1. ہوم
  2. کالمز
  3. رحمت عزیز خان
  4. ایک روپے میں کھانا دینے والا گوتھم گمبھیر‎

ایک روپے میں کھانا دینے والا گوتھم گمبھیر‎

کیا اس مہنگائی کے دور میں سینکڑوں افراد کو ایک روپے میں کھانا کھلا سکتا ہے؟ جی ہاں یہ کام گوتھم گمبھیر نے شروع کیا ہے جو کہ انسانیت کی خدمت کی سب سے بڑی مثال ہے۔ دنیا میں ہمیشہ ایسے لوگ موجود رہے ہیں جو بے لوث ہو کر بلا رنگ و نسل و مذہب انسانیت کی خدمت میں مصروف رہے۔ تاریخ میں ہمیں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں جہاں افراد نے ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر دوسروں کے لیے کام کیا۔ ہندوستان میں مدر ٹریسا، پاکستان میں عبدالستار ایدھی اور دیگر کئی سماجی کارکن انسانیت کی خدمت کے روشن مینار بنے۔

گوتھم گمبھیر کا ایک روپے میں لوگوں کو کھانے کا منصوبہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جو کلکتہ میں گزشتہ چار سالوں سے ہزاروں افراد کو عزت کے ساتھ کھانے کی سہولت فراہم کر رہا ہے۔ اس منصوبے کے پیچھے نہ صرف بھوک مٹانے کا جذبہ ہے بلکہ یہ بھی کہنے کی کوشش ہے کہ ضرورت مندوں کو بھی عزتِ نفس کے ساتھ جینے کا حق حاصل ہو۔

انسانیت کی خدمت ایک روشن مثال مثال ہے۔ گوتھم گمبھیر نے اپنے اس جذبے سے یہ واضح کیا یے کہ وہ کھانے کو مکمل طور پر مفت نہیں بانٹتے، بلکہ اس کی ایک رسمی قیمت ایک روپیہ مقرر کی گئی ہے تاکہ کسی کو یہ احساس نہ ہو کہ وہ خیرات وصول کر رہا ہے۔ یہ ایک منفرد سوچ ہے جو معاشرتی عزت و وقار کو مجروح کیے بغیر مدد فراہم کرنے کی بہترین مثال ہے۔ اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ ان کے اس اقدام سے ہر روز تقریباً پانچ ہزار افراد مستفید ہوتے ہیں اور یہ تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ نہ کوئی مذہبی تفریق، نہ ذات پات کی رکاوٹ، بس انسانیت کی بنیاد پر سب کو برابر سمجھا گیا ہے۔ یہ وہ جذبہ ہے جس کی دنیا کو ہمیشہ ضرورت رہے گی۔

پاکستان میں اس طرز کے منصوبے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں غربت اور مہنگائی ایک بڑا مسئلہ ہے، ایسے فلاحی منصوبے کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔ عبدالستار ایدھی اور ان جیسے دیگر سماجی کارکنوں نے ملک میں فلاح و بہبود کے کئی منصوبے شروع کیے تھے جن میں مفت ایمبولینس سروس، یتیم خانے اور دستر خوان شامل ہیں۔ تاہم گوتھم گمبھیر کے ماڈل کو اپنانا ایک نیا اور مؤثر طریقہ ہو سکتا ہے، جہاں عزتِ نفس کے ساتھ صرف ایک روپیہ خرچ کرکے ضرورت مند افراد کو خوراک فراہم کی جا سکے۔

پاکستان میں فلاحی ادارے اور مخیر حضرات اس ماڈل کو اپنائیں۔ ایک روپے کی بجائے دس یا اور معمولی رقم کے عوض کھانے کی اسکیم شروع کی جا سکتی ہے تاکہ مدد حاصل کرنے والا اپنی عزتِ نفس برقرار رکھ کر کھانا کھا سکے۔

بڑے شہروں میں تجرباتی بنیادوں پر دس روپے کا کھانا دینے کی سروس کا آغاز کیا جائے لاہور، کراچی، اسلام آباد، پشاور اور دیگر بڑے شہروں میں اس ماڈل کو متعارف کروا کر اس کی کامیابی کو جانچا جا سکتا ہے۔

کاروباری ادارے اور اسٹارٹ اپس کو شامل کیا جائے۔ جیسے بھارت میں کئی بڑے کاروباری ادارے سماجی بھلائی کے کاموں میں حصہ لیتے ہیں، پاکستان میں بھی کارپوریٹ سیکٹر کو ایسی اسکیموں کی سرپرستی کرنی چاہیے۔

اس اسکیم کے لیے حکومتی سرپرستی بھی حاصل کی جائے۔ اگر حکومت انفرادی سطح پر ایسی کاوشوں کو سپورٹ کرے تو اس منصوبے کو مزید وسعت دی جا سکتی ہے۔

گوتھم گمبھیر کا ماڈل ہمیں ایک اہم سبق دیتا ہے کہ خدمتِ خلق کا جذبہ کسی سرحد یا قومیت یا مذہب کا محتاج نہیں ہوتا۔ پاکستان میں بھی اگر کوئی سماجی کارکن، کاروباری شخصیت یا فلاحی ادارہ اس ماڈل کو اپنائے، تو ہزاروں بھوکے افراد، مساکین و غریب باعزت طریقے سے پیٹ بھر کر کھانا کھا سکیں گے۔ ہمیں اس سمت میں سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے ملک میں بھی ایک ایسا نظام قائم ہو جو معاشرتی فلاح و بہبود کو عزت و احترام کے ساتھ فروغ دے۔