میں اسے کیا کہوں کہ جس عمر کو آن پہنچا ہوں وہ جھریوں کا انبار لیئے، میری گردن کا گلا گھونٹ رہی ہے۔ کمزور ہوئی جاتی نظر بے حد خاموشی سے اردگرد پھیلے بدصورت اور خوبصورت مناظر کو دھندلا رہی ہے۔ کوئی نادیدہ سا شک امید لیئے سرہانے کھڑا دیکھتا ہے جس کو بغور دیکھنے کے لیئے مجھے نظر کے چشمے کی مدد لینی پڑتی ہے۔ رات کو سوتے وقت آنکھوں میں شاید زیادہ قطرے ڈال لیتا ہوں تبھی روز صبح چلا آتا شک کسی دھانی سے کپڑے میں لپٹا کھڑا بارش میں بھیگے بھوت سا نظر پڑتا ہے۔
بستر کے پاس کچھ کہنے کے لیئے، جو روز کا معمول ہے۔ آج بھی جب میں نے زندہ ہونے کے لیئے آنکھیں کھولیں تو وہ موجود تھا۔ اس کی موجودگی میرے زندہ ہونے کی دلیل تھی۔ روز کی طرح، زندگی ہر شے میں چپھی جھانکتی تھی۔ میں نے مخصوص سی چہچہاٹ کو سنا اور آنے والے دن کے بارے میں سوچا جسے گزارنے کے لیئے، میرے جسم نے اس انرجی کو جمع کرنے کی کوشش کی جو رات کو معدوم ہوتی گئی تھی۔
نجانے کتنے دن اور طلوع ہونا رہ گئے ہیں۔ کتنے سورج، کائنات چھپائی ہوئے ہے جو روز نکلنے ہیں۔ دیوار پر زخم سی دکھتی کھڑکی ھمکلام ہے اور کمرے کی بکھری اشیاء پر روشنی پھیل رہی ہے۔ ایک خاص سی چاپ کے ساتھ، رات بھر کی چپھی تاریکی کو گدلا رہی ہے۔
آج وہ پھر کچھ تعلیمی اسناد پر دستخط کی خاطر آئے گی۔ مجھے یاد آتا ہے اور میں کسی ایسے گونگے احساس کا حصہ بنتا ہوں جو میری بے بسی ٹٹولتا ہے۔ یہ بے بسی کھڑے ہوئے پانی سی ہے جہاں زنگ آلود لوہے کے کچھ ٹکڑے پڑے مر رہے ہیں۔ کائی کی ایک پرانی، بھاری چادر اوڑھے ٹہرا پانی، دیکھنے میں مردا نظر آتا ہے لیکن ہوا اس پر حملہ آور ہوتی ہی رہتی ہے کسی تیز چونچ والے پرندے سی، وہ اس تک پہنچ ہی جاتی ہے۔
میں نے خود کو سنبھال لیا ہے۔ اکیلے پن کے اس ماحول میں، جہاں کوئی نہیں بس کچھ آوازیں ہیں۔ کبھی لگتا ہے سرسراتی سی ہوا ہے کبھی کچھ بھنبناہٹ جو مکھیوں کی خودکلامی ہے۔ سر نکالتی دھوپ کی کرنیں بہت خاموش سی دھن کی طرح بجتی سنائی دے رہی ہیں۔ رات کا چاند پھول کی طرح مرجھا چکا ہے۔ میں اسکے مرجھانے کی آواز نہیں سن سکا لیکن ایسا لگتا ہے سورج کی غراہٹ مجھے سنائی دی ہے۔ ایک بے رحم سی تازگی کے ساتھ، شام تک رہ جانے والی تیز دھوپ کی آمد کا شور لیئے موجود ہے جو سب کچھ جھلسا کر رکھ دے گی۔
آئینے میں نظر آتا چہرہ روز بروز تبدیل ہوتا نظر آتا ہے۔ کل میں نے اسے ایسے احساس کی گرفت میں دیکھا تھا جو پشیمان سی جلد سے جھانکتا تھا۔ آج کچھ اور تھا پشیمانی میں کہیں کہیں کوئی الجھن، منہ نکالتی جھریوں سے جھانکتا تھا۔ لیکن بھر بھی میں نے چہرے کو اچھی طرح صاف کیا۔ نلکے سے گدلا پانی نکلتا تھا وہی مخصوص سی بو لیئے جیسے مرے ہوئے جانور کی کھال کا رس نکل رہا ہو۔ ایسے مرے ہوئے جانور گلیوں کے کونوں پر مرے نظر آتے ہیں۔ روز ہی کوئی نہ کوئی جانور کسی بیماری کے ہاتھوں مر رہا ہے۔ جانوروں کے ڈاکٹر اس بیماری کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ میں خود بھی کچھ بیمار سا محسوس ہوتا ہوں۔ مختلف اقسام کے طبیبوں کے پاس گیا۔ ان کے پاس گفتگو کا معیار نہایت پیشہ ورانہ سا تھا اور اس فکر میں تھے کہ وہ کتنے مریض بھگتا سکتے ہیں۔ مجھے دیکھ کر وہ بہت سی بیماریوں کا ذکر کرنے لگے۔ ایک تو عجیب سا تھا۔ مجھے اسکی لالچ میں پور پور ڈوبی مسیحائی نے خوف میں مبتلا کر دیا میں نے اس کے فریب سے بھاگ نکلنے میں ہی غنیمت سمجھی اور گھر آکر سانس لی۔ میرا سانس کافی پھول گیا تھا۔ لگتا تھا دل پھٹ جائے گا۔
وہ میرے سامنے بیٹھی ہے۔ بہت سی تعلیمی اسناد لیئے جن کے لیئے اس نے زندگی کے کئی خوبصورت سال برباد کیئے ہیں۔ اس کے ہاتھ دیکھ کر مجھے کسی آبی مخلوق کا خیال آتا ہے۔ انگلیاں لمبی لمبی جیسے نومولود ملایم شاخوں کو کترا گیا ہو۔ وہ صحت مند شانوں اور بازٶں کے ساتھ کتنی واضح دیکھائی دے رہی ہے۔ میں اسناد پر دستخط کرتا ہوں۔ وہ تشکرکے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔ اسے دیکھ کر طویل قامت درختوں کا خیال آتا ہے جن کے تنے چمکدار اور مہک لیئے کھڑے ہوں۔ وہ انہیں میں سے ایک ہے۔ دور سے دیکھائی دی جانے والی کہ وہ حیران آنکھوں سے یوں دیکھتی ہے جیسے اسکے ہونٹوں کی لکیروں میں کچھ سوال ہوں، جنہیں وہ پوچھنے سے قاصر ہو۔
سوالات بہت سے ہیں لیکن وہ زبان پر آنے سے کتراتے ہیں تبھی ہونٹ بچوں کی طرح ٹوٹے پھوٹے جملے بول پاتے ہیں جیسے بے شمار سرخ پھول کھلنے سے رہ گئے ہوں۔ میں نے خود بھی سوالوں کے بغیر عمر گزاری ہے پھر بھی میرے پاس بے شمار ڈگریاں ہیں جن کے بوجھ سے میری کمر کے ایک خاص حصے میں درد یوں آن بیٹھا ہے جیسے کوئی جنگلی پرندہ مڑی ہوئی شاخ پر بیٹھا ہو۔ ویسے جب وہ وعدے کے مطابق آئی تھی تو میں اسے پہچان گیا تھا بہت سال پہلے میں اسے ابتدائی تعلیمی سالوں میں پڑھا چکا تھا۔ تب بھی وہ سب سے لمبی تھی۔ چہرے پر آنکھوں کا نقاب اوڑھے، ایسے دیکھا کرتی جیسے کچھ کھوج رہی ہو باقی نقوش چہرے پر خاموش بیٹھے دیکھائی دیتے۔ ابھی جب وہ اٹھ کر گئی تو سارے نقوش بولتے تھے جیسے صحرائی منظر میں سیراب ھمکلام ہوتے ہیں۔ جب وہ مڑی تھی تو ہوا کہ نہ ہونے کے باوجود بالوں نے کچھ کہا تھا اور بدن لہرایا تھا گویا بے شمار پرندے، جو شاخوں میں چپھے تھے سانس لیتے جاگ اٹھے ہوں۔ اس کے جانے سے کمرے نے ملگجی سی شال اوڑھ لی تھی۔
شام تنہا تھی۔ میں کوئی کتاب پڑھ رہا تھا۔ لفظوں میں جو قرار ہوتا وہ معدوم تھا۔ ویسے بھی بہت دنوں سے میں کتاب ہی پڑھ رہا تھا جو ختم ہونے کا نام نہ لیتی تھی۔ صفحے بڑھتے جاتے تھے لکھی گئی کہانی کا انجام نہ ہوتا تھا۔ تبھی میں نے موبائل بولتے سنا یہ اسی کا نمبر تھا اور اسکرین پر اس کا چہرا بار بار روشن ہوتا تھا۔ میرا بولنے کا موڈ نہیں تھا ویسے بھی رات کھڑی تھی جسکی سطح پر چمکدار چاند میری طرف ہی دیکھتا تھا۔ یہ رنگ و شکل بدلتا، چاند میں ہر رات دیکھتا ہوں جب وہ سرمئی سے آسمان پر تیرتا سا محسوس ہوتا ہے جیسے خواب میں کوئی پراسرار سی شے دیکھی جائے۔
پراسریت سے یاد آیا چاند کی پراسرایت میں کہیں کچھ ایسا ہے جو ایسے چہروں میں محسوس کیا جائے جو دیکھنے میں باتونی لگتے ہوں لیکن خاموش ہوں۔ وہ بھی کسقدر خاموش تھی لیکن خوشنما سے لباس نے اسے سب کچھ کہنے کی اجازت دے رکھی تھی لیکن اب بار بار موبائل کی اسکرین پر نظر آتا اس کا چہرا کسقدر باتونی لگ رہا ہے۔ اس گہری سیاہ پڑتی جاتی رات میں اسے کیا کہنا ہے؟ اسقدر خاموشی میں، جب صرف ہوا بولتی ہوئی خاموشی سے نبرد آزماء ہو۔ وہ کیا کہنا چاہتی ہے؟ میں انتظار کرتا ہوں لیکن اب موبایل خاموش ہے کسی گونگی حالت میں بے سدھ پڑا ہے جیسے اب نہیں بولے گا لیکن پھر بول اٹھتا ہے۔ اس بار وہ نہیں کوئی اور ہے کوئی بہت پرانا دوست جسے اجکل کوئی ناسٹلجیائی مرض لاحق ہوا ہے۔ وہ ان دوستوں کے نمبر مانگتا ہے جو زیادہ تر مر چکے ہیں۔ مجھے موت سے کوئی لینا دینا نہیں کہ جب وہ آتی ہے تو ندیدے پن کا مظاہرہ کرتی ہے۔ ایک لمحہ بھی نہیں ملتا، سب کچھ ساکت ہو جاتا ہے
مجھے سونا چاہیئے، میں ایسا سوچتا ہوں اور سامنے کھلی کتاب بند کرتا ہوں۔ شاید کوئی خواب ہے جو مجھے نہیں دیکھنا چاہیئے تھا لیکن بےبسی سے دیکھتا ہوں کہ نیند میں ہوں۔ ایسے خواب میرے پیچھے لگے ہیں، تیز بارش میں بھیگتے طویل قامت لیئے اشجار جن کی چھال شفاف اور چکنی ہے۔ لمبی شاخوں سے پانی ٹپکتا ہے۔ میری آنکھ کھل جاتی ہے۔ جسم تھکاوٹ اوڑھے، اندھیرے میں یوں پڑا ہے جیسے زندہ نہیں۔ اندھیرے میں موبائل پھر بولتا ہے۔ اسے کیا کہنا ہے۔ میں کال اٹھاتا ہوں دوسری طرف ایسی خاموشی ہے جیسے گرمیوں کی بارش کے بعد کا حبس، منہ لگائے ہو۔ شاید میرا موبائل خراب ہے۔ میں بڑبڑاتا ہوں تبھی بارش ہونے لگتی ہے یہ وہی بارش ہے جو بعد میں حبس لیئے خاموشی اختیار کرتی ہے۔ بہت دیر تک جاگنے کا عالم رہتا ہے۔ گیلی بوندیں کھڑکی کو بگھو رہی ہیں۔ چوکھٹ کی لکڑی سے عجیب سی بو آرہی ہے پھر لگتا ہے میں سو گیا ہوں جہاں اب کوئی خواب نہیں محض ایک ٹوٹی ہوئی کوئی خواہش ہے جو کسی شکل میں ڈھلنے سے قاصر ہے۔ مجھے معلوم ہے آنکھ کھلنے پر وہی ہیولا، شک کی شکل کا سرہانے موجود ہوگا۔ لیکن دیکھتا ہوں وہ جھکا مجھے گھور رہا ہے۔ میں زندہ ہوں ایک امید سی جھانکتی ہے۔
وہ پھر سامنے کی کرسی پر بیٹھی ہے شاید جلد بازی میں کچھ دستخط رہ گیئے تھے۔ اسکی لمبی لمبی انگلیاں، جن کے ناخنوں پر خون سا رنگ ٹہرا ہے، اس حصے پر رکتی ہیں جہاں مجھے دستخط کرنے ہیں۔ دستخط کرتے ہوئے وہ بتاتی ہے کہ بدیسی ملک میں اس کا داخلہ ہوگیا ہے۔ اسکے چہرے پر رات کی تھکن ہے جیسے سوئی نہیں بس جاگتی رہی ہے۔ بالوں کی ایک لٹ نے اس کے گالوں کو چھوا ہے پھر خود ہی دور ہٹ گئی ہے۔ دستخط کروانے کے بعد وہ پھر کھڑی ہوئی ہے۔ میں نے اس سے کچھ نہیں پوچھا لیکن لگتا ہے وہ چاہتی ہے میں اس سے پوچھوں کہ کل اسقدر کالز کیوں کی گیئں۔ وہ دروازے تک جا چکی ہے ایک عجیب سی چال ہے جیسے بہہ رہی ہو۔ یہ سیلابی کیفیت نہیں۔ دھیرے دھیرے منزل تک پہنچنے کی مہورت ہے تبھی وہ رکتی ہے، کل رات میں نے آپ کو کافی کالز کیں۔
ھممم۔۔
مجھے کسی کتاب کے بارے پوچھنا تھا۔
کون سی کتاب؟
کوئی کورین لکھاری ہے جس کی کتاب کا ترجمہ ہوا ہے۔
میں یاد کرتا ہوں ایک کتاب کے بارے جو شاید میرے کمرے میں موجود ہے۔۔
لیکن میرے جواب دینے تک وہ رکتی نہیں۔ وہ جلدی میں رہتی ہے۔ دیکھتا ہوں کمرہ خالی ہے۔ کچھ بھی تو نہیں محض سرمئی رنگ اوڑھے، چوہیا کچھ پرانے کاغذ کتر رہی ہے۔ باہر گرم سا دن نکلا ہے جو عام طور پر بارش کے بعد نکلتا ہے۔ میں اسی حبس کے جان لیوا جبر کو ساتھ ساتھ لیئے گھر تک آہی گیا ہوں۔ میں اب گھر کے اس حصے میں ہوں جو ہمیشہ سے مجھے تنہا لگتا ہے۔ جیسے کسی کی نا موجودگی جان لیوا ہے۔ حالانکہ وہاں کچھ گملے رکھے ہیں اور پھولدار پودے: بہت خوشبودار ہیں۔ تنہائی کا احساس اسکے بعد شروع ہوتا ہے۔ ایک خاص حصے سے جو سیڑھیاں چڑھتے ہوئے شدت اختیار کر جاتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کوئی پکار لے گا۔ کسی کی آواز کا لمس روک لے گا۔ کوئی ہنسے گا۔
کسی کے بہت تازہ ہونٹ چومے جانے کی خواہش لیئے موجود ہوں گے لیکن ایسا ممکن نہیں ہو پاتا تو تنہائی در آتی ہے ایسی تنہائی جو گہرے تاریک کنواں سے آتی آواز سی ہے یا گم جانے کا خیال جو بے رحم ہجوم کے درمیان آ جائے اسی خیال کے ساتھ کمرے میں آتا ہوں جہاں کتابیں، بستر، کچھ تصویریں اور کھڑکی کا زخم دیکھائی دیتا ہے۔ یہ تصویریں کسی کی ہیں جو جاتے وقت چھوڑ گیا۔ کچھ کتابیں بھی جن کے صفحوں پر اس کی انگلیوں کی خاص مہک نے قبضہ کر رکھا ہے۔ یاد کروں تو عجیب سے ہاتھ تھے جن پر ہر کتاب سجتی جیسے اس کے ہاتھ ہر شے کو خوبصورت بنانے کی ایسی تاثیر رکھتے تھے کہ ہر شے نکھر جایا کرتی تھی۔ گہری، لمبی لمبی آنکھوں میں ایسے خوشنما راستے دیکھائی دیتے جنہیں سائے کی خواہش ہوتی۔
ایک دن اسے میں نے رنگوں کی دوکان تک چھوڑا پھر اسی شام، وہ ویران راستوں سے گھر آئی۔ دیکھا ڈری ہوئی، سہمی سہمی سی، آتے ہی کہنے لگی۔ میں راستہ بھول گئی تھی وہاں عجیب سے درخت تھے اور چمگادڑیں شور مچاتی تھیں۔ بعد کے آنے والے دنوں میں بیمار سی لگنے لگی مری مری سی آنکھوں سے کچھ دیکھتی رہتی۔ گورے چمکدار ہاتھ زرد ہونا شروع ہوئے اور پٹھوں کا گوشت سکڑتا گیا اور کچھ ہی دنوں میں وہ جسمانی تعلق کے بھی قابل نہ رہی۔ اس کی مغرور چھاتیاں، اعتماد کھو چکی تھیں۔ نجانے کیا دیکھ آئی تھی کہ رات رات بھر جاگا کرتی جیسے نیند کوئی دلدل ہو۔ ایک رات میں نے اسے کھڑکی سے باہر جھانکتے دیکھا وہ کچھ عجیب سی دیکھائی پڑتی تھی میرے پکارنے پر چونکی۔۔
بہت اندھیرہ ہے باہر، راستے سجائی نہیں دیتے۔
درختوں کی چھال رینگتے ہوئے بچھو سی، وہ بات پوری نہ کرسکی تھی۔ لکنت سی اسکی زبان کی نوک سے جھانکتی تھی۔۔
ایک برے سے دن میں کہنے لگی، میرے جانے کے دن آ گئے۔
میں بہت دنوں سے عجیب سے خواب دیکھ رہی ہوں۔
مجھے سونے سے ڈر لگتا ہے۔
پھر ہم لپٹ کر رونے لگے تھے۔ وہ مجھ میں سما جانے کی کوشش کرنے لگی جیسے کوئی خوف لاحق ہو۔ مردہ ہوئی جاتی آنکھوں میں رکھا ہو۔ اسکے سکڑتے جسم سے لپٹ کر۔۔
محسوس ہوا تھا وہ کیسے خواب دیکھتی رہی ہے؟ جو اس کا خون چوس چکے ہیں۔ وہ آخری رات کا آخری خواب تھا جسے دیکھتے دیکھتے وہ سوتی ہی رہ گیئی تھی یہاں تک کہ صبح بھی اسے اٹھا نہ سکی۔ اس کی تدفین میں کچھ ہی لوگ شامل ہو سکے۔ میرے قریبی دوست، کچھ فرصت زدہ محلے دار جو بارش کی تیزی کو برداشت نہیں کر پا رہے تھے۔ کوئی بھی رشتہ دار، یہاں تک کے اسکی بوڑھی ماں بھی نہ آسکی کہ شدید بارشوں نے اردگرد کے مضافاتی علاقوں سے شہر پہچنا نا ممکن بنا دیا تھا۔ خوشبو دار جسم جب تعفن کی بدولت برداشت سے باہر ہونے لگا تو تدفین کی گئی۔ وہ مجھے چھوڑ کر ایسے گئی جیسے کھال، ہڈیوں سے جدا ہو اور بے معنی ہڈیاں یہاں وہاں بکھری ہوں۔۔
کمرہ بکھرا ہوا سب دیکھ ریا ہے۔ میری حالت سے واقف ہے پھر اس آواز سے چونکتا ہے جو موبائل سے آرہی ہے۔ وہی ہے، اسکی تصویر جو کہیں تیز دھوپ میں کھنچی گئی یو گی، چمک رہی ہے۔ میں کال اٹھاتا ہوں۔۔
کیا آپ کو وہ کتاب ملی۔
ہاں، سامنے ہی رکھی ہے۔
کیا میں لے جاٶں کسی دن آکر۔
میں کوئی جواب نہیں دیتا۔
کسی دن بھی، جب بارش نہ ہو رہی ہو۔
کل بارش کی وجہ سے بھیگ گئی تھی۔۔
دوسری طرف، وہ مسلسل بول رہی ہے۔ آواز میں بے پناہ بادلوں کے رنگ ہیں، جو چھوٹی اور موٹی بوندوں سے بھرے ہیں۔۔
میں خاموش ہوں۔ محسوس کر سکتا ہوں کہ اس خاموشی میں سنائی دیتا شور، بے رحمی سے میرا پیچھا کرتا ہے- میں اس شور کا عادی ہوں۔۔