جیسے ہی جہاز کے کپتان نے لینڈنگ کا عندیہ دیتے ہوے حفاظتی بلٹ باندھنے کی ہدایت کی، میں نے نسخہ ہائے وفا (فیض صاحب کی کتاب) کو بند کیا اور دل میں آیات الکرسی کا وِرد شروع کر دیا۔ ''بِلُکفّار مُلحِق'' پر پہنچا تو احساس ہوا کہ غلطی سے دعاء قنوت پڑھ ڈالی ہے۔ تاہم اس دوران پی۔ آئی۔ اے۔ کی پرواز، تین۔ صفر۔ پانچ۔ معمول کے غیر معمولی ہچکولے لینے کے بعد سکھر ہوائی اڈے پر اُتر چکی تھی اور اب کسی مخمور سانپ کی مانند خراماں خراماں آمد لاؤنج کی جانب بڑھ رہی تھی۔ میری ساتھ والی نشست پر بیٹھے، میرے انگریز ہمسفر، (مسٹر رچرڈ) جو جہاذ کے کپتان کی نصیحت کے عین مطابق سیٹ بلٹ کے نشانات بُجھ جانے کے منتظر تھے، مقامی مسافروں کو عجلت اور بے صبری میں ایک دوسرے کے سروں کو پھلانگتے دیکھ کر خالص انگریزی سرگوشی میں گویا ہوئے؛
''What is it sir? Ignorance or arrogance''
''(اسے جہالت کہیں یا غرور؟ حضور، )''
میں نے کندھے اُچک کر منہ ٹیڑھا کرنے ہی میں عافیت جانی۔ ایسے سوالوں کے خدا جانے کیا جوابات ہوتے ہیں۔
ائیر پورٹ سے باہر نکلے تو ہمارے ڈرایؤر نے، جو رحیم یار خان کی طرف کا ایک سابق فوجی تھا اور ایک روز قبل ہی آرمڈ و ہیکل (بم پروف گاڑی) کو زمینی راستے سے اسلام آباد سے سکھر لایا تھا، نے ہمیں جمہوری سلام کیا اور بیگ اٹھا کر پارکنگ کی جانب چل پڑا۔
ہم لوگ مقامی پولیس کی قیادت میں، نئے ماڈل کی گاڑیوں کاایک قافلہ لیے صوبہء سندھ کے ضلع جیکب آباد میں اُن ہنر مند خواتین سے روبرو ملاقات کو پہنچے جو بقول ایک عالمی، غیر سرکاری، سماجی ادارے (این۔ جی۔ او) کے اب چھ ہزار ماہانہ کما کر غربت کی لکیر کو پُر مسرت پھلانگ رہی تھیں۔ آمدنی میں اس خطیر اضافے کی جانچ پڑتال کے لیے اِسی (این۔ جی۔ او) نے محض چند لاکھ ڈالر کے عوض ملکی اور غیر ملکی ماہرین کی جس ٹیم کو تشکیل دیا تھا اُس کی مہارت کا فوری اندازہ اس بات سے لگا لیجئے کہ اِس میں ہم ایسے کج فہم بھی شامل تھے۔
قریب دس بج رہے تھے جب مسٹر رچرڈ اور میں، اپنی ٹیم کے ہمراہ سکھر سے جیکب آباد اُس صنعتی سلائی کڑائی مرکز میں پہنچے جہاں ہمیں نو تربیت یافتہ، ہنرمند خواتین سے ملاقات کرنی تھی۔ مقامی افراد اور بچوں کی ا چھی خاصی تعداد صنعتی مرکز پر آ چکی تھی اور ''اچھی ویو، سائیں اچھی ویو '' (آ گئے، مہمان آ گئے) کا شور صاف سنائی دے رہا تھا۔
بھاری برکھم جسم اور صنعتی مرکز کے مالک اِنضمام الحق کی طرح تیزی سے ہماری جانب لپکے اور اپنے ہاتھوں سے سندھی اجرک مسٹر رچرڈ کے گلے میں ڈالتے ہوے بولے؛
''سائیں، بھلی کری آیو'' (جناب، خوش آمدید)۔
دونوں صاحبان اس وقت تک مسکرانے کی کوشش میں مصروف رہے جب تک وہاں موجود ملازمین و منتظمین نے یہ مناظر موبائل سلفیوں اور کیمروں میں محفوظ نہ کر لیے۔ ہم ابھی دیر سے آنے کی معذرت اور اِس جرم میں قومی ایئر لائن کی پیشہ وارانہ مہارت کا ذکر کر نے ہی والے تھے کہ میزبان موصوف نے چائے ٹھندی ہونے کے خطرے سے آگاہ کیا اور یوں ہم اِس حویلی نما صنعتی مرکز کے مہمان خانے میں داخل ہو گئے جہاں ایک بڑی میز پر کافی، چائے، خالص گندم سے بنی ہوئی سیریل، ڈبل روٹی، مکھن، شہد اور پنیر کی چھوٹی چھوٹی ٹکیاں، مالٹے کے تازہ جوس سے بھرا شیشے کا مرتبان، اور انڈوں کی تینوں حالتیں ہماری منتظر تھیں۔
اس مختصر سے ناشتے کے بعد ہمیں مینٹگ حال میں لے جایا گیا جہاں ایک دیوار پر ملٹی میڈیا سکرین روشن تھی۔ ہر سلائیڈ پر شُستہ انگریزی زبان میں بدلتے حالات کا نقشہ کھینچا گیا تھا۔ مسکراتی، شرماتی تصاویر اور سیڑیوں کی مانند اوپر اٹھتے ہوئے گراف، منصوبہ ہذا کی کامیابی کا ثبوت پیش کر رہے تھے۔ تالیوں کی گونج میں منصوبے کی تفصیلات کا اختتام کرتے ہوئے، صنعتی مرکز کے دیو ہیکل منیجر نے بتایا کہ اب ہم ہنر مند خواتین سے روبرو ملاقات کریں گے۔
کمرے میں داخل ہوے تو تختے کی طرح سیدھی چھاتیوں والی نحیف، ناتواں عورتیں جن میں سے اکثر کے بازووں میں موٹی سہمی آنکھوں والے شیر خوار بچے لپک رہے تھے، ہمیں دیکھتے ہی حیا اور حیرانگی کی اس درمیانی کفیت میں چلی گئی جو انتظار اور ڈر کا منطقی نتیجہ ہوا کرتی ہے۔
''اسلام علیکم میں نے کہا۔ ''
خفیف سی ہنسی کو اجرک میں چھپائے ہنر مند خواتین نے سلام کا جواب سلائی مشینوں کے ہینڈلز کو گھما کر دیا۔ بانہوں میں رنگ برنگی کانچ کی چوڑیاں، سلائی مشین کے ہینڈل کو گھماتے ہوئے ایک ساز سا بناتِیں جو کبھی کسی بچے کی چیخ سے رُکتا تو کبھی سوئی کیساتھ ٹوٹ جاتا۔
لکڑی سے بنے قریب چار فٹ لمبے اور دو فٹ چوڑے تختے، جس کی مشابہت جائے نماز کی سی تھی، کے عین وسط میں سلائی مشین کو پیوست کیا گیا تھا۔ ہتھیلی کی حرکت اور گھٹنوں کی ارتعاش، سلائی کے عمل کو محسور کن بنا رہی تھی کہ میری نظر ہنر مند خواتین کی پھٹی ہوی ایڑیوں سے ٹکرائی۔ کرایکس (Cracks) اس قدر واضح تھے کہ مجھے بے ساختہ کرکٹ ورلڈ کپ 1992 فائنل کی وہ پِچ یاد آ گئی جہاں وسیم اکرم نے یکے بعد دیگرے ''کرس لیوس'' اور ''ایلن لیمب'' کو آوٹ کیا تھا۔
قبل اسکے کہ خواتین سلائی کی مشق سے آزاد ہو کر ہمارے سوالات کی قید میں آتیں، مشکل یہ آن پڑی کہ گفتگو کیسے ہو؟ ملک کی بھاری اکثریت کی طرح ایک طرف ہنر مند خواتین انگریزی نہ بول سکنے کے جرم میں مبتلا تھیں تو اِدھر مجھے اور رچرڈ کو سندھی زبان سے اِسی درجہ واقفیت تھی جس قدر آج کل پاکستانی ڈراموں کو اخلاقیات سے ہے۔
ابھی کسی سہولت کار، جو ذریعہء تبادلہء خیال بنے کی تلاش جاری تھی کہ میں کمرے سے باہر نکل آیا۔
یوں تو جیکب آباد اپنے گرم موسم کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے لیکن دسمبر میں سورج یہاں بھی خیر کا دیوتا ہی سمجھا جاتا ہے۔ میں دھوپ کی تلاش میں دو منزلہ بلڈنگ کے سائے کو پھلانگتا مرکزی دروازے پر پہنچا تو وہاں موجود چوکیدار نے فوراً اٹھ کر دروازہ کھول لیا۔ مجھے کوئی کام تو نہ تھا لیکن چوکیدار کا بھرم رکھتے ہوئے باہر نکل آیا۔ پھر اس خیال سے کہ سہولت کار کی دریافت پر لگنے والا وقت کراچی کے ٹارگٹ کلرز کی طرح نامعلوم ہے، کچھ دُور تک ٹہلنے کا ارادہ کر لیا۔
چھوٹے لوگوں کے بڑے محلات کی طرح، اس حویلی نما دفتر کا بیرونی احاطہ ختم ہونے سے قبل ہی مین روڈ شروع ہو گئی۔ یہ غالبًا جیکب آباد سے سکھر جانے والی مرکزی شاھراہ تھی۔ اس دو طرفہ زبوں حال سڑک کے وسط میں بجلی کے کھمبوں کی وہ لمبی قطار ہے جو توانائی کی حسبِ زائقہ ترسیل کے علاوہ، سیاسی جماعتوں کے جھنڈوں اور رنگ برنگے پوسٹرز کی تشہیر کا مستقل کام بھی کرتی ہے۔ میں چہل قدمی کرتے ہوئے کچھ آگے بڑھا اور بائیں جانب دیوار پر چسپاں، بینرز کی لامتنائی قطار پر سندھ کی سبھی سیاسی شخصیات کو تا دیر تکتا رہا۔
سندھی ٹوپی اور اجرک میں ملبوس، توانا، خوب رو، گول مٹول تر و تازہ چہرے، ہاتھ فضا میں بلند اور صدائیں۔ ۔ ۔
زہن نے اس فریبِ نظر کو قبول نہ کیا تو منظر بدلا!
پھٹی ایڑییاں، خشک چھاتیاں، سہمی آنکھیں، سلائی، ہینڈل اور آہیں۔ ۔ ۔
راہبروں کو ہمیشہ راس آنے والی عزت، عقیدت اور آسودگی کے بدلے عوام کو مقدور زِلت، غربت اور لاچارگی کے سچ نے مجھے بے چین کیا تو میں نے اپنی رفتار میں کچھ تیزی لائی اور بے ہنگم بھاگتے موٹر سائیکلوں سے بچتا بچاتا سڑک کے اس پار پہنچ گیاجہاں کرش کے ڈھیر پے بیٹھی ایک بوڑھی اماں پر نظر پڑی جو چھوٹی چھوٹی کنکریاں چننے میں مصروف تھیں۔ نہ جانے جی میں کیا آئی کہ میں اماں جی کو سلام کرتے ہی دو زانوں ان ہی کے روبرو بیٹھ گیا۔
سلام کا جواب دیے بغیر اماں جی نے نظریں اٹھائیں، گردن کو اس مشکل سے اوپر اٹھایا، جیسے کائنات کے بوجھ تلے دبی ہوی ہو۔ اور کچھ دیر گزری تو ہوں۔ ۔ ۔ ں۔ ۔ ں۔ کی ایک خفیف لیکن قدرِطویل آہ کیساتھ اماں جی کی چمکدار آنکھوں نے میرا سرسری جائزہ لیا اور بائیں ہاتھ میں چُنی ہوئی مشت بھر کنکریوں کو اجرک کے پلو میں باندھ دیا۔ پھر کانپتے ہاتھوں سے ایک پتھر اٹھایا اور کنکر بندھ پلو کو ایک لمحہ گھورنے کے بعد پے درپے ضربیں لگانا شروع کر دی۔
میں اماں جی کی اجرک کا مشاہدہ کرنے لگا، ساری چادر چھلنی تھی۔ یقیناً اماں جی نے چادر کو جابجا اسی عمل سے چھید دیا تھا جس میں وہ اس وقت مشغول تھیں۔
کیا کر رہی ہیں آپ اماں جی؟
میں اب کی بار اس لیے زیادہ اونچی آواز میں بولا کہ شاید اماں جی کی قوتِ سماعت کمزور ہے۔ اس بار اماں جی کی نظر یکدم اٹھی، ٹکٹکی باندھ کہ مجھے یوں دیکھا کہ میری آنکھیں چندھیا گئیں۔ اماں جی مجھے دیکھتے ہوئے پہلے کی نسبت زیادہ قوت سے پلو کو کوٹ رہی تھیں، اب اماں جی مجھے اور میں کنکر بندھ پلو کو گھورنے لگا۔
کنکریاں اب پِس چکی تھیں اور چھیدوں سے ریگ کے ذرات بر آمد ہو رہی تھے۔ اماں جی نے پلو کی گرہ کھولی، پِسے ہوئے سفوف کو دائیں ہاتھ میں انڈیلا اور بائیں ہاتھ کی انگلیوں سے برّادہ کو عین ہتھیلی کے وسط میں لایا۔ ہونٹوں کی ہلکی سی جنبش نے بسم للہ کی خودکلامی کو جنم دیا، اماں جی نے آسمان کی جانب ایک نگاہ دوڑائی اور سفوف کی پھانکی لیتے ہوئے بولی؛
''موکھے بھوک لگی آہے''(مجھے بھوک لگی ہے)
موبائل فون پر گھنٹی بجی۔ رچرڈ پوچھ رہے تھے۔
"?Hey Man, Where are you? couldnt find you here''
(کہاں ہیں، آپ نظر نہیں آرہے؟)
''...Neither Do I''
(میں بھی خود کو ڈھونڈ نہیں پا رہا)۔
اشک بار آ نکھوں سے اماں جی کی دھندلی سی صورت دیکھتے ہوئے میں نے رچرڈ کو جواب دیا۔