تو صاحب بات کُچھ یُوں ہے کہ اب ہم کافی حد تک جوان ہوچُکے ہیں اورہماری عمر شادی جیسے اِنتہائ نامُناسب کام کے لیے اِنتہائ مُناسب ہوچُکی ہے- ویسے تو صاحب ہم نے اپنے قریبی 'شادی زدہ' افراد کے تجربات سے سیکھتے ہوۓ تا حیات کنوارا رہنے کی قسم کھائی تھی، مگر زندگی کے ایک نازُک موڑ پر ایک نازُک خاتُون ہماری نازُک مِزاج طبعیت سے کُچھ یُوں ہم آہنگ ہو گئیں کہ نہ چاہتے ہوۓ بھی ہم نے اپنی بقیہ تمام زندگی اُن کے ساتھ گُزارنے کا فیصلہ کر ڈالا- تو صاحب چُوں کہ ایک مہذب معاشرے میں ایک مرد اور عورت کے مُستقل رِشتے کو'شادی'کہتے ہیں، لِہٰذا ہم نے بھی شادی کا پُرخطر فیصلہ کرتے ہُوۓ تا حیات'شادی شُدہ ' رہنے کی اُمید باندھ لی ہے-
تو صاحب چُوں کہ ہمارے معاشرے میں شادی بیاہ کے تمام تر معاملات بڑوں کے ہاتھوں انجام پاتے ہیں، لِہٰذا آج کل ہمارے بڑے بھی ہماری ہر منشا کو بالاۓطاق رکھتے ہُوۓ بڑی گرم جوشی سے ہماری شادی کی تیاریُوں میں کُچھ ایسے مصروف ہیں جیسےفلاحی کارکُن سیلاب زدگان کی آباد کاری میں مصروف ہوتے ہیں- تو صاحب جِس طرح 1947 میں برِصغیر کے مسلمانوں کا بنیادی نصب العین ایک خود مُختار اِسلامی رِیاست حاصِل کرنا تھا، بالکُل اُسی طرح ہمارے بڑوں کا بنیادی نصب العین اُن تمام رسموں اور رواجوں پر پُوری خُوش اصلوبی سے عمل درامد کرنا ہے جو اِس معاشرے میں مذہب سے بھی کئی درجہ زیادہ اہمیت کے حامِل ہیں- آج کل ہمارے بڑوں کی زبان سے کُچھ اِس قسم کے جُملے سُنائ دیتے ہیں: 'ہماری رسم کے مطابق دُلہن کے بارات اور ولیمے کے جوڑے اُس کے سُسرال والے ہی بناتے ہیں'، ' ہمارے یہاں ولیمے میں کم از کم تین سو افراد کا بُلاوا ہوتا ہے'، ' دُلہن کی بَری میں باون جوڑوں کا رواج تو برسوں سے چلا آرہا ہے' وغیرہ وغیرہ-تو صاحب بِلاناغہ نِہار مُنہ، دوپہر کے کھانے کے بعد، شام کی چاۓ کے دوران اور رات کے کھانے کے بعد چار چار گولی 'رسم' اور 'رواج' ہمارے حسّاس ذہن پر کُچھ یُوں اثر انداز ہوا کہ یکایک ہم زہنی طور پہ دس سال پیچھے چلے گئے- یہ وہ دور تھا جب ہم 'میٹرک'، یعنی دسویں جماعت پاس کر کے 'اِنٹر'، یعنی گِیارہویں جماعت کے طالب عِلم بن چُکے تھے اور اُردو کی کِتاب کے پہلے سبق 'رسم و رواج کی پابندی کے نقصانات' کا خُلاصہ تحریر کیا کرتے تھے- تو صاحب یہ سبق ذہن میں جو آیا تو ہمارا دِل اُس مچھلی کی مانِند تڑپ اُٹھا جسے یک دم پانی سے نِکال کر زمین پر ڈال دِیا جاۓ- درحقیقت یہ سبق بھی ایک تڑپتے ہوۓ اِنسان یعنی کہ سر سید احمد خان کے ہاتھوں تحریر کردہ ہے جو اُنیسویں صدی میں برِ صغیر کے اُن کروڑوں مسلمانوں کی ابتر حالت دیکھ کر تڑپ رہے تھے جو نہ صِرف تعلیم کی کمی کے سبب انگریزوں کے غُلام بن چُکے تھے بلکہ فرسُودہ رسم و رواج کی اندھا دُھند پیروی کے سبب جہالت اور تنزّلی کی گہری کھائیوں میں دھنس چُکے تھے- سر سید احمد خان جیسے بیدار مغز رہنُما قلم کے ذریعے قوم کو بیدار کرنا چاہتے تھے- اُن کا مقصد قوم کو رسم و رواج کے چُنگل سے آزاد کرانا تھا تاکہ قوم ایک صحت مندانہ راہ پر گامزن ہو کر منزلِ مقصود پر پہنچ سکے- سر سید لِکھتے ہیں
"جو امر کہ پسندیدہ اور تسلیم کے قابل ہے وہ یہ ہے کہ لوگ اپنے فہم اور اپنی عقل سے کام لیں اور رسم ورواج کی پابندی بھی ایک معقول طور پر رکھیں- یعنی کہ جو عمدہ و مُفید ہوں اُن کو اِ ختیار کریں، جو قابِل اِصلاح ہوں اُن میں ترمیم کریں اور جو بُری اور خراب ہوں اُن کی پابندی چھوڑ دیں-"
تو صاحب آئیے ہم زرا سرسید کی اِس بات کا جائزہ اپنے موجودہ قومی تناظُر میں لیتے ہیں- سب سے اہم اور بنیادی بات یہ کہ لوگ اپنی عقل سے کام لیں مگر صاحب ہماری قوم کے بھی کیا کہنے کہ عقل کے سِوا اپنے تمام جسمانی اعضاء کا اِستعمال ہر موقع پر غیر ضروری حد تک کرتی ہے- یہ بات بھی دُرست ہے کہ ترقی یافتہ اقوام اپنے قیمتی قدرتی وصائل کا اِستعمال کم سے کم کرتی ہیں- لِہٰذا ہماری قوم نے بھی اپنے سب سے قیمتی قدرتی وصائل یعنی فہم اور عقل کا اِستعمال کم سے کم کِیا مگر پھر بھی بدقسمتی سے ترقی تو کیا بلکہ ہر آنے والے دور میں مزید ترقی پزیر ہوتی چلی گئی!رہی دوسری بات ترمیم کی تو صاحب ہماری قوم نے رسم ورواج میں ترمیم بھی خُوب کی- مِثال کے طور پہ مہندی کی ایک عام رسم جس میں دراصل دُلہن کی سہیلیاں اُسے گھر میں مہندی لگا کر اور کُچھ ہلکا پھُلکا گانا بجانا کر کے خُوش ہوتی تھیں، اُس میں ترمیم کر کے مہندی کو ایک باقاعدہ تقریب کی شکل دے ڈالی جِس کا اِنعقاد ایک خوبصورت اور پُر تکلُف مقام پر کرتے ہوۓ نہ صِرف انواع و اقسام کے کھانے بنوائے جاتے ہیں بلکہ دور دراز کے رشتہ داروں تک کو مدعو کیا جاتا ہے۔ اِسی طرح دُلہن کو ضرورت کے پانچ چھ جوڑے اور ضرورت کا کُچھ سامان دینے کے رِواج میں ترمیم کر کے بَری کے نام پرباون جوڑے اور باقاعدہ جہیز کی شکل میں بے تہاشا سامان دینے کا رواج بنا ڈالا! اور صاحب جہاں تک بُری اور خراب رسموں کوچھوڑنے کا سوال ہے، تو اِس پر ہماری قوم اَستغفار کرتی دِکھائی دیتی ہے- بھلا مذہب بھی کبھی چھوڑا جاتا ہے! ہمارے دو ذاتی تجربات اِس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ ہماری قوم رسم ورواج کو مذہب سے زیادہ اہمیت دیتی ہے- ہم نے سارا رمضان ایک نماز نہ پڑھی جِس پر ہماری والدہ محترمہ ہلکی پُھلکی ڈانٹ ڈپٹ کرتی رہیں- مگر صاحب جب ہم نے اپنی جیب کو دیکھتے ہوئے اپنی والدہ محترمہ سے یہ گُزارِش کی ہمارے ولیمے پر چار سو کے بجائے دو سو افراد کو مدعو کیا جائے تو ہماری والدہ محترمہ کی آنکھیں آبدِید ہو گئیں اور اُنہوں نے نہ صِرف ہم سے قطع تعلق کی دھمکی دی بلکہ دو دِن تک ہم سے قطع کلامی بھی اِختیار کی- اپنی والدہ محترمہ کا اِس قدر دِل دُکھانے پر ہم نے نہ صِرف اُن سے معافی مانگی بلکہ چار نفِل ادا کر کے خُداوند کریم سے بھی گِڑ گِڑا کر معافی مانگی- اِسی طرح جب ہم نے بڑے فخر سے اور سینہ تان کے اپنے ہونے والے سُسر کو جہیز دینے سے منع کیا تو اُس کے جواب میں ہمارےہونے والے سُسر نے ہمیں وہ سلاواتیں سُنائیں اور ہماری وہ 'عزّت افزائی' کی ہمیں اپنے آپ سے نفرت ہو گئ- اپنی کھوئی ہوئی عزّت واپس حاصل کرنے کے لیے ہم نے عدالت میں اپنے ہونے والے سُسر کے خِلاف مقدمہ درج کرا دِیا ہے جِس پر اِستغاسا ہماری شادی کے بعد شروع کِیا جاۓ گا-
ہماری قوم کا ایک سنگین المیہ یہ ہے کہ ہم ذرا بھی بہتری یا کوئی نئی بات جِس سے بہتری کی طرف اِشارہ ہو، اُسے بلکُل برداشت نہیں کرتے جِس کے سبب ہم 'لکیر کے فقیر' بنے اُسی ایک لکیر پر چلے جا رہے ہیں جو ہمیں مسلسل تباہی و تنزّلی کی جانب لے جا رہی ہے- اپنے اِسی مضمون میں سر سید اِس بات کو یُوں بیان کرتے ہیں
" تواریخ سے ثابت ہے ایک قوم کسی قدر عرصے تک ترقی کی حالت پر رہتی ہے اور اِس کے بعد ترقی مسدود ہوجاتی ہے- مگر یہ دیکھنا چاہئیے کہ یہ ترقی کب مسدود ہو جاتی ہے- یہ اُس وقت مسدود ہوتی ہے جب کہ اِس قوم میں سے وہ قوت اُٹھ جاتی ہے جس کے سبب سے نئی نئی باتیں پیدا ہوتی ہیں-"
جیسا کہ سر سید نےقوم میں نئی اور مُختلف سوچ کو ترقی کے لیے لازمی قرار دِیا تو ہم کو یہ دیکھنا ہوگا کہ ہم کِس حد تک نیا اور مُختلف سوچتے ہیں- حقیقت تو یہ ہے کہ ہماری قوم میں نئی نئی باتیں پیدا ہوتی ہی نہیں ہیں بلکہ صِرف نئی نئی شکلوں کے بچّے پیدا ہوتے ہیں جو بڑے ہو کر اُنہی پُرانی پُرانی رسموں کی اندھا دُھند پیروی کرتے ہیں- نئی تو کیا بلکہ اگر کوئی تھوڑی مُختلف بات بھی کر دے تو اُس بے چارے کو ذِلّت و رُسوائی کے سِوا کُچھ حاصِل نہیں ہوتا، جیسا کہ ہماری اپنی مثال سے ثابِت ہے-
بحرحال صاحب، ہم بھی نہ جانے کیوں سر سید کے اُنہی جُملوں کودوہرا رہے ہیں جن کا ہماری کم و بیش پُوری قوم نہ صِرف بغور مطالع کر چُکی ہے بلکہ اِن سُنہری جُملوں کا سیاق و سباق اور تشریح یاد کر کے اِنٹر بھی پاس کر چُکی ہے- مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اِنٹر میں پڑھے ہوۓ سب سے پہلے سبق یعنی 'رسم و رواج کی پابندی کے نقصانات' سے ہم کُچھ نہ سیکھ سکے تو پھر ہمارا خُود کو اِنٹر پاس کہنا اِنتہائی نامُناسب ہوگا- یہاں تک کہ وہ تمام لوگ جو اعلیٰ سے اعلیٰ اسناد حاصل کر کے بھی اِنٹر کے اِس اِنتہائی اہم سبق کو بُھلا چُکے ہیں، اُن کے لیے بھی بہتر ہوگا کہ اپنی اسناد مطالقہ جامعات کو واپِس کردیں- تو صاحب اب خُود ہی فیصلہ کیجئۓ کہ 'رسم و رواج کی پابندی کے نقصانات' جانتے ہوۓ بھی رسم و رواج کی اِنتہائی حد تک پابندی کیا ہم اِس لیے کرتے ہیں کیوں کہ ہم ذہنی معزور قوم ہیں یا پھر اِس لیے کہ ہم ابھی بھی ترقی پزیر قوم ہیں یا پھر مہز اِس لیے کہ دراصل ہم ایک 'میٹرک پاس قوم' ہیں!