گزشتہ زور دفتر میں بیٹھا دفتری امور کی انجام دہی میں مصروف تھا۔ کام ذیادہ ہونے کی وجہ سے ارتکاز توجہ کی کوشش میں مصروف تھا کہ فون پہ کسی کی کال آئی۔ نمبر چونکہ فون میں محفوظ نہ تھا نہ چاہتے ہوئے بھی فون سننا پڑا۔ دوسری طرف سے آواز نہ ہونے کے برابر، شور ہی شور۔ کچھ دیر ہیلو ہیلو کیا لیکن بات پلے نہ پڑی۔ ایسے میں فون کاٹ دیا۔۔
ابھی پھر سے کام کی طرف توجہ کرنے کی کوشش میں مگن تھا کہ پھر اسی نمبر سے کال موصول ہوئی، ایک مرتبہ لیپ ٹاپ کی سکرین پہ نظر اور دوسری موبائل فون کی سکرین پہ، سوچا پتہ نہیں کون ہے، نہ چاہتے ہوئے بھی پھر کال سنی، لیکن نتیجہ وہی شور، شور اور شور۔ جہاں کال کرنے والے کی کچھ سمجھ نہیں آرہی تھا۔ ایسے میں سوچا پتہ نہیں کیوں فون پہ فون کیئے جا رہا ہے۔
عموماََ میں انجان نمبرز پہ جوابی کال نہیں کرتا، لیکن اس دی کر دی۔ سلام دعا ہوئی، اسکے بعد اس نے کچھ ایسا کہا کہ میرے اوسان خطا ہوگئے۔ جیسے دماغ ماؤف ہوگیا، کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کروں، ایسا کیوں ہوا کچھ دیر میں بتاتا ہوں۔۔
یہ بات ہے سن 1999-2000 کے لگ بھگ کی۔ میرا گھر سے سکول کا فاصلہ قریباََ 10-11 کلومیٹر کا تھا۔ جس کے لئے مجھے روزانہ صبح ساڑھے چھ بجے اٹھنا پڑتا۔ قریباََ 7 سوا سات ابا جی کی فیکٹری سٹاف وین آجاتی جو مجھے روز سکول اتارتی۔ اکثر سکول تاخیر سے پہنچتا۔ واپسی قریب 3 بجے کے قریب ہوتی۔ سکول سے لوکل بس میں سوار ہوتے جو بمشکل سکول کے آگے رکتی۔ وجہ ایک تو وہاں بس سٹاپ نہیں تھا، دوسرے سٹوڈنٹ ہونے کی وجہ سے بس والے کنی کتراتے۔
میرا روٹ سکول سے حیات آباد فیز 5 والی بس ہوتی۔ بہت کم ایسا ہوتا کہ بس اپنا روٹ مکمل کرتی، ورنہ اکثر آدھ رستے میں اتار دیا جاتا۔ وہاں سے بس کے لئے پھر تگ و دو شروع ہوجاتی۔ فیز 5 کے کمشنری سٹاپ پہ اترنا ہوتا، جہاں سے ڈیڑھ کلومیٹر پیدل مارچ اور پھر اپنی منزل پہ پہنچتے۔ موسم جیسا بھی ہو اپنی یہی روٹین رہی جب تک سکول جاتے رہے۔
اس زمانے میں ہماری پھوپھی بھی پشاور میں مقیم تھیں، تہکال پایاں سے ایک رستہ شاہین کیمپ نکلتا جو ایر فورس کی بستی تھی۔ کبھی کبھار ابا جی، اتوار والے دن ہمیں ان کے گھر لے جایا کرتے۔ ہماری بس یہی عید اور یہی پکنک ہوا کرتی۔ کبھی کبھار پھوپھی ہمارے ہاں آیا کرتیں۔
ان دنوں پشاور میں آٹے کا بحران آیا ہوا تھا، اول تو آٹا ملتا نہیں جو ملتا بھی تو بلیک میں اور خجل خواری الگ، سو ایک دو ماہ بعد ابا جی ہمارے پھوپھا سے کہتے کہ آٹے کی بوری لے دو کیوں کہ باہر سے نہیں مل رہا۔ پھوپھا کا محکمہ چونکہ سرکاری تھا انہیں ہر حال میں آٹا مل جایا کرتا۔ ابا جی رقم دے دیا کرتے اور ہمیں آٹے کا تھیلہ مل جایا کرتا۔ ایک دن ابا جی نے کہا کہ آٹا ختم ہوگیا ہے، آٹا لانا ہے۔ مجھے لگا کہ اگلے دن ہی لانا ہے سو ابا جی سے کہا کہ میں سکول سے وہاں آجاؤں گا، وہاں سے ہم اکٹھے واپس گھر آجائیں گے۔ خدا جانے ابا جی کو یاد نہ رہا یا پھر میرے سمجھنے میں کمی بیشی ہوئی۔
میں اگلے دن سکول کے بعد شام کو پھوپھی کے گھر، روزہ افطار ہوگیا، لیکن ابا جی نہ آئے۔ مجھے نہیں یاد کہ اسی دن یا اگلے دن میں گھر پہنچا۔ ابا جی نے مجھے کہا تو کچھ نہیں لیکن، امی جی نے بتایا کہ آپ کے ابو نے روزہ افطار نہیں کیا تھا، کبھی گھر، کبھی کمشنری سٹاپ، کبھی دوسری طرف۔۔
ابا جی سے کہا کہ ابو جی، میں نے آپ کو بتایا تھا، ویسے بھی میرا روز کا کام ہے سکول جانا اور واپس آنا۔ ابا جی نے صرف ایک جملہ کہا "پُتر، تیرا ہوے دا تے تینوں پتہ لگے دا"۔۔
مجھے پاس بٹھایا اور کہنے لگے، مجھے فلم دیکھنے کا شوق تھا۔ ہر ماہ ایک دو بار ویک اینڈ پہ میں سینما چلا جایا کرتا۔ قدرتی میرے ابا جی میرے پاس آئے ہوئے تھے۔ شو کچھ ذیادہ ہی لیٹ ہوگیا، اب جو سینما کے باہر نکلا تو کیا دیکھا ابا جی لالٹین تھامے باہر کھڑے۔ میں نے کہا ابا جی آپ یہاں کیوں؟ آپ نے کیوں تکلیف کی؟ میں کون سا بچہ تھا کہ گھر کا رستہ بھول جاتا، گاؤں سے دور پردیس میں کما رہا ہوں، جواب وہی دیا۔۔ "پُتر، تیرا ہوے دا تے تینوں پتہ لگے دا"۔۔
جی میں آپ کے بیٹے کی سکول وین والا ہوں، سارا سکول خالی ہوگیا ہے۔ آپ کا بچہ نہیں آیا اب تک۔ آپ پتہ کریں کہاں ہے۔ اس وقت وہ کہاں ہو سکتا ہے؟ گھر بیگم کے فون پہ کال کی، جواب نہیں آیا۔ چھوٹے بھائی کو فون کیا، کہنے لگا کہ میں تو کام پہ ہوں، مجھے نہیں پتہ میں پتہ کرواتا ہوں۔
اتنے میں بیگم کی کال آئی، ریحان گھر آگیا؟ جی نہیں۔ کیوں۔ ریحان سکول نہیں ہے۔ وین والے کا فون تھا۔ ریحان کے کسی استاد کا نمبر دیں میں فون کرکے پتہ کروں۔ نمبر تاخیر سے موصول ہوا۔ ڈائل کیا جواب ندارد۔ ایسے میں میرے اوسان خطا ہوگئے۔ جیسے دماغ ماؤف ہوگیا، کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کروں۔۔
کچھ ساعتوں بعد صرف اتنا پتہ چل سکا کہ ریحان وہیں سکول ہے، وین والے نے 5 نمبر گیٹ پہ کہا تھا، جب کہ وہ خود وہاں نہیں آیا۔
شام ہوئی، گھر پہنچا۔ بچوں کو انکی ماں کے ہمراہ بلایا، امی جی ساتھ بیٹھیں تھیں۔ پوچھا کیا ہوا، ایسے کیوں ہوا۔ ریحان نے سب بتایا کہ مرا ہرگز قصور نہیں ہے، وین والے نے خود 5 نمبر گیٹ پہ بلایا اور انتظار 2 نمبر گیٹ پہ کرتا رہا۔
یہ سب سننے کے بعد، کہا بیٹا زندگی میں اکثر حالات ایسے آتے ہیں کہ انسان 'panic' ہو جاتا ہے لیکن، انسان کو ٹھنڈے دماغ سے کام لینا چاہئے۔ 'panic' ہونے سے آپ درست فیصلہ نہیں کر پاتے۔ یہ زندگی کے سبق ہیں انہیں یاد رکھیں اور آئندہ کوشش کریں کے ایسا پھر نہ ہو۔ اس کے بعد اپنا اور ابا جی کا واقعہ سنایا اور وہی جملہ دہرایا کہ بیٹا ابھی آپ کو پتہ نہیں چلے گا کہ میری اس دوران کیا کیفیت تھی، "پتر، تیرا ہوے دا تے تینوں پتہ لگے دا"۔۔
یہ جملہ کہتے کہتے میری آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور میں ابا جی کا کرب اور تکلیف اپنے سینے میں محسوس کر رہا تھا۔۔