امریکی ڈاکٹروں نے عالمی دہشت گردی کو بین الاقوامی مرض کا نام دیا ہے مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک مدت سے امریکہ کا قومی مرض ’’خوف‘‘ ہوگیا ہے۔ ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے اور پھر عراق جنگ کے بعد پوری امریکی قوم ایک انجانے خوف میں مبتلا ہوگئی تھی جسکا تسلسل کسی حد تک آج بھی جاری ہے۔ امریکیوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ زندگی سے جتنا پیار کرتے ہیں اس سے زیادہ موت سے ڈرتے ہیں جبکہ افغانیوں سے پوچھا جائے کہ تمہیں کونسا کھیل پسند ہے تو وہ کہیں گے ہمیں موت کا کھیل پسند ہے۔ امریکی صدر کو سر درد ہو تو دنیا کو درد سری ہوجاتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ چین کے وزیر صحت اگر غسل صحت فرمالیں تو وہائٹ ہاؤس کے اہل کار خود کو غیر صحت مند سمجھنے لگتے ہیں۔ امریکی وزارت صحت نے کہا ہے کہ انتھرکس متعدی مرض نہیں ہے مگر امریکی قوم اب سی این این پر یقین کرتی ہے نہ وزارت صحت پر۔ متعدی مرض پر مجھے یاد آیا کہ ایک زمانے میں یونان میں اتنے لوگ مرنے لگے کہ وہاں صابن بنانے کی کمپنیاں بیٹھ گئیں۔ لوگ صابن سے اتنے ہاتھ نہیں دھوتے تھے جتنے زندگی سے۔ بڑی تیزی کے ساتھ زندے مردوں میں تبدیل ہونے لگے۔ گورکن حضرات کے وارے نیارے ہوگئے۔
مرض خواہ قومی ہو یا بین الاقوامی، اسے من پسند اور مفید ہونا چاہئیے۔ ہم نے بہت سے لوگوں کو دیکھا ہے جو اوّل تو بیماری میں مبتلا ہوتے نہیں اور اگر ہوتے بھی ہیں تو پسندیدہ بیماری میں۔ پسندیدہ بیماری وہ ہوتی ہے جس میں کم از کم ایک ہفتے کی چھٹی باآسانی مل سکے۔ ڈاکٹر جب بھی مریض کی چھٹی تجویز کرتے ہیں اسے بستری آرام (Bed Rest) کا مشورہ بلکہ حکم دیتے ہیں۔ ایک صاحب تو مسلسل بیماریوں کی وجہ سے کئی بچوں کے باپ بن گئے کیونکہ ڈاکٹرجب بھی انہیں بستری آرام بتاتا انکی بیوی ایک بچے کی ماں بن جاتی۔ ظاہر ہے بستری آرام بغیر بیوی کے تو ممکن نہیں۔ یوں انکا بستری آرام دراصل ہم بستری آرام ثابت ہوا۔
ایک بین الاقوامی مرض ’’غصہ‘‘ بھی ہے۔ کینسر کا علاج دریافت ہوجائے گا مگر غصے کا علاج نہیں۔ دوسروں کی غلطیوں کا انتقام اپنے آپ سے لینے کا نام غصہ ہے یا یوں کہیے کہ اپنی غلطیوں کا انتقام دوسروں سے لینے کا نام۔ بیمار اگر غصے ناک بھی ہو تو وہ صرف غصیناک نہیں رہتا خوفناک ہوجاتا ہے اور مصیبت تیماردار کی آتی ہے کہ وہ تیمارداری کرتے کرتے بیمار سے زیادہ بیمار ہوجاتا ہے۔ بیمار اور تیماردار میں یہ فرق ہے کہ جو آرام فرمارہا ہو وہ بیمار ہے اور جو تکلیف میں مبتلا ہو وہ تیماردار۔ ہمیں آج تک یہ پتہ نہ چل سکا کہ بیمار تیماردار کے زیر اثر ہوتا ہے یا تیماردار بیمار کے۔ بیمار اور ڈاکٹر میں بنیادی فرق یہ ہے کہ بیمار سوچتے ہیں کہ اس مرض کا کیا علاج ہوگا؟ ڈاکٹر سوچتے ہیں اس علاج کا کیا مرض ہوگا؟یہ ایسا ہی ہے جیسے عوام ہر مسئلے کا ایک حل چاہتے ہیں اور سیاست داں ہر حل کا ایک مسئلہ دریافت کرتے ہیں۔ ڈاکٹر اور مریض کا چولی دامن کا ساتھ ہے لیکن یہ پتہ نہ چل سکا کہ چولی کس کے پاس ہوتی ہے اور دامن کس کے پاس؟ہمارے خیال سے تو دونوں چیزیں ڈاکٹر کے پاس ہوتی ہیں کیونکہ مریض بے چارا تو بے بس ہوتا ہے۔ ’’بے بس‘‘ اسے کہتے ہیں جو بس میں سوار نہ ہو کار میں سوار ہو۔
ہمارے خیال سے سب سے بڑا بین الاقوامی مرض ’’بھول اور نسیان‘‘ ہے۔ قرض خواہی کے وقت ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ان لوگوں سے قرض لیا جائے جن کو یہ مرض لاحق ہو مگر کیا مجال کے وہ قرض دیکر کبھی بھولے ہوں۔ کسی بھی آدمی کی یادداشت اتنی اچھی نہیں ہوتی کہ وہ ہمیشہ کامیابی سے جھوٹ بول سکے۔ مشکل علاج والے امراض میں سر فہرست نسیان کا مرض ہے اسکے بعد غالباً کینسر ہے۔ کینسر کے ایک مریض نے مرتے وقت ہزاروں گالیاں ڈاکٹروں کو دیں کہ ان کم بختوں نے اب تک کینسر کا علاج دریافت نہیں کیا۔ میرے مرنے کے بعد اگر دریافت کر بھی لیں تو مجھے کیا فائدہ؟
نواب زادہ نصر اللہ خاں مرحوم کی طویل عمری کا راز یہ تھا کہ انہوں نے ڈاکٹروں کے علاوہ ہر ایک کے مشورے پر عمل کیا۔ پرہیز کیا مگر ڈاکٹری پرہیز کبھی نہیں کیا۔ ڈاکٹر جو پرہیز بتاتے ہیں اس کا لب لباب یہ ہوتا ہے کہ ہر بد ذائقہ چیز آپ کھا سکتے ہیں مگر کسی مزیدار چیز کو ہر گز ہاتھ نہ لگائیں۔
ہمارے خاندان میں ایک بزرگ ہیں جو پیٹ کی غذا سے پرہیز کرتے ہیں البتہ ذہنی غذا کے شوقین ہیں یعنی دماغ بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔ ذہنی غذا میں بھی شوگر کی احتیاط ملحوظ رکھتے ہیں۔ کیا مجال کسی مٹھائی کا نام انکی زبان پر آئے۔ نام ان بزرگ کا چوہدری لحاف بٹ ہے۔ انکی زیادہ تر عمر علاج اور آپریشن کراتے گزری ہے۔ جسم کی تقریباً ہر بوٹی آپریشن زدہ ہے۔ ستر سال کی عمر میں ستر آپریشن کراچکے ہیں۔ عمر بھر خاندانی اور غیر خاندانی امراض میں مبتلا رہے۔ طویل العمری بھی ان کا خاندانی مرض ہے۔ سنتے ہیں انکے والد صاحب جب نواسی برس کے ہوگئے تو انکی ایک نواسی اور ایک کم دس نواسے تھے مگر اس عمر میں بھی فرشتہ اجل کو اپنے پاس پھٹکنے نہ دیتے تھے۔
چوہدری لحاف بٹ کی پہلی بیوی جانوروں کی ڈاکٹر تھی اس لئے اپنے شوہر کا علاج کرنے لگی۔ شاید اسی کے علاج کا نتیجہ تھا کہ چوہدری لحاف بٹ کا جسم عمر بھر کیلئے علاج طلب ہوگیا۔ جس حکیم یا ڈاکٹر کا کوئی مدہوش کن سائن بورڈ دیکھتے فوراً مطب کے اندر گھس جاتے اور اپنے بٹوے کا دروازہ وا کردیتے۔ وہ سائن بورڈ کی عبارتوں کا ذکر اکثر کرتے تھے۔ ایک بورڈ کسی ڈاکٹر کا تھا جس پر لکھا تھا:
’’عورتوں وغیرہ کے علاج کا ماہر‘‘
دوسرا بورڈ ایک حکیم کا تھا جس کی عبارت تھی:
’’ہمارا علاج سب سے جداگانہ ہے کیونکہ برسوں کے تجربات کا شاخسانہ ہے‘‘
کچھ بیماریاں چوہدری لحاف بٹ کو ننھیال کی طرف سے ملی تھیں اور کچھ ددھیال کی طرف سے مگر زود گوئی ایسا مرض تھا جو انہیں اپنی ساس اور سسر سے لگا تھا، وہ اسے بڑے فخر کیساتھ اپنا سسرالی مرض کہا کرتے تھے۔ ا نکے گھر والوں کا کہنا ہے کہ جب کبھی لحاف بٹ کو بخار ہوتا ہے ہم انکی کثرتِ ناطقہ اور فضول گوئی سے محفوظ رہتے ہیں کیونکہ بار بار انکے منہ میں تھرمامیٹر لگانا پڑتا ہے۔ تھرمامیٹر ایک ایسا آلہ ہے جو منہ سے الفاظ کی برآمدگی کو روک دیتا ہے۔ کان کا آلہ یعنی ہیرنگ ایڈ انکے کان میں فٹ کرتے وقت ڈاکٹر نے ان سے کہا ’’اگر تم جاننا چاہتے ہو کہ تمہارے اعزہ و احباب تمہاری کیا کیا برائیاں کرتے ہیں تو کسی کو نہیں بتانا کہ تم اب سن سکتے ہو‘‘ لحاف بٹ کو پہلے اپنے سر کے بال نوچنے کی عادت تھی، اب نہیں ہے کیونکہ انہوں نے سارے بال نوچ لئے ہیں اور فارغ البال ہوگئے ہیں۔ انکی خاندانی کار بھی سدا کی روگی ہے۔ عمر بھر اپنی ٹیوٹا گاڑی اور زندگی کی گاڑی کو دھکے سے چلاتے رہے۔ ایک نئی بیماری یہ پیدا ہوگئی ہے کہ انکا سر عمودی طور پر ہر وقت ہلتا رہتا ہے اس لئے ہر بات میں گویا ’’ہاں‘‘ کہتے رہتے ہیں۔ ’’نہیں‘‘ نہ کہنا انکی مجبوری ہے۔
صاحب آج کل بین الاقوامی مرض خواہ کچھ بھی ہو مگر کوئی ہم سے پوچھے کہ بین الاقوامی مریض کون ہے تو ہم فوراً چوہدری لحاف بٹ کا نام لیں گے۔