ہم تاریخِ انسانیت کا مطالعہ شروع کریں تو ایک بات تواتر سے عیاں ہوتی ہے کہ ہر دور میں بیٹی کو وہ مقام نہیں ملا کہ جس کی وہ اہل تھی۔ اول تو بیٹی کی آمد کو ہی خوش آمدید نہ کہا جاتا، دوسرے بیٹی کو رکھا اور پالا پوسا بھی تو ایسے کہ اس کا حق ادا نہ ہوا۔ کون سا ایسا غیر مناسب رویہ نہ تھا جو اس کے ساتھ روا نہ نہ رکھا گیا ہو۔ جب کبھی قبل از اسلام کسی کو یہ پتہ چلتا کہ اس کے گھر بیٹی پیدا ہوئی تو ناگواری کے آثار اس شخص کے چہرے پہ نمودار ہونا شروع ہو جاتے۔
میں اکثر سوچتا ہوں کہ وہ لوگ کتنے شقی القلب ہوں گے جو اپنی بیٹی کو اپنے ہاتھوں زندہ درگور کر دیتے ہوں گے۔ اس مقام پہ رک کے ایک لمحے کو سوچئے، مردہ نہیں، زندہ درگور کیا جاتا۔ اور یہ منظر بھی دیکھئے کہ زندہ درگور ہونے والی بیٹی جو یہ بھی نہیں جانتی کے اپنے ہی باپ کے اس عمل پہ رونا چاہئے یا ہنسنا۔ تصور کیجئے، باپ اپنی بیٹی کو ہاتھوں پہ لئے اپنے گھر سے چلا ہوگا، تو اس بیٹی کی ماں پہ کیا گزری ہوگی؟ اس ماں نے کیا کیا منت نہ کی ہوگی کہ ایسا مت کرو، لیکن وہ بدبخت باپ چھین کے دفنانے لے گیا ہوگا۔۔۔
جیسے ہی اپنے گھر سے برآمد ہوا ہوگا، بیٹی نے کہا ہوگا، بابا، بابا، کیوں زندہ دفناتے ہو، میرا قصور کیا ہے؟ کیا میں آپ کی اولاد نہیں؟ بابا، آپ مجھے دفن نہ کیجئے، میں آپ کی عزت میں اضافے کا موجب بنوں گی۔ میں آپ کا ہر مشکل وقت میں سہارا بنوں گی۔ لیکن یہ سب بھی باپ کا دل نہ پگھلا پایا ہوگا۔ تیار گڑھے میں اپنی بیٹی کو لٹا کر، زندہ اور سانس لیتی بیٹی کے معصوم وجود پہ، کیسے وجود سے بھاری مٹی ڈالی ہوگی۔ اس مٹی نے اس بیٹی کے سانس لینے کے عمل میں رکاوٹ ڈالی ہوگی۔ سانس اُکھڑی ہوگی، دل سے آہ نکلی ہوگی اور شاید اُس بیٹی نے جاتے جاتے بھی خود کو دفن کرنے والے کو دُعا ہی دی ہو۔۔
یہ سب طلوعِ اسلام سے قبل تھا، پھر اُس ہستی کا دور آیا کہ جو کائنات کے لئے رحمت بن کے آئے۔ وہ معاشرہ جس میں بیٹوں کا باپ ہونے پہ فخر کیا جاتا، اور اپنی اولاد کو اٹھانا، کھلانا عیب سمجھا جاتا، اس معاشرے میں سرکار ﷺ نے آکر بتایا بیٹیاں زحمت نہیں رحمت ہیں۔ سرکار ﷺ نے بیٹی کی فضیلتیں اس معاشرے میں بتانا شروع کیں جو اس سے بے خبر تھا۔
سرکار ﷺ نے فرمایا بیٹی رحمت ہے، بیٹا نعمت، نعمت کا حساب دینا ہے رحمت بغیر حساب کے۔ جس نے اپنی بیٹی کی اچھی پرورش کی اس کی شفاعت میرے ذمے۔ بیٹی ماں بنے تو اپنی اولاد کے لئے جنت کے حصول کی ضامن، جنت جس کے پیروں تلے۔ کیا کہنے سرکار ﷺ کے فرمایا، بیٹی باپ کے لئے رحمت، شوہر کے لئے ایمان، اپنے بچوں کے لئے جنت کے حصول کا زریعہ۔۔
ایک بندے نے سرکار ﷺسے آکر کہا کے مولاؑ میں قسم کھا چکا کہ جنت کی چوکھٹ کو بوسا دوں، کیا کروں؟ فرمایا ماں کے قدم جا کے چومو، کہاں ماں تو کب کی مرچکی، فرمایا ماں کی قبر کی پائنتی جا کے چومو، کہاں قبر کا بھی پتہ نہیں، کہا ایک لکیر لگاو، تصور کرو، ماں کی قبر ہے، اس کی پائنتی چومو، یہ عمل ایسا ہوگا کہ تم نے جنت کی چوکھٹ کو بوسا دیا۔
سرکار ﷺ کو جہالت کے باپ طعنہ دیا کرتے کہ آپ ابتر ہیں، سرکار ﷺ خاموش ہوئے تو پھر وہ بولا، جس کی چاہت پہ سرکار ﷺ بولتے۔ اللہ کریم نے پوری سورہ کوثر نازل کی اور آمدِ جناب سیدہ فاطمہؑ کی خوشخبری عطا کی۔ فرمایا یہ عطاء بہت بڑی ہے ملے گی تب جب اس کے شکرانے کے طور پہ میری خصوصی عبادت کریں۔ وہ سرکار ﷺ جو اتنی عبادت کرتے کہ اللہ کریم کو کہنا پڑا میرا محبوب کم عبادت کیا کیجئے، آپ تھک جاتے ہیں۔ وہی اللہ اس عطاء کے بدلے عبادت طلب کررہے ہیں۔
سرکار ﷺ نے نمازِ شب میں پاک بی بیؑ کو مانگا۔ اللہ کریم نے وہ بیٹی عطا کی کہ جس کی تعظیم آپ ﷺ ہمیشہ کرتے، جو آپ کی نسلِ پاک کی ضامن بنیں۔ جب کبھی پاک بی بیؑ آپ کے پاس آتیں، آپ کھڑے ہو کے استقبال کرتے، ماتھا چومتے، اپنی مسند پہ بٹھاتے۔ سرکار ﷺ آپ کی خوشبو سونگھ کے خوش ہوتے اور فرماتے جب کبھی مجھے جنت کی خوشبو کا اشتیاق ہوتا میں بیٹی کی خوشبو سونگھتا۔
اسی طرح سرکار حسینؑ نے اپنے نانا کی سنت میں اپنے لئے ایک بیٹی کو مانگا۔ ہر نمازِ شب کے بعد دعا کا ثمر مانگا۔ اللہ کریم نے سرکارِ حسینؑ کو وہ بیٹی عطاء کی جو 'سکینہؑ' کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ جیسے ہی جنابِ سکینہؑ آپ کے پاک ہاتھوں پہ آئیں، امامِ حسینؑ نےاس بیٹی کوویسے ہی پیار کیا جیسے نانا محمد ﷺ نے اپنی بیٹی کو کیا۔ امامِ حسینؑ نے اپنی بیٹی کو چوما۔ اللہ جانے یہ بیٹی اللہ کریم کا کتنا بڑا احسان تھا سرکارِ حسینؑ پہ کہ مولا حسینؑ فرمایا کرتے کہ مجھے اس گھر میں سکون ہی نہیں ملتا، جس گھر میں سکینہؑ نہ ہوں۔۔۔
ایسا نہیں کہ مولا حسینؑ کی اور اولاد نہ تھی، بیٹے نہ تھے، بالکل تھے اور ایسے کہ ہر بیٹا اپنی ذات میں علیؑ تھا، اور بیٹیاں بھی جو فاطمہؑ تھیں۔ لیکن اتنی اولاد میں سکینہؑ صرف ایک تھیں۔ حسینؑ مولا اپنی اس بیٹی سے اتنا پیار کرتے کہ اپنی اس بیٹی کو ہمیشہ اپنے سینے پہ سلاتے، اور یہ عمل اتنا تواتر سے ہوتا کہ علماء نے اس پاک بی بیؑ کو تعویزِ سینہِ حسینؑ سے موسوم اور تعبیر کیا۔
وہ ہستی جو کائنات اور کائنات کی رحمت ﷺ کے لئے باعثِ سکون ہوں انہیں حسینؑ کہا جاتا ہے اور جو پاک مولا حسینؑ کے سکون کا باعث ہوں انہیں جنابِ سکینہؑ کہا جاتا ہے۔
آج 20 رجب ہے اور جنابِ سکینہؑ کی آمد کا دن ہے۔ ہم اس دن اپنے مولا و آقا سرکارِ محمد ﷺ و اولاد سرکار محمد ﷺ کو آج کی دن کی مبارک باد دیتے ہیں۔ خصوصا اپنے مولا حسینؑ کو سکونِ حسینؑ کی آمد مبارک۔ آج کے دن ہم نیت کرتے ہیں کہ زندگانی جنابِ سکینہؑ پہ ایک کتاب تحریر کریں، انشاء اللہ۔ یہ کتاب یقینا اس احسان کا بدلہ ہو جو پاک بی بیؑ نے ہم پہ کیا۔
اللہ کریم آپ سب کو آسانیاں عطاء فرمائیں اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطاء فرمائیں۔