ضبط تولید یعنی برتھ کنٹرول کی وجہ سے دنیا میں بچوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔ زیادہ تر آبادی جوانوں اور بوڑھوں کی ہوگئی ہے۔ برتھ کنٹرول کا مطلب ہی یہ ہے کہ بچوں سے بچو۔ پہلے زمانے میں بڑے فخر کے ساتھ لوگ بتاتے تھے کہ ہم مانشااللہ ایک کم دس برخورداروں کے اکلوتے ماں باپ ہیں یا اگلے سال ہماری کرکٹ ٹیم مکمل ہوجائے گی۔ اب یہ تعداد بتاتے شرم آتی ہے۔ مردم شماری والے گھر پر معلومات کیلئے آتے ہیں تو کثیرالاولاد والدین اپنے بچوں کو باتھ روم چھپادیتے ہیں۔
میرے دوست کے ہاں جب نواں بچہ پیدا ہوا تو مجھے اس کی بیوی پر بہت رحم آیا۔ میں اس کے ہاں گیا اور مشورہ دیا:
’’بچے دو ہی اچھے‘‘
چنانچہ اگلے ماہ اس کے ہاں دو بچے یعنی جڑواں بچے پیدا ہونے والے ہیں۔ خاندانی منصوبہ بندی والے ہر حال میں آبادی پر کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں چار جائز بچے پیدا کرنے سے بہتر ہے ایک ناجائز بچہ پیدا کرلیا جائے۔ اسلام میں ضبط تولید جائز نہیں۔ ایک صاحب سے پوچھا گیا کہ آپ تو پابند شرع ہیں آپ بچوں سے کیوں بچتے ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ دو بچوں کے بعد بریک لگادیا؟ بولے :
’’برتھ کنٹرول میں نہیں میری بیوی کرتی ہے‘‘
ان صاحب کی بات پر ہمیں حیرت ہوئی کیونکہ شادی شدہ عورت بچوں سے بچنے کی کوشش نہیں کرتی، ہاں کنواری کی بات اور ہے۔
ایک دوشیزہ سے پوچھا گیا:
’’کیا تم اب تک کنواری ہو؟‘‘
جواب دیا
’’مجھ پر بہتان نہ لگائیں۔ میں دو ماہ بعد جائز ماں بننے والی ہوں‘‘
جہاں تک بہتان لگانے کا تعلق ہے تو مورد الزام تو چار بچوں کا نامرد باپ ہی ہوسکتا ہے۔ مغرب میں شادی کے بعد بچوں سے بہت بچا جاتا ہے البتہ شادی سے پہلے بچنے کی کوئی خاص کوشش نہیں کی جاتی۔
ایک امریکی بچے نے اپنے دوست کو بتایا کہ جب میرے ابو امی نے شادی کی تو سب نے کہا کہ یہ دو بچوں کا شادی شدہ جوڑا ہے کیونکہ ابو کی عمر اس وقت اٹھارہ سال تھی، امی کی سولہ سال اور میں دو سال کا تھا۔
ہم ایک مرتبہ دہلی گئے تو وہاں ایک میٹرنٹی ہوم میں شیر خوار بچوں کی نمائش لگی ہوئی تھی۔ پہلا انعام بیس پونڈ کے ایک موٹے تازے بچے کو دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ ہم نے تجویز دی کہ انعام بچے کو دینا جائز نہیں بلکہ بچے کی ماں کو دیا جائے جس نے اتنا موٹا تازہ بچہ جنا۔ نرس بہ آواز خاموشی ہمارے پاس آئی اور کان میں بولی
’’اپنی تجویز کی تشہیر نہ کرنا کیونکہ بچے کی ماں کا پتہ نہیں کون ہے‘‘
ہم نے اپنی زبان تو خیر سوئی دھاگے سے سی لی مگر دل میں کہا :
’’بچہ بھی ناجائز، انعام بھی ناجائز‘‘
اگر دیکھا جائے تو انعام ماں کو دینے کی ہماری تجویز جائز تھی۔ صاحب ہم پاکستان میں تجاویز اور تجاوزات کے تخلیق کار رہے ہیں۔ لاہور میں ایک مرتبہ موسیقی کی محفل منعقد تھی جس میں ایک گانے والے نے مسلسل تین گھنٹے پکے گانے گاکر انعام حاصل کیا۔ ہم نے تجویز پیش کی کہ انعام تو انہیں دینا چاہئیے جنہوں نے مسلسل تین گھنٹے اس حلق پھاڑ گلوکار کے گانے سنے۔
ہم روزانہ شیو کرنے سے اتنے بے زار ہیں کہ ہمیں بچپن اچھا لگنے لگا ہے۔ جب ہماری زندگی میں بچپن نیا نیا آیا تو امی نے ہمارے لئے اردو کا قاعدہ خریدا اور یوں سبق پڑ ہایا:
الف سے الو۔ ۔ ۔ بڑا نرالا
ب سے بکرا۔ ۔ ۔ بھولا بھالا
خ سے خربوزہ۔ ۔ ۔ کھانے اور رنگ بدلنے کے کام آتا ہے
مگر ہم نے پڑھ کر نہ دیا۔ ہفتے میں دو مرتبہ اسکول سے غیر حاضر رہتے۔ پہلی مرتبہ تین دن کے لئے دوسری مرتبہ چار دن کے لئے۔ آخر ہمارے ابو نے ہمارے تعلیمی مستقبل کو سنوارنے کیلئے اخبار میں اشتہار دیا:
بچے کی پڑہائی کیلئے ایک ٹیچر کی ضرورت ہے
بچے کی پٹائی کیلئے ایک ہنٹر کی ضرورت ہے
جب سے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ ہر ’’بڑا‘‘ آدمی شروع میں ’’بچہ‘‘ ہوتا ہے، ہم بچوں کا احترام کرنے لگے ہیں۔ بچپن عین فطرت کے مطابق ہوتا ہے۔ بڑا ہوکر انسان فطرت سے ٹکر لینے لگتا ہے۔ اگر بچپن کے خلوص، سچائی اور معصومیت میں بڑے ہوکر خودغرضی، جھوٹ اور جرم شامل نہ ہو تو یہ دنیا کتنی خوبصورت ہوجائے مگر یہ بھی انسانی فطرت ہے کہ بچپن میں تتلیوں اور پھولوں سے کھیلتا ہے، بڑا ہوکر بارود اور خون سے کھیلنے لگتا ہے۔ دنیا میں اگر خرابیاں جنم لیتی ہیں تو یہ عدیم الفطرت نہیں۔ بچہ جسے اسکی ماں اپنا پیٹ کاٹ کے اسکول بھیجتی ہے وہ اسکول سے بھاگ کر تماشہ دیکھنے چلا جاتا ہے تو یہ عین فطرت ہے۔ اگر کوئی مزدور جس کی تنخواہ چند سو روپے ہے وہسکی کی ایک قیمتی بوتل اپنی غربت کو بھلانے کیلئے خریدتا ہے تو یہ عین فطرت ہے۔ اگر کوئی نوجوان دفتر کے بعد طوائف خانے کا رخ کرتا ہے حالانکہ اسکی خوبصورت بیوی گھر میں موجود ہے تو یہ بھی عین فطرت ہے۔
بچے کی خواہش کتنی بے داغ اور معصوم ہوتی ہے۔ بچے کھیلتے ہوئے اچھے لگتے ہیں مگر مجھے گانا سناتے ہوئے زیادہ اچھے لگتے ہیں۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے بڑے اور بچے میں کیا فرق ہے تو میں جواب دوں گا بڑے تقریر سناتے ہیں اور گانا گاتے ہیں، بچے تقریر گاتے اور گانا سناتے ہیں۔
بچے جب اپنی تعلیم ختم کرلیتے ہیں اور نئے نئے بالغ ہوتے ہیں تو فوراً بے روزگار ہوجاتے ہیں۔ ناروے میں سب سے زیادہ بے روزگاری ہے اس لئے کہ وہاں ننے منے بچے بھی بے روزگار ہیں۔
پرانی کتابوں میں لکھا ہے کہ کرکٹ کا کھیل سولہویں صدی عیسوی میں برطانیہ میں ایجاد ہوا جس کا بہت فائدہ ہوا۔ ظاہر ہے اس کا فائدہ تو پاکستان تک پہنچا اور اتنا پہنچا کہ ہمارے ہاں ظہیر عباس، جاوید میاں داد اور وسیم اکرم جیسے ’’بچے‘‘ پیدا ہوئے۔ ہمیں سو فی صدی یقین ہے کہ کرکٹ ایجاد نہ ہوتی تو یہ بچے کبھی پیدا نہ ہوتے۔ آپ کی خوب صورتی کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کے حسن کی تاب نہ لاکر کتنی لڑکیاں بے ہوش ہوئیں۔ جس قوم میں وحید مراد اور عمران خان جیسے ’’بچے‘‘ پیدا ہونگے اس قوم کی لڑکیاں بے ہوش نہ ہونگی تو اور کیا ہونگی۔ ٹی این راز عرف شعر کشمیر کے بقول آپ کی خوب صورتی کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کے حسن کی تاب لاکر کتنی لڑکیاں بے ہوش ہونے سے بچ گئیں۔
بچوں سے بچو کے اصول پر ہمیں بھی عمل کرنا پڑتا ہے خاص طور پر ایسے گھروں میں جہاں ایک بچہ ہماری گردن پر چڑھ کر ہمارے بالوں کی درگت بناتا ہے۔ دوسرا بچہ ہماری سائیکل کے پہیے کی ہوا نکال دیتا ہے اور تیسرا بضد ہوتا ہے کہ ہم اس سے علامہ اقبال کی نظم لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری، ’’پوری‘‘ سنیں۔ جس طرح وہ اس نظم کی ریڑھ مارتا ہے وہ کچھ ہم ہی جانتے ہیں یا علامہ اقبال کی روح۔ اس کے باوجود ہمیں اپنے دوست کی دوستی کا لحاظ رکھتے ہوئے کہنا پڑتا ہے ’’کتنے پیارے، ہونہار اور تمیز دار بچے ہیں‘‘ مزا تو اس وقت آتا ہے جب جاتے وقت بطور شفقت ہمیں ہر بچے کے گال کو بوسہ دینا پڑتا ہے حالانکہ ان کی ناک بہہ رہی ہوتی ہے۔