشن میں ہار تسلیم کرتے ہوئے حصہ لیا اور پنجاب پر قبضہ کی جنگ سے دور رہے۔
یہ جنگ مہروں اور نون لیگ کے درمیان لڑی گئی عوامی محاذ پر تو نوازشریف نے واضح کامیابی حاصل کر لی مگر دوسرے محاذوں پر یہ جنگ جاری رہی نوے کی دھائی والا مہرہ اقتدار پرست نواز شریف اب ایک جمہوری لیڈر بن کر مزید خطرناک ہوگیا تھا لہذا اسکی سرکوبی ضروری تھی پنجاب کا قبضہ ختم ہوتا نظر آرہا تھا لہذٰا مہرے پھر دھاندلی کے نام پر سڑکوں پر آگئے اور آخرکار سرکار عمارتوں پر بھی قابض ہو گئے مگر نوازشریف نے عوامی فلاحی کام جاری رکھے اور ملک کی ستر سال سے بگڑی سمت کو درست کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ مہروں کی نقلی تزین و آرائش سے خیبرپختونخوا کے لوگ کچھ متاثر بھی ہوئے اس صوبے میں حکومت بھی بن گئی یہی حکومت مرکزی حکومت پر یلغار کرنے بھی آئی تھی یہ سب کوششیں پنجاب پر قبضے کیلئے ہو رہی ہیں۔ سیاسی جماعتیں الیکشن میں عوام میں جاکر ووٹ کے زریعے سیاسی قبضہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں جوکہ کسی بھی ملک کیلئے صحت مند ہوتا ہے عوام سمجھتے ہیں کہ ہمارے خیرخواہ دوسرے صوبوں میں بھی موجود ہیں ہمارے پاس آتے ہیں۔ انہیں متبادل نظر آرہا ہوتا ہے جس سے عوام کی فرسٹریشن کم ہوتی ہے مگر کسی کو لاٹھی گولی اور طاقت سے متبادل بنانے کی کوشش کی جائے تو عام آدمی میں بھی نفرت کی سوچ اجاگر ہونا شروع ہوجاتی ہے نفرت کانتیجہ کسی کیلئے اچھا نہیں ہو سکتا نہ ملک کیلئے نہ اداروں کیلئے نہ سیاستدانوں کیلئے نہ ہی عوام کیلئے۔ غیر فطری طریقے سے کسی کو سپورٹ کرنا یا کسی کی سپورٹ کو روکنا نہایت خطرناک ہے یہ کام ان ادوار میں تو ہوتے رہے ہیں جن ادوار میں زرائع ابلاغ محدود اور قابل کنٹرول تھے آج 2018 میں زرائع ابلاغ کے ایک محدود حصے کو کنٹرول کرکے وقتی طور پر کچھ نتایٔج اپنے حق میں کئے جاسکتے ہیں جیسے نوازشریف کے استقبال کو روک کر اور الیکشن میں غیرفطری مداخلت سے مگر مستقبل میں یہ عوامی نفرت کا شاخسانہ بنیں گے۔
پاکسانی اسٹیبلشمنٹ کو وقتاً فوقتاً ملک کے ہر صوبے سے نفرت بھری چند نظروں سے دیکھا جاتا رہا ہے مگر 64 فیصد پاکستان یعنی پنجاب میں کبھی ایسے صورتحال نہیں پیدا ہوئی پنجاب ہی انکا پرامن بیس رہا پنجاب سے ہیں انکا اچھا امیج ملک بھر میں پروموٹ ہوتا ہے۔ خدارا اپنے بیس کیمپ کو برباد نہ کرو خدا کیلئے اپنی اپنی ذاتی انا کی خاطر عوام اور اداروں میں نفرت کے بیج مت ڈالو جسکی قیمت میرے ملک پاکستان کو چکانی پڑے۔ پارٹیوں کی شکست اور فتح عوامی ووٹوں سے ہوتی ہے۔ اداروں کی شکست اور فتح آئین کی پابندی میں رہتے ہوئے کارکردگی سے ہوتی ہے۔ الله نہ کرے یہ جو نفرت کی آگ سلگ رہی ہے کسی ایک مزید غلطی سے تیز ہوگئی تو کسی ادارے کے کنٹرول میں نہیں رہے گی۔ خدا کیلئے حالات کا جائزہ نوے کی دھائی سے نہ کرو حالات کا جائزہ 2018 کو مدنظر رکھ کر لو اور عمل کرنے کی کوشش کرو پنجاب پر قبضہ کی خواہش کہیں پاکستان سمیت نفرتوں کے سمندر میں ڈبو دے۔ الله نہ کرے۔