کچھ روز قبل ہمارے عزیز دوست معاذ بن محمود نے ہاتھ بارے بلاگ تحریر کیا کہ کیسے وہ ابتداء میں ہاتھ کی ساخت کے بارے سوچنے سے بے نیاز رہے۔ زندگی کا سفر جیسے جیسے آگے بڑھا ایک ہاتھ جو انکے ہاتھ میں تھا اور اب بھی ہے یعنی اہلیہ کا ہاتھ ہمہ وقت انکے ساتھ رہا۔ اچھے برے وقت میں جب کبھی ان کو کسی چیز کی ضرورت پڑی اس ہاتھ کو ہمہ وقت موجود پایا۔
آج کے دور میں ایسے ہاتھ کا میسر ہونا کسی طور بھی کسی بڑی سے بڑی نعمت سے کم نہیں۔ اور پھر وہ ہاتھ جو آپ پہ اپنا تن، من، دھن قربان کرنے کے لئے ہمہ وقت موجود ہو، بڑی سے بڑی آزمائش سے گزر جانے کے کافی ہوا کرتا ہے۔ اس ہاتھ کا ساتھ، کسی بھی انسان کی زندگی کا اہم دور ہوا کرتا ہے۔ اس ہاتھ کا ساتھ انسان کو جوانی میں میسر آتا ہے اور پھر تاوقتِ اجل ساتھ رہتا ہے۔
تحریر پڑھی، متاثر کن تحریر ہمیشہ کی طرح۔ یہ تحریر مجھے شعور سے لاشعور کی طرف لے گئی جہاں مجھے دو مزید ہاتھ نظر آئے جو کسی بھی انسان کی جوانی کی سرحد شروع ہونے سے پہلے جزو لاینفک ہوتے ہیں۔ ایسے دو ہاتھ جن کی بدولت انسان، انسان کہلانے کا حقدار ہوتا ہے۔
میں نے شعور کی وادی سے لاشعور کی گہرائی میں جو جھانکا، پہلا ہاتھ نظر آیا جو دکھنے میں اتنا مضبوط کو کسی بھی فولادی مشکل کو جب چاہے پاش پاش کردے۔ اس ہاتھ کی ساخت و بناوٹ سے لگ رہا تھا کہ کوئی مردانہ ہاتھ ہے۔ غور کیا تو اس ہاتھ کی ہیئت اور مشابہت ہو بہ ہو ابا جی کے ہاتھ والی تھی۔
ہاتھ کی مضبوطی بتا رہی تھی کہ اس نے بہت برے حالات کا نہایت مردانہ وار مقابلہ کیا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی لوہار کا ہاتھ لوہا کوٹ کوٹ کے سخت جان ہو جاتا ہے، ہاتھ کی سختی بتا رہی ہوتی ہے کہ یہ محنت کش کا ہاتھ ہے۔ ابا جی کا ہاتھ بھی زمانے کی سختیاں کوٹنے میں لگا رہا کہ یہ ہاتھ بہت سے ہاتھوں کی امید تھا۔ اس ہاتھ کی بدولت بہت سے امیدوں کے چراغ ٹمٹما رہے تھے۔
مجھے اب بھی یاد ہے کہ یہ ہاتھ کئی بار میرے بھلے کے لئے میرے چہرے پہ پیوست ہوا کرتا۔ جہاں جہاں یہ ہاتھ لگتا کئی دن اس جگہ کی رنگت بدل جاتی۔ ابا جی سے جب کبھی ہاتھ ملاتا یوں لگتا جیسے کوئی لکڑی کا ہاتھ ہو۔ ابا جی کے ہاتھ کی پشت پہ موجود جلد میں کہیں خون کی شریانیں نہ دکھتیں، لیکن جب بڑھاپا آیا انکے ہاتھ کی مضبوطی تو قائم رہی مگر شریانیں دکھنا شروع ہوگئیں، جو یہ اس بات کی چغلی کھا رہی تھیں کہ اب وقت کم رہ گیا ہے۔۔
شعور کی آنکھ نے ایک اور ہاتھ بھی دیکھا جو پہلے ہاتھ سے یکسر مختلف تھا۔ نہ ہاتھوں کی وہ مضبوطی، نہ وہ ساخت نہ گرفت۔ پہلا ہاتھ یوں سمجھیں کہ جلال ہی جلال اور دوسرا ہاتھ کرم ہی کرم۔ اس ہاتھ کی شگفتگی بتا رہی تھی کہ یہ ہاتھ میری امی جی کا ہے۔ یہ وہ ہاتھ کہ جس ہاتھ نے پہلے دن سے آج تک مجھے پالا، پوسا، کھلایا، سر پہ دستِ شفقت بن کہ پھرا۔
اس ہاتھ میں وہ تاثیر ہے کہ آج تک اس ہاتھ کا بنا سالن اور پراٹھے کا کوئی ہاتھ مقابلہ نہ کرسکا۔ جب کبھی طبیعت خراب ہوتی، یہ ہاتھ میری خدمت کے لئے آموجود ہوتا۔ ایسا ہاتھ کہ ایک بار آپ کے ہاتھ میں آئے تو ہاتھ چھوڑنے کا دل بھی نہ کرے۔
ایک بار ابا جی نے امی جی کو کہا کہ تنزیل تم سے ذیادہ پیار کرتا ہے، جب بھی دفتر سے آتا ہے تمہیں چومتا ہے اور مجھے فقط سلام لیتا ہے۔ تب سے جب تک وہ حیات رہے میرا معمول یہ رہا کہ جب بھی دفتر سے واپس آتا، ان سے ہاتھ ملاتا اور پھر اس ہاتھ کی پشت پہ بوسہ دیتا۔ اس عمل کے فوراََ بعد جب ابا جی کے چہرے کی جانب نگاہ کرتا تو وہ ایک پدرانہ مسکراہت سے نوازتے۔
دوسری طرف دفتر سے واپسی پہ چاہے کتنا ہی سر درد ہو رہا ہو، امی جی کی گود میں سر رکھ دیتا ہوں، پھر یہ ہاتھ جب امی جی میرے بالوں میں پھرتی ہیں جیسے کوئی جادو ہوجاتا اور میرا سر درد ختم ہو جاتا۔ جب تک کسی کام کے لئے جانا نہ پڑے ایسے ہی لیٹا رہتا۔
میرے لئے یہ دونوں ہاتھ بوسہ گاہ رہے۔
میری زندگی کا تیسرا ہاتھ، میرا ہم عمر ہی ہے۔ یہ ہاتھ میری شریکِ حیات کا ہے۔ میں جتنا لاپرواہ اور لابالی پن کا شکار بندہ ہوں، یہ ہاتھ اتنا ہی خیال کرنے والا۔ جب سے ابا جی کا ہاتھ مجھ سے بچھڑا ہے اب ان دو ہاتھوں کی بدولت زندگی گزر رہی ہے۔ یوں کہہ لیجئے ابا جی کا ہاتھ جب سے سر سے اٹھا اور میرے سر پہ یتیمی کا تاج رکھا گیا، ان دو ہاتھوں نے مجھے گرنے سے بچا لیا۔ زمانے کی تلخ اور نشتر آمیز ہواؤں نے کب کا میرا سینہ شگافتہ کر دیا ہوتا اگر یہ دو ہاتھ ہر وقت موجود نہ ہوتے۔ یہ دونوں ہاتھ گہرے سے گہرے زخم پہ اکسیر مرہم کا کام کرتے۔
آپ سے فقط اتنی ہی گزارش کہ ان تین ہاتھوں کی قدر ان کی زندگی میں ہی کیجئے کہ آپ ان تین ہاتھوں کا احسان نہیں اتار سکتے۔
مولا کریم آپ کو آسانیاں عطاء فرمائیں اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطاء فرمائیں۔