میں اور میرے دوست ایک دوسرے سے بہت مزاق کیا کرتے ہیں۔ فارغ وقت میں ہم سب کسی پارک میں یا کہیں اور بیٹھ کے گپ شپ لگاتے رہتے ہیں میرے اکثر دوست راولپنڈی سے تعلق رکھتے ہیں وہ اکثر مجھ سے پوچھتے ہے یار غنی بھائی اپنے علاقے کے بارے میں بتاؤ نا سنا ہے گلگت بلتستان بہت خوب صورت علاقہ ہے۔ میں بڑے فخر سے کہتا ہوں!ہاں یار گلگت بلتستان کی تو بات ہی کچھ اور ہے اللہ نے تمام دنیا کی خوبصورتی گلگت کو دی ہے آپ یوں سمجھ لیجئے کہ گلگت بلتستان دنیا میں جنت کا ایک ٹکڑہ ہے پھر میں اپنے علاقے کی تعریفوں کے پل باندھنا شروع ہو جاتا ہوں۔ لیکن آج میرے زہن میں اچانک ایک بات آگئی کہ واقعی میں اللہ نے گلگت بلتستان کو ہر نعمت سے نوازا ہے کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ دنیا کے حسین وادیاں گلگت بلتستان میں ہیں۔ پاکستان کی بڑی بڑی آبشاریں یہاں ہیں۔ دنیا کی دوسری بلند چوٹی کے ٹو سکردو میں ہے، پاکستان کی دوسری بڑی چوٹی نانگا پربت دیامر میں ہے۔ ایشیاء کے تین عظیم پہاڑی سلسلے کوہ ہندوکش، کوہ قراقرم، اور کوہ ہمالیہ کے سر جگلوٹ میں ملتے ہیں۔ پاکستان کی سب سے بڑا دریا، دریا سندھ جس سے سندھ اور پنجاب کی زمینیں آباد ہے گلگت بلتستان سے جاتا ہے۔ اس دریا کے علاوہ پورے گلگت بلتستان میں ہزاروں چھوٹے دریا اور موجود ہے دنیا کی سب سے اونچی جگہ دیوسائی گلگت بلتستان میں ہے۔ چین اور پاکستان ملانے کا واحد زریعہ گلگت بلتستان ہے سی پیک منصوبے کا گیٹ وے گلگت بلتستان ہے۔
پاکستان میں ڈرائی فروٹ کا سب سے زیادہ پیداوار یہاں ہوتی ہے فارن ممالک کے سیاح پاکستان آتے ہے تو صرف گلگت بلتستان کے تاریخی جگہوں کو دیکھنے آتے ہیں شاہرہ قراقرم جو کہ چین اور پاکستان کو ایک دوسرے سے ملاتا ہے دنیا کا ایک عجوبہ ہے التیت اور بلتیت فورٹ جوکہ نو سو سال پرانے تاریخی مقامات ہنزہ میں ہیں۔ میں آپکو کیا کیا بتاؤ۔ کیونکہ اللہ نے گلگت بلتستان کو تمام قدرتی وسائل سے مالامال کیا ہے آب آپ سوچ رہے ہونگے کہ واقعی یہ خطہ تو دنیا کا امیر ترین خطہ ہوگا اور یہاں کے لوگ بہت پڑھے لکھے ہونگے اور دنیا کی ہر آسائیش ان لوگوں کے پاس ہوگی۔ واقعی ہونا تو ایسا ہی چاہیے۔ لیکن ایسا بالکل بھی نہیں کیوں نہیں ہے آگے پڑھ لیجے گا۔ میرے بھائی گلگت بلتستان ان سب چیزوں کے ہونے باوجود سب سے پیچھے کیوں ہے وہ اس لئے کہ سب سے پہلے تو گلگت بلتستان کے حکمران نااہل ہے ان پڑھ ہے اپنا حق کسی سے نہیں مانگ سکتے بس نام کی حکمرانی ہے کام کی نہیں۔ ان نااہل حکمرانوں کی وجہ سے گلگت بلتستان آج ہر قسم کے مسائل کا شکار ہے یہاں نہ تعلیمی نظام اچھا ہے نہ ہیلتھ کا نظام اور نہ کوئی اور نظام یہاں ٹھیک ہے یعنی عام لفظوں میں یہ کہہ سکتے ہیںکہ یہاں نوے فیصد لوگ جانوروں سے بھی بدتر زندگی گزار رہے ہیں پاکستان کا تعلیمی نصاب دنیا سے ساٹھ سال پیچھے ہے اور میرے خیال سے گلگت کا تعلیمی نصاب دنیا سے سو سال پیچھے ہے اب یہاں تعلیمی نظام ہی ایسا ہوگا تو علاقہ کیا خاک ترقی کریگا۔ لیکن اسکے ساتھ ساتھ گورنمنٹ آف پاکستان یعنی وفاقی حکومت بھی اسکا زمدار ہے وفاق نے گلگت کے لئے کوئی ایسے اقدامات ہی نہیں کئے جس لوگ آگے بڑھ سکے۔
پاکستان گلگت بلتستان کا حق اگر صحیح طرح دے تو گلگت کا ہر فرد امیر ترین بن سکتا ہے گورنمٹ آف پاکستان ایسے اقدامات کرے کہ یہاں کے لوگ اپنی مصنوعات جیسے لکڑی کے برتن،فرنیچر،کپڑوں کی دستکاری، قیمتی پتھر، اور ڈرائی فروٹ پاکستان کے علاوہ اور ممالک کو بھی اکسپورٹ یعنی فروخت کر سکے اور زرمبادلہ کما سکے اور دنیا میں اپنا ایک پہچان بنا سکے۔ اسکے علاوہ بجلی کی بات کریں تو اس وقت پاکستان بھر میں لوڈشیڈینگ ہورہی ہے پاکستان کو اس وقت چوبیس ہزار میگاواٹ بجلی کی ضرورت ہے اور اس وقت پاکستان میں سولہ ہزار میگاواٹ بجلی موجود ہے پھر بھی دن میں آٹھ گھنٹہ لوڈشیڈینگ ہورہی ہے لیکن صرف گلگت بلتستان کی پانی سے دولاکھ میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے جس سے پاکستان جیسے پانچ ملک اور بھی چل سکتے ہیں لیکن یہ سب پاکستان اور گلگت بلتستان گورنمنٹ کی سستی اور نااہلی کی وجہ سے ضائع ہورہا ہے۔ خود در در کے ٹھوکریں کھاتیں رہتے ہیں۔
اگر گلگت جیسا علاقہ کسی اور ملک کے پاس ہوتا تو وہ آج اپنا ایک الگ پہچان بنا چکا ہوتا۔ عمران خان کی ایک بیان میں نے سنا ہے اس میں وہ کہتے ہے کہ سنگاپور سے گلگت بلتستان ہزار درجہ بہتر ہے اور خوب صورت بھی لیکن وہاں گورنمنٹ نے سنگاپور کو بنایا ہے اس سے فائدہ اٹھا لیا لیکن یہاں پاکستانی گونمٹ سوئی ہوئی ہے کوئی اقدامات نہیں کررہی اور جنت جیسا علاقہ کو وہ مقام نہیں ملا جو اسے ملنا چاہئےتھا اور دنیا کہ امیر ترین خطہ ہونے کے باوجود غریب ترین ہی رہا۔