حسین جس کو اذن دے دیں اس کا کلام آجائے اور کائنات میں گھومنے لگے۔ یہ بات بہت کم لوگوں کے علم میں ہے کہ "گھبرائے گی زینب" کے لکھنے والے ایک ہندو شاعر چھنو لال دلگیر تھے۔ سال پیدائش 1198 ہجری مطابق 1783ء، وفات 1264 ھ مطابق 1847ء۔ دلگیر کے والد کا نام منشی رسوا رام تھا۔ بزرگوں کا وطن شمس آباد تھا۔ دلگیر کی ولادت لکھنؤ میں ہوئ۔ غزل میں"طرب" تخلص اختیار کیا۔
جب مرثیے کہنا شروع کيے تو اپنی غزلوں کا دیوان "گومتی" لکھنؤ کے دریا میں بہا دیا۔ مرثیوں کی 7 جلدیں ہیں اور ہمارے پاس 150 مرثیے دستیاب ہیں۔ دلگیر کا پلڑا اس زمانے کے تین نامور مرثیہ گو میر خلیق (والدِ انیس)، میر ضمیر (استادِ دبیر) اور مرزا فصیح سے کسی طرح کم نہ تھا۔ دلگیر کی کوئی عکس تصویر نہ مل سکی اور نہ کسی کتاب میں حلیہ لکھا گیا سو ہم نے ایک خیالی تصویر استعمال کی ہے۔
مصطفیٰ ﷺ نے انہیں بیٹوں کی طرح پالا تھا
گو کہ تب جیتے تھے عمران پدرِ شیرِ خدا
بخشیں شبیرؑ کو خالق نے بہتّر سپریں
تھے فقط مالک اشتر سپرِ شیرِ خدا
رو کے فرمایا ترائی ميں پڑا ہے میرا شیر
پڑی عباسؑ پہ جسدم نظرِ شیرِ خدا
کیوں نہ ہو صاحبِ اکسیر سے بہتر دلگیرؔ
ہاتھ آجائے اگر خاکِ درِ شیرِ خدا
مرزا دبیر کو دلگیر سے بڑی محبت تھی اور بڑی قدر و منزلت سے دیکھتے تھے۔ شاد عظیم کہتے ہیں"دلگیر کی دو باتیں مجھے حیرت میں ڈال دیتی ہیں۔ وہ خاندانی ہندو تھے مگر مرثیوں میں بین اور شہادت کے بیان میں مسلمانوں کی رسومات، محاورے اور مستورات کی باتیں ایسے لکھتے تھے کہ تعجب ہوتا ہے"۔ شاد ایک بہت اچھے شاعر گزرے ہیں پر یہ مذہب کی نہیں بلکہ محبت اور عقیدت کی روشنی کی بات ہے۔
اس کو مجرا جسے قسمت نے سنبھلنے نہ دیا
گود میں بانو کی معصوم کو پلنے نہ دیا
ماں کو ارمان تھا پاؤں چلے اصغر میرا
گھٹنیوں بھی اسے تقدیر نے چلنے نہ دیا
شاہ دیں قاصدِ صغرا کو جو رخصت کرتے
اتنا وقفہ بھی انہیں پیکِ اجل نے نہ دیا
22 سال کی عمر میں دلگیر کا شمار ممتاز شعرا میں ہونے لگا۔ پانی پت، سونی پت سے تا بہ سادات باہرہ اور مظفر نگر اور سہانپور کی مجالس میں دلگیر کے مرثیے میر انیس کے کلام کے طور پر پڑھے جاتے تھے اور بہت سے مصرعے ضرب المثل کے طور پر بولے جاتے تھےمثلا"
گزرِ منزلِ تسلیم و رضا مشکل ہے
سہل ہے عشقِ بشر، عشقِ خدا مشکل ہے
وعدہ آسان ہے، وعدے کی وفا مشکل ہے
جن کے رتبے ہیں سوا ان کو سوا مشکل ہے
یہ فقط امر ہوا فاطمہؑ کے جانی سے
مشکلیں جتنی پڑیں جھیلی وہ آسانی سے
ہندوستانی معاشرت
===========
عقد کبری، سے ہوا جب قاسمِ نوشاہ کا
اور ہوا بیت الشرف میں عقد مہر و ماہ کا
تخت کی شب کو ہوا انجام یہ اس ماہ کا
صبح دولہا ہوگیا عازم عدم کی راہ کا
غم سے شہزادے کے غمکش شہزادی ہوگئی
شیون و غم سے مبدل اس کی شادی ہوگئی
رو رہی تھی مادرِ قاسم جو با آہ و بکا
اس طرح اسباب بھی رکھا نظر اس کو پڑا
نیمچا چھوٹا سا تھا جو اس بنے کے ہاتھ کا
خون سے تر تھا یہ نوشاہ ہی کا ملتا تھا پتا
اور جو اس نوشاہ کی سسرال کا رومال تھا
خاک سے آلودہ تھا سب اور لہو سے لال تھا
ان کا ایک شاہکار مرثیہ "مرکبِ شبّیر جب راکب سے خالی ہوگیا" ہمارے خاندان میں پڑھا جاتا ہے۔ ایسے مرثیے کم ہی دیکھے گئے جہاں ذوالجناح کی بعد شہادت امام عالی مقام خیموں میں بیبیوں سے ملاقات اور رسول اکرمۖ کی بیٹیوں اور بہووں کے بین ہوں
زینبِؑ خستہ جگر کا منہ تھا اس کی یال پر
لیتی تھی کلثومؑ گھوڑے کی بلائیں سر بسر
کہتی تھی بانو رکابوں سے لگا کر چشمِ تر
میرا والی ہے کہاں اسور تیرا ہے کدھر
بیچ میں گھوڑے کو لے کر ایک حشر کا عالم ہوا
بیبیوں میں پہلے حلقہ باندھ کر ماتم ہوا
پیٹنے سے جب کہ بیووں کے قیامت ہوگئی
ناگہاں عابدؑ نے اپنی آنکھ غش سے کھول دی
بولا یوں چلا کے وہ بیمار اے زینبؑ پھوپھی
پیٹتے ہیں سب یہ لاش آئی ہے کس مظلوم کی
رو کے بولی وہ تیرے بابا نے سر کٹوایا ہے
گھوڑا خالی سبطِ پیمبرۖ کا رن سے آیا ہے
سن کے یہ رونے لگا بیمارِ دشت کربلا
مادر باقرؑ سے فرمایا کہ لا میرا عصا
زوجۂ بیمار نے لا کر عصا جسدم دیا
تب عصا کو تھام کر اٹھا وہ غم کا مبتلا
کلمۂ تکبیر کو با چشمِ تر کہتے ہوئے
پاس گھوڑے کے گئے ہائے ہائے پدر کہتے ہوئے
رجز
ملبوسِ جسمِ انبیا اب ہے میرے زیبِ بدن
معراج میں پہنے تھے یہ محبوب ربِ ذوالمنن
عمامۂ یعقوبؑ ہے یوسفؑ کے تن کا پیرہن
یہ ہے قبائے مرتضیؑ' یہ ہے کمر بندِ حسنؑ
اب صحب تطہیر ہے زینبؑ بجائے فاطمہؑ
سر پہ میری ہمشیر کے ہے ردائے فاطمؑہ
ڈاکٹر سید منظر حسین کاظمی نے شکوہ کیا ہے کہ دلگیر کو وہ مرتبہ نہیں ملا جس کے وہ مستحق تھے۔ وہ لکھتے ہیں"زبان اور طرز ادا میں انفرادیت کے باوجود لکھنؤ کی شاعری میں دلگیر کا تذکرہ میر خلیق سے کم ملتا ہے۔ میر خلیق کو فنی حیثیت دی جائے تو ان کا نمبر دلگیر کے بعد آئے گا" دلگیر کے مرثیوں میں بین، رخصت اور ماجرا کثرت سے ملتا ہے۔
بقول اکبر حیدر کاشمیری کے دلگیر نے بادشاہ غازی الدین کے اوائل عہد 1814ء میں اسلام قبول کیا اور اسلامی نام غلام حسین رکھا۔ ان کے مرثیے "یوں روایت ہے سکینہ کو امیر شام نے" میں دلگیر کا نام غلام حسین درج کیا گیا ہے۔ دلگیر کے نام کو اللہ نے آج تک زندہ رکھا۔ دلگیر نے شام غریباں کے منظر کو تصور کرتے ہوئے ایک سلام لکھا جو اس خطے میں منعقد ہونے والی ہر مجلس شام غریباں کا لازمی جزو بن گیا۔ لکھنو میں یہ کلام ہمیشہ پڑھا جاتا تھا لیکن پچاس کی دہائی میں مرحوم ناصر جہاں نے اس کلام کو مختلف طرز سے پڑھ کر اسے ہمیشہ کیلئے مجلس شام غریباں سے منسوب کردیا۔ کہاں یہ آواز نہیں گونج رہی عاشور کے دن؟
گھبرائے گی زینبؑ، گھبرائے گی زینبؑ
بھیا تمہيں گھر جا کے کہاں پائے گی زینبؑ
کیسا یہ بھرا گھر ہوا برباد الہی کیا آئی تباہی
اب اس کو نہ آباد کبھی پائے گی زینبؑ
گھر جا کے کسے دیکھے گی قاسمؑ ہیں نہ عباسؑ
اکبرؑ سے بھی ہے آس، اپنے علی اصغرؑ کو کہاں پائے گی زینبؑ
پوچھیں گے جو سب لوگ کہ بازو پہ ہوا کیا
یہ نیل ہے کیسا، کس کس کو نشاں رسّی کے دکھلائے گی زینبؑ
پھٹ جائے گا بس دیکھتے ہی گھر کو کلیجہ
یاد آؤ گے بھیا، دل ڈھونڈے گا تم کو تو کہاں پائے گی زینبؑ
بے پردہ ہوئی قید بھی خواہر نے اٹھائی
پر موت نہ آئی، کیا جانیے کیا کیا ابھی دکھ پائے گی زینبؑ
گھبرائے گی زینبؑ، گھبرائے گی زینبؑ