1. ہوم
    2. کالمز
    3. اجمل کھوکھر
    4. صدارتی نظام ایک امید صبح

    صدارتی نظام ایک امید صبح

    دنیا بھر میں دو نظام حکومت ہی نافز العمل ہیں پارلیمانی نظام جمہوریت اور صدارتی نظام جمہوریت۔ پاکستان میں پارلیمانی نظام جمہوریت نافذالعمل ہے۔ مذکورہ بالا ںظاموں میں ہر ایک کچھ تقاضوں کا متقاضی ہو تا ہے۔ اسی طرح پارلیمانی نظام جمہوریت کے تقاضے اعلی تعلیم اور اعلی اخلاقیات ہیں جبکہ پاکستان میں حکومتی اعداد و شمار کے مطابق شرح خواندگی 57% ہے اور اس میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو انحوٹھا لگانے کے بجائے بڑی مشکل سے اپنا نام لکھ پاتے ہیں۔ ان اعداد و شمار میں بھی حکومتی سطح پر مبالغہ آرائی ضرور کی گئی ہو گی تاکہ مختلف ممالک سے شرح تعلیم میں اضافے کے لئے ملنے والی امداد بند نہ ہو جائے پھر بھی پاکستان عالمی ورلڈ رینکنک میں 159/177 پوزیشن پر ہے۔ تو آپ اندازہ ہی لگا سکتے ہیں کہ اصل شرح خواندگی کیا ہو گی۔ پارلیمانی نظام جمہوریت کے لئے دوسرا تقاضا اعلی اخلاقیات ہے جو بہت ہی اہم ہے، اخلاقیات کے اعتبار سے پاکستان شدید قسم کے بحران کا شکار نظر آتا ہے جس کی بنیادی وجہ عوام کی بنیادی ضرویات زندگی تک رسائی نہ ہونا ہے، پاکستان کو ستر سال سے دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے عوامی ضرویات و سہولیات کے لئے کچھ کرنا تو دور کسی نے سوچنا گوارا نہیں کیا۔ عوام مفلوک الحالی بلکہ فاقوں کی نوبت تک پہنچ گئی پھر کیا ہونا تھا ' مرتا کیا نہ کرتا' عوام نے اپنی اور بچوں کے بقاء کے لئے اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ دیا، پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے ہر جائز و ناجئز روش اپنائی۔

    حضرت عمر فاروق کے دورحکومت میں قحط پڑ گیا تو آپ نے فورا سزائوں میں نرمی کے احکامات جاری کئے آپ بخوبی جانتے تھے کہ عوام بھوک و فاقہ کے باعث جرائم کرنے پر مجبور ہو جائے گی۔ پاکستان کی عوام کو ہمیشہ ہی کسمپرسی کی حالت میں رکھے جانے اور امراء کے طاقت و دولت کے نشے میں بد مست ہونے کے باعث اخلاقیات بھی پایاب ہو چکی ہیں۔ تو جب پاکستان میں پارلیمانی نظام جمہوریت کے لئے دونوں بنیادی ستون ہی نہایت کمزور ہو چکے ہیں تو پارلیمانی نظام جمہوریت کیا خاک ترقی کی منازل طے کریگا؟

    انہی کمزور ستونوں پر پچھلے ستر سال سے بار بار تعمیر کی جانے والی عمارت دھڑام سےنیچے گر رہی ہےاور گرتی ہی رہیگی۔ پاکستان میں پارلیمانی نظام جمہوریت بالکل ناکام ہوکر رہ گیا ہے پارلیمانی نظام جمہوریت میں موجود بندشیں ترقی کے عمل کو سست روی شکار کر دیتی ہیں اس نظام میں وزیراعظم ہی سب زیادہ بااختیار ہوتا ہے لیکن وہ بھی پارلیمانی کونسل کا ممبر ہی ہوتا اور قانون سازی کے عمل اسکی شمولیت ہوتی ہے، پارلیمنٹ سے کسی قسم کے اختلاف کی صورت میں اسے عدم اعتماد کی تحریک کا خطرہ درپیش رہتا ہے۔ پارلیمانی نظام جمہوریت میں پارلیمنٹ کے ہی کسی رکن کو وزیر بنایا جا سکتا ہے چاہے وہ اس عہدے کے لئے قابلیت رکھتا ہے نہیں بد قسمتی پاکستان میں شرح تعلیم کم ہونے کے باعث زیادہ تر وزراء نیم خواندہ ہوتے ہیں بلکہ پچھلی حکومت میں 200 ارکان پارلیمنٹ ایسے تھے جن ڈگریاں جعلی تھیں۔ جاہل لوگ تو اس قسم کی ذمہ داری کے لائق نہیں ہوتے اور کسی بھی ملک یا ادارے کی ترقی کے لئے ٹیکنوکریٹ ہی مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔ پارلیمانی نظام جمہوریت میں پارلیمنٹ کو اعتماد میں لئے بغیر کوئی بڑا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا یہ پہلو ترقی کی رفتار کو بہت سست کر دیتا ہے۔ کسی جنگ یا ایمرجنسی کی صورت تو پارلیمانی نظام جمہوریت با لکل ہی تاخیری ثابت ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ کے اجلاس ہوتے ہوتے پانی سر گزر جاتا ہے۔ پارلیمانی نظام جمہوریت کے بر عکس صدارتی نظام جمہوریت میں وسعت پائی جاتی ہے، جب ہم صدارتی نظام جمہوریت کے نفاذ والے ممالک کا مشاہدہ کرتے ہیں تو ہمیں ان کی ترقی کی رفتار بہت تیز نظر آتی ہے۔ جیسا ترکی، امریکہ اور سنگا پور وغیرہ وغیرہ سنگا پور ہی دیکھ لیں کراچی شہر کی آبادی کا ایک چوتھائی اسکی آبادی ہے اسکی ایکسپورٹس تین سو جو کہ تیس ارب ڈالر کی ہیں جبکہ پاکستان کی ایکسپورٹس بیس ارب ڈالر کے قریب ہیں۔ سنگاپور کی ایکسپورٹس پاکستان سے پندرہ گنا زیادہ ہیں۔ سنگاپور کی ترقی میں صدارتی نظام جمہوریت کا بھی بڑا کردار ہےکیونکہ صدارتی نظام میں صدر ہی سب بڑا با اختیار اور طاقتور سربراہ ہوتا ہے وہ عوام سے ووٹ لے کر آتا ہے اور عوام کو ہی جوابدہ ہوتا ہے، مجلس قانون ساز اسے کسی طرح سے ڈرا دھمکا کر نہیں سکتی کیونکہ وہ اس کے زیر اثر نہیں ہوتا اس نظام میں ضروری نہیں ایگزیکٹو)وزراء( پارلیمنٹ کے ہی رکن ہوں صدر براہ راست ہر شعبے سے قابل لوگوں کو چن سکتا ہے اس طرح با آسانی ٹیکنوکریٹس کی حکومت بنائی جا سکتی ہے جو کہ کسی ملک کی ترقی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس وقت پچاس سے زائد ممالک میں صدارتی نظام چل رہا ہے جن کی معیشت پارلیمانی نظام جمہوریت سے نمایاں نظر آتی ہے، صدر کے مملکت اور اداروں کے سر براہ ہونے کی وجہ سے وہ بڑے، مشکل اور مملکت کی ترقی سے وابسطہ فیصلے باآسانی کر سکتا ہے۔ صدارتی نظام جمہوریت میں عام طور پر سربراہان اپنی معینہ مدت پوری کرتے ہیں کیونکہ ان کو )مواخزہ( ہٹانا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ دراصل صدارتی نظام حکومت ہی جمہوری عمل ہے کیونکہ اس میں مجلس قانون ساز کی عدم اعتماد کی تلوار ہر وقت گردن پہ نہیں لٹکی رہتی۔ اگر ہم ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں پارلیمانی نظام جمہوریت کی جگہ صدارتی نظام جمہوریت کو لانا ہو گا اسی میں ہمیں پاکستان کے روشن مستقبل کی امید نظر آتی ہے کیونکہ جن ممالک میں ہی نظام نافذالعمل ہے وہاں خوشحالی نظر آتی ہے اس کے علاوہ جانچ پڑتال کے لئے بھی یہ نظام بہت مفید ہے قائداعظم بھی اسی ںظام کے حامی تھے۔ ہمیں ہر صورت میں صدارتی نظام جمہوریت کو نافذالعمل کرنا ہوگا اسی ہماری اور ہمارے پیارے وطن کی بقا پوشیدہ ہے۔