شوکت رفتہ کہتے ہیں۔۔
زمیں دیکھی فلک دیکھا قمر دیکھا
جھلک تیری نظر آئی جدھر دیکھا
جو چھپ کر ہے عیاں ہر جا فقط تو ہے
ملیں جس کے نشاں ہر جا فقط تو ہے
وہ حمد، نعت اور غزل کے شاعر ہیں۔ یہ اشعار نہ صرف شاعر کی فکری گہرائی کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ ان کی ادبی مہارت کا بھی آئینہ ہیں۔ شوکت رفتہ کی حمد شریف میں خدا کی عظمت، قدرت اور موجودگی کی بہترین عکاسی کی گئی ہے۔ حمدیہ اشعار میں تخلیق کائنات کی خوبصورتی اور اس میں خدا کے وجود کی جھلک کو بڑے ہی دلکش انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
شاعر نے زمین، فلک، قمر اور دیگر کائناتی عناصر کو خدا کی قدرت کے مظاہر کے طور پر شاعری میں شامل کیا ہے۔ شاعر کا یہ انداز فکر علامہ اقبال کے تصورِ خودی اور قدرتی مظاہر سے متاثر معلوم ہوتا ہے۔ ان کے اشعار میں سادگی اور روانی کے ساتھ الفاظ کا انتخاب بھی عمدہ ہے۔ "جو مردے کو کرے زندہ وہی رب ہے" جیسا مصرع خدا کی ذات کے احیا بخش پہلو کو اجاگر کرتا ہے۔
بحر کی روانی اور قوافی کی مطابقت اشعار کو دلکش بناتی ہے۔ "نظر آیا، جدھر دیکھا" جیسے مصرعے تکرار کے ذریعے خدا کی ہر جگہ موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔
ان کی نعت محبت رسولﷺ اور عشق مصطفیٰﷺ کی ایک خوبصورت مثال ہے۔ یہ اشعار نبی اکرمﷺ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ولادت باسعادت کی خوشی اور اس کے روحانی اثرات کو بیان کرتے ہیں۔
شاعر نے ولادتِ رسولﷺ کو نورِ خدا کی آمد سے تعبیر کیا ہے اور اس نور کو دنیا کے اندھیروں کے خاتمے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ "اندھیرے چھٹ گئے، روشن خزینہ آ گیا ہے" جیسا مصرع ایمان افروز ہے۔ نعت کے اشعار میں سادگی کے ساتھ ساتھ جذبات کی شدت بھی نمایاں ہے۔ "لگائی لو مدینے سے، تو جینا آ گیا ہے" جیسے مصرعے عاشقانہ وارفتگی کا مظہر ہیں۔
شاعر کا اسلوب سادہ مگر دلکش ہے۔ عشقِ مصطفیٰﷺ کے اظہار میں شاعر نے ذاتی تجربے کو شامل کرکے اشعار کو زیادہ جذباتی اور اثر انگیز بنایا ہے۔ انہوں نے اپنی غزل میں محبت، جدائی اور زندگی کی تلخیوں کا خوبصورت امتزاج پیش کیا ہے۔ یہ اشعار نہ صرف جذباتی گہرائی رکھتے ہیں بلکہ اردو غزل کی روایت سے جڑے ہوئے ہیں۔
شاعر نے غزل میں بے وفائی، عشق کی مشکلات اور دل کے دکھ کو نہایت مہارت سے بیان کیا ہے۔ "زندگی دشت بھری ہو تو جدائی اچھی" جیسا مصرع زندگی کی تلخیوں کو قبول کرنے کا فلسفہ پیش کرتا ہے۔ غزل میں ردیف اور قوافی کا استعمال عمدہ طریقے سے کیا گیا ہے۔ اشعار میں روانی اور تسلسل ہے جو کہ ہر عمر کے قاری کو متاثر کرتا ہے۔
شاعر کا اسلوب روایتی غزل سے متاثر ہے، مگر اشعار میں موجود جذبات کی شدت انہیں منفرد بناتی ہے۔ "راکھ تک پاس نہیں چھوڑی ہوا نے رفتہ" جیسا مصرع شاعر کے درد اور ناامیدی کو واضح کرتا ہے۔
شوکت رفتہ کی شاعری میں فکری گہرائی، جذباتی شدت اور فنی مہارت نمایاں طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ ان کی حمد، نعت اور غزل تینوں میں زبان کی سادگی اور روانی موجود ہے۔ شاعر نے اپنے اشعار میں نہ صرف دینی اور روحانی موضوعات کو پیش کیا ہے بلکہ انسانی جذبات اور زندگی کی حقیقتوں کو بھی عمدگی سے بیان کیا ہے۔
یہ شاعری اردو ادب میں ایک خوبصورت اضافہ ہے اور شوکت رفتہ کی تخلیقی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے شوکت رفتہ کی شاعری سے اقتباس پیش خدمت ہے۔
حمد باری تعالیٰ
زمیں دیکھی فلک دیکھا قمر دیکھا
جھلک تیری نظر آئی جدھر دیکھا
جو چھپ کر ہے عیاں ہر جا فقط تو ہے
ملیں جس کے نشاں ہر جا فقط تو ہے
جو مردے کو کرے زندہ وہی رب ہے
سبھی کچھ ہے اسی کا تو وہی سب ہے
تری قدرت کی ہر کوئی گواہی دے
جسے چاہے تو مولا بادشاہی دے
اسی نے چاند تاروں کو ضیاء بخشی
ہوا بیمار جب میں تو شفا بخشی
نعت رسول مقبول ﷺ
محمد ﷺ کی ولادت کا، مہینہ آ گیا ہے
خدا کے نور کا دیکھو، نگینہ آ گیا ہے
بھٹکتا پھر رہا تھا میں، ابھی تک زندگی میں
لگائی لو مدینے سے، تو جینا آ گیا ہے
نبی ﷺ کے نور سے عالم، لگے یوں جگمگانے
اندھیرے چھٹ گئے، روشن خزینہ آ گیا ہے
چلے ہیں عاشقوں کے قافلے، طیبہ کی جانب
مری آنکھوں میں بھی، عکسِ مدینہ آ گیا ہے
ہوا جب سے ہوں وابستہ میں، عشق مصطفیٰ ﷺ سے
حقیقت میں تو جینے کا، قرینہ آ گیا ہے
غزل
بے وفائی نے وفا پھر بھی نبھائی اچھی
زندگی دشت بھری ہو تو جدائی اچھی
داستان عشق کی پھر بھول گیا وہ کیونکر
کتنی مشکل سے گھڑی سر پہ تھی آئی اچھی
ساتھ چلتا تو سیکھا دیتے ہنر الفت کا
ہے اسی کام میں اپنی بھی رسائی اچھی
دعوتِ عشق میں یوں ڈوب گیا من اپنا
لذتِ شوق نے پھر دھوم مچائی اچھی
بار ہستی کا بھلا کم تھا جو توڑا دل بھی
حسن والوں نے یہ محفل بھی سجائی اچھی
خاک پھر ہونے لگی کیوں ہے مری فصل گُل
پھر اجڑے کی مری باری یہ آئی اچھی
راکھ تک پاس نہیں چھوڑی ہوا نے رفتہ
اس دفعہ آگ مقدر نے لگائی اچھی