حکومت وقت سے اچھی امید رکھتے ہیں ہر جلسے محفل میں مدینہ کی ریاست کے تصور کا ذکر کیا جاتاہے مسلمان جب بھی مدینہ یا مدینے والے کی بات سنے گا اس کی طبیعت جذبہ ایمانی سے چمک اٹھے گی مدینے کی ریاست سے تو مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلمانوں نے بھی امان پایا وہ بھی مدینے والے کے دیوانے تھے ذرا سوچو کیسا تصور ہوگا اس تصور کو سوچنے پر بھی دل کو سکون ملتا ہے اگر پاکستان مدینے کی ریاست کی طرز کا بن جائے تو سارے ظلم اور عوام کے غم ختم ہو جائیں گے اور اسلام کا بول بالا ہو گا حقیقی تصور کے لئے اب سربراہ کے اقدامات کی ضرورت ہے کیا حکومت وقت نے وہ اقدامات کیے ہیں جس سے مدینہ کی ریاست کا تصور پورا ہو سکے پچھلے آٹھ ماہ سے مہنگائی بلندترین سطح پر پہنچ چکی ہے کرپشن حکمرانوں کا شیوا بن چکی ہے ادارے بغیر کسی جرم کے لوگوں کو سزا وار بنا رہے ہیں عدل پیسوں میں بک رہا ہے ہسپتالوں میں انسان کو جانوروں کی طرح مارا جا رہا ہے تھانوں میں غریب کی سنوائی نہیں روڈوں پر قانون نہیں اقراء پروری کا دور ہے کرپشن ہر فرد کے اندرسراعت کر چکی ہے یو سی سے لے کر میں میر تک کا نظام کرپشن میں ڈوبا ہوا ہے غریب روٹی کے لئے مر رہے ہیں غربت کے مارے لوگ مدینے کی ریاست کے تصور کو اپنی زندگی میں دیکھنا چاہتے ہیں عوام عمر بن عبدالعزیز جیسا لیڈر چاہتے ہیں عمر بن عبدالعزیز نے حکومت ملنے کے بعد انتظار نہیں کیا تھا بلکہ عوام کی بہتری کے لیے اقدامات کیے بنوامیہ قبیلہ تین براعظموں کی سلطنت کے مالک تھے عمر بن عبدالعزیز نےعوامی خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کیا اور اپنی بیوی حضرت فاطمہ بنت عبد المالک سے ان کے حقوق معاف کروائیے فاطمہ بنت عبدالمالک ایسی سیاسی شخصیت تھی جنہوں نے 7 بادشاہوں کی سلطنت کی شہزادی رہیں تاریخ میں ایسی کوئی خاتون نہیں ہے جس نے اس طرح کی زندگ گزاری جب عمر بن عبدالعزیز کے نکاح میں آئیں توغربت ان کے گھر کے چوکھٹ پر تھی حضرات اپنی سلطنت سے صرف تنخواہ لیتے تھے اس تنخواہ میں 12 بچوں کی پرواش کرتے تھے دو سال دو مہینے فاطمہ بنت عبدالمالک نے اپنے تمام حقوق حضرت عمر بن عبدالعزیز کو معاف کردئیے تھے حضرت سارا دن مسلے پر اللہ کو یاد کرتے اور عوامی خدمت کرتے تھے حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دور میں نہ کوئی غریب رہا نا ظالم اور نہ مظلوم چور اور بھیک مانگنے والے بھی خوشحال ہو گئے عمر بن عبدالعزیز کا ایک مثالی دور تھا مدینہ کی ریاست بنانے کے لئے پاکستان کو عمر بن عبدالعزیز جیسا لیڈر چاہیے سلمان وحید اور عبدالمالک نے بھی سلطنت بنو امیہ پر حکومت کی مگر ان تینوں رہنماؤں نے اپنے من کو راضی کیا اور عوام ظلم کی چکی میں پس رہی تھی آج وہی حال پاکستان کا ہے جس میں حکمران اپنے آپ کو مطمئن کر رہے ہیں اور عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہی ہے پی ٹی آئی کے رہنما فرماتے ہیں کہ ہمارا ابھی وقت ہی کیا ہوا ہے۔ ہماری حکومت کو صرف 8 ماہ ہوئے ہیں پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا وقت ہے جس میں عدلیہ عسکری اور سیاسی رہنماؤں کو اللہ نے ایک نقطہ پر اکٹھا کیا ہے عمران خان صاحب اب بھی وقت ہے آپ آگے بڑھو حق اور سچ کے فیصلے صادر کرو ریاست مدینہ کے اصولوں کو لاگو کرو ماضی میں ہونے والے غلط فیصلوں پر پشیمان ہونے سے بہتر ہے آنے والے فیصلوں کو مدینے کی ریاست کے مطابق کرو عمل کو شروع کرو اور غریب عوام کے اوپر ہونے والے مہنگائی کے طوفان کو روکو مہنگائی سے ملک میں بے حیائی جنم لے گی حیا اور ایمان ایک ساتھ نہیں رہ سکتے جب ایمان نہیں ہوگا پھر مدینہ کی ریاست کا تصور نہیں ہوگا پوائنٹ سکورنگ سے مدینہ کی ریاست نہیں بنے گی امیر اور غریب میں بڑھتا ہوا فرق بغاوت کو جنم دے گا وہ حکم صادر کرو جس میں میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں اضافہ ہو مغربی دنیا کی پیروی کرنے سے مدینہ کی ریاست کا تصور مشکل ہو گا ظلم کی تاریخ ہمیشہ سیاہ ہوتی ہے عمران خان صاحب دیکھ لو پاکستان کو کونسی تاریخ کا حصہ بنانا ہے اللہ نے اختیار اور پاور آپ کو نصیب کی ہے۔ وقت کم ہے اور کام زیادہ ہیں۔